واٹس ایپ وائس نوٹس: ایک آسان رجحان یا سرکاری رابطے کے لیے خطرناک شارٹ کٹ؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
آج کل کی تیز رفتار دنیا میں، واٹس ایپ گروپس کا استعمال بات چیت کے لیے ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ فوری رابطے اور معلومات کی تیز تر ترسیل کے لیے ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ تاہم، ایک رجحان سامنے آ یا ہے جس میں اہم سرکاری نوٹیفیکیشنز اور سرکولر وائس نوٹس کے ذریعے شیئر کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ واقعی بہترین طریقہ ہے یا ہم صرف ایک آسان شارٹ کٹ اختیار کر رہے ہیں؟
رسمی رابطے کی روایات ہمیشہ تحریری شکل میں رہی ہیں، چاہے وہ میمو، ای میل یا سرکاری خطوط کی صورت میں ہوں یا کسی اور صورت میں۔ تحریری پیغامات میں ایک خاص نوعیت کی حاکمیت اور شفافیت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، وائس نوٹس اگرچہ ذاتی طور پر سہولت بخش ہوتے ہیں، لیکن وہ اتنے باضابطہ نہیں ہوتے۔ ایک وائس نوٹ فوری طور پر سنا جا سکتا ہے، مگر اس کا ریکارڈ برقرار نہیں رہتا۔جبکہ سرکاری نوٹیفیکیشنز کو واضح اور شفاف ہونا چاہیے۔
اگرچہ وائس نوٹس فوری اور آسان ہوتے ہیں، لیکن کیا وہ سرکاری نوٹیفیکیشنز کے لیے مناسب ہیں؟ مختصر جواب ہے۔ نہیں۔ وائس نوٹس ایک غیر رسمی ذریعہ ہیں، جو اکثر ذاتی یا ٹیم کی سطح پر استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں وہ سرکاری انداز اور اہمیت نہیں ہوتی جو تحریری پیغامات میں پائی جاتی ہے۔ جب اہم باتیں وائس نوٹ میں کہی جاتی ہیں، تو ان کے غلط سمجھنے یا نہ سنے جانے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ تحریری نوٹیفیکیشنز میں یہ خطرات بہت کم ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں ہر بات واضح طور پر درج کی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں، وائس نوٹس کا ریکارڈ ختم بھی ہو سکتا ہے، اور جب کسی وضاحت کی ضرورت ہو، تو اصل پیغام کو دوبارہ تلاش مشکل ہو تا ہے ۔تحریری نوٹیفیکیشنز ہمیشہ ایک مربوط ریکارڈ فراہم کرتے ہیں، جس سے کسی بھی وقت رجوع کیا جا سکتا ہے۔
وائس نوٹس ایک وقتی پیغام ہوتا ہے۔ جیسے ہی آپ اس کو سن لیتے ہیں، اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے، اور دوبارہ اس کا حوالہ لینا مشکل ہوتا ہے۔ سرکاری نوٹیفیکیشنز کو محفوظ اور باآسانی قابل رسائی ہونا چاہیے۔ وائس نوٹس میں آپ کے لہجے، انداز یا کسی اور تفصیل کو غلط سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک چھوٹا سا فرق بات کے مفہوم کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔ تحریری نوٹس میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، کیونکہ ہر بات واضح اور درست ہوتی ہے۔ ہر شخص وائس نوٹس سننے کے قابل نہیں ہوتا، خاص طور پر ان حالات میں جہاں وہ شور شرابے میں یا عوامی جگہوں پر ہو۔ اسی طرح، جو لوگ سننے میں مشکل کا سامنا کرتے ہیں، ان کے لیے وائس نوٹس بالکل ناقابل رسائی ہوتے ہیں۔ تحریری نوٹیفیکیشنز ہر کسی کے لیے آسانی سے قابل رسائی ہوتے ہیں۔ وائس نوٹس کی غیر رسمی نوعیت سرکاری رابطے کے سنجیدہ انداز کو متاثر کر تی ہے۔ سرکاری نوٹیفیکیشنز کو اہمیت اور سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے، جو وائس نوٹس میں ممکن نہیں۔ وائس نوٹس بہت تیز اور آسان لگتے ہیں، مگر جب مختلف افراد ایک کے بعد ایک وائس نوٹس بھیجنے لگتے ہیں، تو اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ضروری معلومات ضائع ہو جاتی ہیں۔ تحریری نوٹیفیکیشنز سے آپ چند لمحوں میں اہم باتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہےکہ کیا وائس نوٹس کے ذریعے سرکاری نوٹیفیکیشنز شیئر کرنا سرکاری سمجھا جا سکتا ہے؟ زیادہ تر پیشہ ورانہ ماحول میں اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ سرکاری نوٹیفیکیشنز واضح، قابل اعتماد اور ریکارڈ میں محفوظ ہونے چاہئیں—ایسی خصوصیات جو تحریری پیغامات خود بخود فراہم کرتے ہیں۔ وائس نوٹس ان ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
یہ رجحان شروع میں تو آسان لگتا ہے، مگر اس کے طویل المدتی نتائج پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، وائس نوٹس کے ذریعے اہم پیغامات کو سمجھنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ لوگ بار بار ایک ہی پیغام کو سننے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بعض تفصیلات کو سمجھے بغیر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، معلومات کی درست ترسیل میں کمی آتی ہے۔
اگر ہمارے اداروں، یونیورسٹیز، کالجز، دفاتر اور پیشہ وارانہ ماحول میں یہ رجحان جاری رہا تو ہم سرکاری نوٹیفیکیشنز کی سنجیدگی اور شفافیت کو کھو دیں گے۔ اگر نوٹیفیکیشنز سرکاری نہیں لگیں گے تو ان کا اثر بھی کم ہو سکتا ہے۔ اس سے ادارے یا اداروں کی پیشہ ورانہ ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔
اس رجحان کو درست کرنے کے لیے ہمیں کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وائس نوٹس کا استعمال ختم کر دینا چاہیے۔ ان کا استعمال غیر رسمی اپ ڈیٹس یا کسی اضافی وضاحت کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ مگر اہم سرکاری نوٹیفیکیشنز کے لیے تحریری رابطے کو ترجیح دینی چاہیے۔
سرکاری نوٹیفیکیشنز تحریری طور پر بھیجے جائیں، چاہے وہ ای میل کے ذریعے ہوں یا کسی آفیشل پلیٹ فارم کے ذریعے۔ تحریر میں وضاحت، سنجیدگی اور ریکارڈ رکھنے کی وہ تمام خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو ایک سرکاری نوٹیفیکیشن میں ہونی چاہیے۔ اداروں کو واضح طور پر یہ تعین کرنا چاہیے کہ کون سا پلیٹ فارم رسمی نوٹیفیکیشنز کے لیے استعمال ہوگا۔ واٹس ایپ گروپوں کو غیر رسمی گفتگو کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن سرکاری نوٹیفیکیشنز ہمیشہ تحریری شکل میں ہونے چاہئیں۔ وائس نوٹس کا استعمال صرف غیر رسمی اپ ڈیٹس یا اضافی معلومات کے لیے کیا جانا چاہیے۔ اگر انہیں استعمال کیا جائے، تو ان کے ساتھ ایک تحریری خلاصہ بھی دیا جانا چاہیے تاکہ پیغام واضح اور دستاویزی ہو۔ادارے آفیشل نوٹیفیکیشنز کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے ای میل یا ادارتی سسٹمزکا استعمال کریں، یہ پلیٹ فارمز تحریری پیغامات کی ترسیل کے لیے بہترین طریقہ ہیں۔
واٹس ایپ وائس نوٹس کا استعمال سرکاری نوٹیفیکیشنز کے لیے ایک آسان شارٹ کٹ لگتا ہے، لیکن یہ پیشہ ورانہ معیار اور شفافیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ وائس نوٹس کی سہولت کے باوجود، تحریری نوٹیفیکیشنز وہ واحد طریقہ ہیں جو معلومات کی درستگی، دستاویزات اور پیشہ ورانہ ساکھ کو برقرار رکھتے ہیں۔ لہذا، سرکاری رابطوں کے لیے ہمیں تحریری پیغامات پر واپس جانا چاہیے تاکہ ہر پیغام کی اہمیت، سنجیدگی اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
شفاف اور سماجی انصاف پر مبنی اسلامی بینکاری کا بڑھتا رجحان
پاکستان میں بینکاری کا شعبہ گزشتہ ایک دہائی سے بڑی تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے اور وہ تبدیلی ”سود سے پاک بینکاری“ یعنی ”اسلامی بینکاری“ ہے، جو پاکستان کے مالیاتی منظرنامے میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے، جس کا ثبوت اسلامی بینکوں کی تیزی سے ترقی ہے۔
شرعی اصولوں پر مبنی اسلامک بینکنگ کے اثاثے گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 97 کھرب روپے کی سطح پر جا پہنچے ہیں، جو مجموعی بینکنگ سیکٹر کا 18.7 فیصد ہے۔ دس سال قبل یہ تناسب 10.4 فیصد تھا۔
اسلامی بینکوں کے نیٹ ورک میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جن کی برانچوں کی تعداد 868 سے 2 ہزار 806 پر جا پہنچی، جب کہ روایتی بینکوں کی اسلامی شاخیں 391 فیصد اضافے سے 467 سے بڑھ کر 2295 ہوگئی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں کنونشنل بینکوں کی برانچوں میں 19.9 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جن کی تعداد 9 ہزار 649 سے 11 ہزار 577 پر پہنچ گئی ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک اسلامی بینکاری کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کےلیے مخصوص ہے، لیکن اب یہ تاثر ختم ہوتا جارہا ہے اور مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی بڑی تیزی کے ساتھ اسلامی بینکاری اپنا رہے ہیں۔ اس وقت 100 سے زائد ممالک میں اسلامک بینکنگ ہورہی ہے۔ مصر، دبئی، ابوظہبی، سعودی عرب، کویت، بحرین، پاکستان جیسے مسلم ممالک کے ساتھ برطانیہ، بھارت، تھائی لینڈ، سنگاپور سمیت بہت سے غیر مسلم ممالک میں اسلامی بینکاری ہورہی ہے۔ اس کی وجہ شرعی اصولوں، اخلاقی طریقوں اور انصاف پر مبنی مالیاتی نظام ہے۔ جو ہر اُس شخص کےلیے پرکشش ہے جو شفافیت اور سماجی انصاف پر مبنی مالیاتی نظام کا متلاشی ہے۔
اسلامی بینک تمام عقائد اور پس منظر کے حامل صارفین کو خدمات فراہم کرتے ہیں اور ایسے بینکنگ پروڈکٹس پیش کرتے ہیں جو صارفین کے مفاد میں ہوتے ہیں، جیسے جیسے عالمی مالیاتی نظام ترقی کررہا ہے، ویسے ویسے اسلامی مالیاتی مصنوعات کی طلب بڑھتی جارہی ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بینکاری اور کنونشنل بینکنگ میں کوئی فرق نہیں اور یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جو غلط ہے۔ اسلامی بینک ایک ایسا مالیاتی ادارہ ہے جو اپنے معاملات کو شرعی احکامات کے مطابق انجام دیتا ہے جس میں سودی لین دین کی قطعی ممانعت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کنونشل بینکنگ کی طرح اسلامی بینکاری بھی ایک کاروبار ہے اور دونوں ہی فنانسنگ کے طریقے ہیں، تاہم اسلامک بینکنگ یا اسلامی طریقہ تجارت میں کچھ چیزوں کی اجازت دی گئی ہے اور کچھ کی ممانعت ہے۔
تجارت کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ مثلاً خرید و فروخت، کرایہ داری، شراکت داری، سرمایہ کاری وغیرہ، لیکن اسلام نے ایک طریقے کو تجارت سے نکال دیا ہے اور وہ یہ کہ ”قرض دے کر پیسے سے پیسے کمانا“۔ یہ تجارت نہیں سود ہے۔ اور اسلام میں سود سے منع کیا گیا ہے۔ اسلامی بینک جامع لیکن مسابقتی مصنوعات پیش کرتے ہیں، جس میں رِبا (سود)، غرار (حد سے زیادہ غیریقینی) اور حرام (ممنوعہ) سرگرمیوں سے بچا جاتا ہے۔ بچت اکاؤنٹس، کاروبار، ہوم فنانسنگ، انویسٹمنٹ فنڈز اور تمام بینکاری مصنوعات مارکیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے شرعی اصولوں کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ اسلامی بینک گھر، گاڑی و دیگر اشیاء اپنے صارفین کو کرایے پر دے کر منافع کماتے ہیں، جبکہ کنونشنل بینک اپنے صارفین کو قرض دے کر ایک خاص شرح سے سود لیتے ہیں۔
اسلامی بینکنگ میں کاروبار یا تجارت کے بہت سے طریقے ہیں، جن میں مضاربہ (نفع و نقصان میں شراکت داری)، مشارکہ (مشترکہ منصوبہ)، مرابحہ (لاگت + منافع)، اجارہ (کرایہ یا لیزنگ)، سَلَم (زرعی معاہدہ)، استصناع (مینوفیکچرنگ معاہدہ) وغیرہ اہم ہیں۔ یہ تمام صورتیں تجارت کی ہیں، جن سے ہر آدمی کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت اسلامک بینکنگ کے تین ماڈلز کام کررہے ہیں۔ مکمل اسلامی بینک، کنونشنل بینکوں کی اسلامی بینکاری کے ذیلی ادارے اور کنونشنل بینکوں کی اسلامی بینکنگ شاخیں۔ بینکنگ کا لائسنس الگ، شریعہ بورڈ الگ، قوانین الگ، شریعہ آڈٹ الگ اور فنانشنل آڈٹ الگ ہوتا ہے۔ صورت کوئی بھی ہو اسلامی بینکاری کا الگ ایک پورا نظام ہوتا ہے۔ یہ ایک ریگولیٹڈ سیٹ اَپ ہے، جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) ریگولیٹ کرتا ہے۔
اسلامی بینک ہو یا کسی روایتی بینک کا اسلامک بینکنگ ونڈو یا اُس کا الگ سے اپنا اسلامی بینک، ان سب کی نگرانی شریعہ بورڈ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ شریعہ کمپلائنس کا ایک مکمل نظام موجود ہوتا ہے جس کی متعدد تہہ ہوتی ہیں۔ بینک کا شریعہ بورڈ، شریعہ کمپلائنس کے شعبہ کے ذریعے شرعی اصولوں کی پاسداری کو یقینی بناتا ہے۔ شریعہ آڈٹ کا الگ سے نظام موجود ہوتا ہے جو کہ ایک منظم طریقے سے بینک کی جانب سے کی گئی سرگرمیوں کا آڈٹ کرتا ہے اور شریعہ بورڈ کے کسی حکم کی خلاف ورزی پائی جائے تو اسے شریعہ بورڈ کے علم میں لاکر خیرات کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایس بی پی اور ایکسٹرنل آڈیٹر بھی اپنے اپنے نظام کے ذریعے شریعہ بورڈ کے احکام کی پاسداری کو یقینی بناتے ہیں۔
پاکستان میں متعدد اسلامی بینک ہیں جبکہ روایتی بینکوں نے بھی اسلامی بینکاری برانچیں اور ذیلی بینک قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں روایتی بینکاری سے اسلامی پر منتقل ہونے کا عمل بھی تقویت پارہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال فیصل بینک ہے۔ جس کو دنیا میں روایتی بینکاری سے اسلامی پر منتقل ہونے والا ایک مکمل اور سب سے بڑا بینک قرار دیا جارہا ہے۔ فیصل بینک اسلامی بینکاری کو جدید انداز میں پیش کررہا ہے۔ فیصل بینک نے سب سے پہلے شرعی اصولوں کے مطابق نور کریڈٹ کارڈ متعارف کرایا ہے۔ فیصل بینک کے کامیابی سے روایتی بینکاری سے اسلامی پر منتقل ہونے کے بعد اب پاکستان میں دیگر بینکس بھی اپنے کاروبار کو شرعی اصولوں کے مطابق ڈھالنے پرکام کررہے ہیں۔ اور آنے والے دنوں میں متعدد بینکس روایتی سے اسلامی پر منتقل ہوچکے ہوں گے۔
جامع ریگولیٹری فریم ورک، جدید فنانشل پروڈکٹس اور شریعت کے مطابق بینکاری کی وجہ سے اسلامک بینکنگ تیزی سے ترقی کررہی ہے اور اس نے پاکستانی معیشت میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔
پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا ماڈل اُن ممالک کےلیے مشعل راہ ہے جو اسلامی بینکاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ بات تو اب ثابت ہوچکی ہے کہ روایتی اور جدید مالیاتی طریقوں کا متوازن امتزاج ملکی اور عالمی سطح پر صارفین کو اُن کی ضروریات کے مطابق خدمات فراہم کرسکتا ہے۔
پاکستان میں تو ویسے بھی وفاقی شرعی عدالت نے بینکاری نظام کو دسمبر 2027 تک مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کا حکم دے رکھا ہے، جس کی وجہ سے توقع ہے کہ پاکستان میں بینکاری نظام جلد ہی مکمل طور پر سود سے پاک ہوگا۔ انشاء اللہ!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔