چھوٹی گاڑیوں کی الیکٹرک ٹیکنالوجی پر منتقلی کیلئے فنڈز فراہم کرنے کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد:وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے چھوٹی گاڑیوں کی الیکٹرک ٹیکنالوجی پر منتقلی کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی تجویز دے دی۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری سے فرانس کے سفیر نکولس گیلے نے اسلام آباد میں ملاقات کی جبکہ ملاقات کے دوران پاور سیکٹر کو مزید مستحکم بنانے پر بھی اتفاق ہوا۔
اس موقع پروفاقی وزیر توانائی نے فرانسیسی سفیر کو بتایا کہ پاکستان نے ای وی پالیسی متعارف کردی ہے جو سالانہ 6 بلین ڈالر کے ایندھن کی بچت اور ماحول کی حفاظت یقینی بنائے گی۔
فرانسیسی سفیرنے پاکستان کے پاور سیکٹر کی آئی پی پیز کے ساتھ مؤثر مذاکرات اور معاہدوں کی خوش اسلوبی سے نظر ثانی کی تعریف کی۔
سرداراویس لغاری نے کہا کہ حکومت پاکستان جلد بجلی کی وِیلنگ پالیسی متعارف کروا رہی ہے، اضافی بجلی کی نیلامی کا بھی منصوبہ بنایا جا رہا ہے، غیر جانبدار بورڈز ریکوری میں بہتری اور لائن لاسز کو کم کر رہے ہیں، حکومت شمسی توانائی کو فروغ دے رہی ہے اور پاکستان میں سولر انقلاب آ چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان تمام اصلاحات بہت شفاف طریقے سے کر رہی ہے، ان اصلاحات کی بدولت پاور سیکٹر میں بڑی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، پاکستان قابل تجدید توانائی اور سبز منصوبوں میں نمایاں پیشرفت کر رہا ہے۔
فرانسیسی سفیر نے کہا کہ فرانس پاور سیکٹر کی تمام اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، فرانس ای وی اور دوسری اصلاحات کو مالی معاونت فراہم کرنے کا خواہاں ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاور سیکٹر
پڑھیں:
پاکستان سولر پینلز درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا
برطانوی توانائی تھنک ٹینک “ایمبر” کی عالمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ کوئی بڑی قانون سازی ہوئی، نہ عالمی سرمایہ کاری کی یلغار اور نہ ہی وزیرِاعظم نے سبز انقلاب کا اعلان کیا، اس کے باوجود 2024 کے آخر تک پاکستان نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔
پاکستان نے صرف 2024 میں ہی 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کی صفِ اول کی سولر مارکیٹس میں شامل ہو گیا ہے، یہ اضافہ 2023 کی نسبت دوگنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سولر درآمدات کی یہ وسعت خاص طور پر اِس لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ہوا ہے۔
زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی اداروں کی طرف ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سولر پر منتقلی اُن لوگوں اور کاروباروں کی بقاء کی کوشش ہے جو غیر مؤثر منصوبہ بندی اور غیر یقینی فراہمی کے باعث قومی گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، یہ پاکستان میں توانائی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔
صرف مالی سال 2024 میں ہی پاکستان کی سولر پینلز کی درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب قومی گرڈ کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے خود کو ڈھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ انفرااسٹرکچر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا، اس منتقلی کو پائیدار اور منظم بنانے کے لیے نظام کی اپڈیٹڈ منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔
صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹرز نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے اور درآمدات پر کچھ نرمی بھی کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر پیداوار اب بھی بہت کم ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ زیادہ تر نئی تنصیبات گرڈ سے باہر کام کر رہی ہیں اور قومی بجلی کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہو رہیں۔
Post Views: 1