اسرائیل نے شام کے ایک فوجی قافلے پر ڈرون حملہ کیا ہے جس میں 3 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے نئی انتظامیہ کی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا ہے۔

شام کی نئی حکومت کے ترجمان نے بیان میں کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 2 اہلکار اور ایک راہگیر شامل ہے جب کہ زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

شام کے ایک طبی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیلی ڈرون حملے میں مارے جانے والا راہگیر ٹاون میئر ہے۔

سیریئن آبزرویٹری کے مطابق اسرائیل نے جس فوجی قافلے کو نشانہ بنایا وہ ملٹری آپریشنز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اسلحے کی تلاش میں قصبے میں حفاظتی مہم میں مصروف تھا۔

8 دسمبر کو صدر بشار الاسد کے حکومت چھوڑ کر روس فرار ہونے اور ملک میں نئی حکومت کے قیام کے فوری بعد اسرائیل نے شام میں فوجی تنصیبات پر سیکڑوں فضائی حملے کیے تھے۔

اسرائیل نے ان حملوں پر مؤقف اختیار کیا تھا کہ شام کی یہ فوجی تنصیبات دشمن کے ہاتھوں میں جانے کا خدشہ تھا اس لیے انھیں تباہ کردیا۔

حالانکہ اسرائیل نے 1967 میں شام کی گولان پہاڑیوں کے مضافات میں قائم کیے گئے غیر فوجی اور غیر مسلح بفر زون میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی فوج تعینات بھی کی تھیں۔

جس پر اقوام متحدہ نے اسرائیل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا یہ عمل عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور جارحیت ہے۔

بشار الاسد کے بعد شام میں بننے والی حکومت کے سربراہ احمد الشرع نے بھی اسرائیلی فوج کے اس عمل کو دراندازی قرار دیا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل نے حکومت کے

پڑھیں:

اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ حقیقی جنگ بن سکتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) ایک سینئر اسرائیلی حکومتی اہلکار نے خبردار کیا کہ ترکی شام میں ایک ''نو عثمانی ریاست‘‘ کے قیام کی کوشش کر رہا ہے اور اگر اس نے ''سرخ لکیر‘‘ کو عبور کیا تو اسرائیل کارروائی کرے گا۔

اس کے جواب میں ترک حکومتی اہلکاروں نے کہا ہے کہ غزہ، لبنان اور شام پر جاری اپنے فضائی حملوں کے ساتھ، اسرائیل کی ''بنیاد اور نسل پرست حکومت‘‘ جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ساتھ ''ہمارے خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ‘‘ بن گئی ہے۔

عالمی برادری اسرائیلی حکومت کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کو یقینی بنائے، انقرہ

یہ تازہ ترین غیر سفارتی تبصرے گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل کیشامپر دوبارہ بمباری کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

دسمبر 2024 ء میں شام کے آمر صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد، اسرائیل نے شام میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ شام کے نئے حکام، جو 14 سال کی تفرقہ انگیز خانہ جنگی کے بعد ملکی عوام کو متحد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں چاہتے۔

اس کے باوجود اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے شام میں بمباری پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئی حکومت اس کے خلاف پرانی حکومت کے ہتھیاروں کا استعمال نہ کرے۔

شامی مہاجرین ترکی میں ’سیاسی فٹ بال‘ کیسے بنے؟

ایک اسرائیلی اہلکار نے مقامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ شام پر گزشتہ ہفتے کے فضائی حملے مختلف تھے۔

ان کا مقصد ترکی کو ایک پیغام دینا تھا۔

حملے کے اہداف کیا تھے؟

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے حما میں ایک فوجی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ حمص میں طیاس، حمص کے ایئربیس ٹی 4 اور دمشق میں سائنسی مطالعات اور تحقیقی مراکز کی برانچوں کو نشانہ بنایا۔

ترکی کی حکمت عملی کیا ہے؟

ترکی کئی مہینوں سے خاموشی سے شام کی نئی حکومت کے ساتھ دفاعی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔

اس میں شامی فوجیوں کو تربیت دینا اور ان شامی ہوائی اڈوں کا استعمال کرنا شامل ہے، جن پر اسرائیل نے حملہ کیا۔ ترکی کا استدلال یہ ہے کہ ایران اور روس، جو کہ شام کی معزول حکومت کے سابق فوجی حامی رہے ہیں، نے شام میں جو خلا چھوڑ دیا ہے، وہ اسے پُر کرتے ہوئے شام میں استحکام لانے اور شدت پسند ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ گروپ کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

ترکی، عراق، شام اور اردن کا داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کا فیصلہ

اسرائیل اسے کیسے دیکھ رہا ہے؟

اسرائیل کے دفاعی نامہ نگار رون بین یشائی نے مقامی آؤٹ لیٹ، Ynet نیوز کے لیے لکھا، ''مرکزی شام کے ہوائی اڈوں پر فضائی دفاعی نظام اور ریڈار متعارف کرانے کا ترکی کا ارادہ شام میں اسرائیل کی آزادی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔

ترکی کی شام میں موجودگی کی وجہ سے اسرائیل آزادانہ طور پر ایران کی طرف بڑھنے کے لیے شام کی فضائی حدود استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘ اسد حکومت کے دور میں شام کی فضائی حدود کے استعمال پر زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔

دریں اثناء اسرائیلی میڈیا نے سکیورٹی بجٹ اور فورس کی تعمیر کا جائزہ لینے سے متعلق 'ناگل کمیشن‘ کی رپورٹ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

یہ کمیشن اگست 2024 ء میں قائم مقام اسرائیلی سکیورٹی مشیر جیکب ناگل کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ اسرائیل کے مستقبل کے دفاعی بجٹ کے لیے سفارشات پیش کی جاسکیں۔ جنوری میں جب کمیشن کی رپورٹ جاری کی گئی تو اسرائیلی ذرائع نے کہا کہ اس نے ترکی کے ساتھ آنے والی جنگ سے انتباہ کیا ہے۔

یورپی یونین کا ’ایئر برج‘ کے ذریعے شام کو امداد کی فراہمی کا اعلان

تاہم اسرائیل اور ترکی کے درمیان براہ راست تصادم کا امکان نہیں ہے۔

کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت اس ہفتے شروع ہوئی ہے کیونکہ اگر اسرائیل نے غلطی سے بھی ترک فوج کو نشانہ بنایا تو اس سے سنگین تنازعہ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

اس بات کا امکان بھی نہیں ہے کہ اسرائیل کا اتحادی اور دیرینہ دوست امریکہ ترکی کے ساتھ تصادم کی منظوری دے گا۔

ادارت عاطف بلوچ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل اور ترکی کے درمیان لفظی جنگ حقیقی جنگ بن سکتی ہے؟
  • شانگلہ: پولیس کی گاڑیوں کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکا
  • جوڈیشل کمیشن :  پہلی بار حکومت،PTI میں جج تعیناتی پر اتفاق
  • دیر: ہائی ویلیو ٹارگٹ سمیت 2 خارجی ہلاک
  • دیر میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، ہائی ویلیو ٹارگٹ سمیت 2 خارجی ہلاک
  • سیکورٹی فورسز کا تیمرگرہ میں آپریشن، ہائی ویلیو ٹارگٹ سمیت 2 دہشتگرد ہلاک
  • وزیراعظم شہباز شریف کا لوئر دیر میں دہشتگردوں کی ہلاکت پر سیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • سکیورٹی فورسز کا تیمرگرہ میں آپریشن، ہائی ویلیو ٹارگٹ سمیت 2 خوارج ہلاک
  • سیکیورٹی فورسز کا لوئر دیر میں آپریشن، دو دہشت گرد ہلاک
  • سیکورٹی فورسز کا تیمرگرہ میں آپریشن، ہائی ویلیو ٹارگٹ سمیت 2 خوارج ہلاک