اپوزیشن مینڈیٹ واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ، راناثناءاللہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16 جنوری 2025)وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور راناثناءاللہ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن مینڈیٹ واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے، پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کر دئیے ہیں، پی ٹی آئی کی جانب سے پیش کئے گئے چارٹر آف ڈیمانڈ کا کوئی جواز نہیں بنتا، اسلام آباد میں سینیٹر عرفان صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نے کہا کہ پی ٹی آئی کا چارٹر آف ڈیمانڈ جھوٹ کے سواء کچھ بھی نہیں۔
اپوزیشن نے اپنے مطالبات میں کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے اور وہ مینڈیٹ واپسی کے مطالبے سے آج دستبردار ہوگئی ہے۔ آج کی ملاقات میں انہوں نے الیکشن کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ان کے پہلے دو بنیادی مطالبات تھے جو آج کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل نہیں ہیں۔(جاری ہے)
انہوں نے پہلے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے اس مطالبے سے وہ دستبردار ہوگئے ہیں جبکہ ان کا دوسرا مطالبہ تھا کہ تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اپنے مطالبات میں انہوںنے کسی ورکر کا نام یا ایف آئی آر کا نمبر نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی کے مطالبات کا جائزہ لے کرجواب دے گی۔کمیٹی میں تمام اتحادی اور پیپلزپارٹی کے اراکین بھی شامل ہیں۔حکومتی کمیٹی مطالبات پر جو جواب دے گی وہ حتمی ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے 2 بنیادی مطالبات ہیں جن کا وہ پچھلے 10، 11 ماہ سے ذکر کرتے آرہے ہیں۔ان میں سے ایکم مطالبہ تو یہ تھا کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے جبکہ دوسرامطالبہ یہ تھا کہ تمام مقدمات سیاسی طور پر بنائے گئے ہیں ۔اپوزیشن نے آج اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت 2 کمیشن قائم کرے اور ان کمیشن کی سربراہی یا چیف جسٹس آف پاکستان کریں یا پھر سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں کسی کو سربراہی دی جائے۔یہ کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 ءکے تحت بنائے جائیں۔اپوزیشن کے پہلے مطالبے پر جس میں مینڈیٹ کی واپسی مینڈیٹ پر ہم انہیں کہتے ہیں کہ اس کیلئے قانونی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ تمام مقدمات سیاسی طور پر بنائے گئے ہیں جس پر ہم نے انہیں کہا تھا کہ آپ ہمیں ایف آئی آر کے نمبرز فراہم کریں کہ کن سیاسی ورکز کے خلاف ایسے مقدمات بنائے گئے ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔تحریری مطالبات میں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کی بات کی گئی تو یہ معاملہ تو پہلے سے سپریم کورٹ میں ہے اور اس پر پہلے سے ہی جوڈیشل ریویو ہوچکا ہے تو اس میں دوبارہ چیف جسٹس کس چیز کی انکوائری کریں گے۔تحریری مطالبات میں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کی بات کی گئی تو یہ معاملہ تو پہلے سے سپریم کورٹ میں ہے اور اس پر پہلے سے ہی جوڈیشل ریویو ہوچکا ہے تو اس میں دوبارہ چیف جسٹس کس چیز کی انکوائری کریں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چارٹر آف ڈیمانڈ مطالبات میں مطالبے سے پی ٹی آئی انہوں نے گئے ہیں پہلے سے تھا کہ
پڑھیں:
وزیر اعظم نے پی ٹی آئی کے مطالبات کے جواب میں کمیٹی بنادی: رانا ثناء اللّٰہ
وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مطالبات کے جواب میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندہ کمیٹی قائم کی ہے، جو پی ٹی آئی کے مطالبات کا جائزہ لے کر باضابطہ جواب دے گی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی پی ٹی آئی کے مطالبات کا تفصیل سے جائزہ لے گی، تاہم فی الحال میں ابتدائی طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں۔
رانا ثناء اللّٰہ نے بتایا کہ اپوزیشن نے آج کے اجلاس میں انتخابات کے حوالے سے کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا، بلکہ پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا، مگر پی ٹی آئی نے اپنے کسی سیاسی قیدی کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے صرف عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ چیف جسٹس یا تین سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جائے، جب کہ 9 مئی کے واقعات پر تحقیقات کا معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ عمران خان کی عدالت میں گرفتاری پر اس وقت کے چیف جسٹس نے نوٹس لیا تھا، اور بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے حوالے سے جوڈیشل عمل مکمل ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں، اور فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والے کچھ افراد کو فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔