کرم: امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر فائرنگ، حملہ آوروں نے گاڑیوں کو آگ لگا دی
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
خیبرپختونخوا کے شورش زدہ قبائلی ضلع کرم کے لیے امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملہ ہوا ہے اور مسلح افراد نے فائرنگ کے بعد لوٹ مار کرنے کی کو شش کی ہے اور گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی ہے۔
کرم پولیس اور ڈپٹی کمشنر آفس نے فائرنگ کے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ واقعہ بگن گاؤں میں اس وقت پیش آیا جب سخت سیکیورٹی میں قافلہ پاڑا چنار جارہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کرم: کے پی حکومت نے بنکر مسمار کرنے کا عمل شروع کردیا
کرم پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ قافلہ جوں ہی بگن کے علاقے میں داخل ہوا تو اسے بھاری ہتھاریوں سے نشانہ بنایا گیا، تاہم اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور تمام ڈرائیورز اور اہلکار محفوظ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے بعد مسلح افراد نے لوٹ مار کی بھی کوشش کی، جس پر سیکیورٹی اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ شروع کی، حملہ آوروں کے خلاف اس وقت بھی کارروائی جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرم میں ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ میں ملوث 2 افراد گرفتار
حکام کے مطابق، آج کلیئرنس کے بعد ٹل سے 35 بڑی گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت دی گئی تھی جو اشیا خورونوش اور دیگر سامان لے کر پاڑا چنار جارہی تھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امدادی سامان پاڑا چنار جلا دیں خیبرپختونخوا فائرنگ قافلے کرم گاڑیاں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جلا دیں خیبرپختونخوا فائرنگ قافلے گاڑیاں
پڑھیں:
کرم: امدادی قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 10
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) کرم میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زائد سے حالات کشیدہ ہیں اور علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ وہاں کی آبادی ایک طرح سے محصور ہو کر رہ گئی۔ جمعرات کو انہی لاکھوں محصور شہریوں کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان لے جانے والے 33 گاڑیاں پر حملہ کیا گیا تھا۔
کرم: تعاون نہ کرنے کی پاداش میں اشیائے ضرورت کی سپلائی بند
ایک مقامی پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد اب دس تک پہنچ چکی ہے اور ہلاک شدگان میں دو سکیورٹی اہلکار، چار ڈرائیور اور چار شہری شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ پانچ سے چھ ڈرائیورز کو ایک مقامی گروپ نے اغوا کر لیا ہے۔(جاری ہے)
ضلع کرم حالیہ برسوں سے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں کی لپیٹ میں رہا ہے. لیکن پھچلے سال نومبر میں تشدد میں اضافہ تب ہوا جب حملہ آوروں نے شیعہ مسلمانوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر فائرنگ کی، جس میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔
تب سے لے کر اب تک اس تشدد میں کم از کم 140 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اس فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے جنگ بندی کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف مشین گنوں اور بھاری ہتھیاروں کا استمعال کر رہے ہیں۔
قومی سطح پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے میں صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ اسی وجہ سے کرم میں گزشتہ عشروں کے دوران بار بار فرقہ وارانہ تصادم دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر بھی اسی کشیدگی کا تسلسل ہے۔ ضلع کرم کا رابطہ فی الحال بیرونی دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔