خیبرپختونخوا کے شورش زدہ قبائلی ضلع کرم کے لیے امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملہ ہوا ہے اور مسلح افراد نے فائرنگ کے بعد لوٹ مار کرنے کی کو شش کی ہے اور گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی ہے۔

کرم پولیس اور ڈپٹی کمشنر آفس نے فائرنگ کے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ واقعہ بگن گاؤں میں اس وقت پیش آیا جب سخت سیکیورٹی میں قافلہ پاڑا چنار جارہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کرم: کے پی حکومت نے بنکر مسمار کرنے کا عمل شروع کردیا

کرم پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ قافلہ جوں ہی بگن کے علاقے میں داخل ہوا تو اسے بھاری ہتھاریوں سے نشانہ بنایا گیا، تاہم اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور تمام ڈرائیورز اور اہلکار محفوظ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے بعد مسلح افراد نے لوٹ مار کی بھی کوشش کی، جس پر سیکیورٹی اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ شروع کی، حملہ آوروں کے خلاف اس وقت بھی کارروائی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرم میں ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ میں ملوث 2 افراد گرفتار

حکام کے مطابق، آج کلیئرنس کے بعد ٹل سے 35 بڑی گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت دی گئی تھی جو اشیا خورونوش اور دیگر سامان لے کر پاڑا چنار جارہی تھیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امدادی سامان پاڑا چنار جلا دیں خیبرپختونخوا فائرنگ قافلے کرم گاڑیاں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جلا دیں خیبرپختونخوا فائرنگ قافلے گاڑیاں

پڑھیں:

کرم: امدادی قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) کرم میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زائد سے حالات کشیدہ ہیں اور علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ وہاں کی آبادی ایک طرح سے محصور ہو کر رہ گئی۔ جمعرات کو انہی لاکھوں محصور شہریوں کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان لے جانے والے 33 گاڑیاں پر حملہ کیا گیا تھا۔

کرم: تعاون نہ کرنے کی پاداش میں اشیائے ضرورت کی سپلائی بند

ایک مقامی پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد اب دس تک پہنچ چکی ہے اور ہلاک شدگان میں دو سکیورٹی اہلکار، چار ڈرائیور اور چار شہری شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ پانچ سے چھ ڈرائیورز کو ایک مقامی گروپ نے اغوا کر لیا ہے۔

(جاری ہے)

ضلع کرم حالیہ برسوں سے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں کی لپیٹ میں رہا ہے. لیکن پھچلے سال نومبر میں تشدد میں اضافہ تب ہوا جب حملہ آوروں نے شیعہ مسلمانوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر فائرنگ کی، جس میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔

تب سے لے کر اب تک اس تشدد میں کم از کم 140 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے جنگ بندی کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف مشین گنوں اور بھاری ہتھیاروں کا استمعال کر رہے ہیں۔

قومی سطح پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے میں صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ اسی وجہ سے کرم میں گزشتہ عشروں کے دوران بار بار فرقہ وارانہ تصادم دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر بھی اسی کشیدگی کا تسلسل ہے۔ ضلع کرم کا رابطہ فی الحال بیرونی دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کُرم ،امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملہ، اموات کی تعدادکہاں تک جا پہنچی ؟ جانیں
  • کرم: امدادی قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 10
  • پاڑا چنار: امدادی قافلہ لے جانے والے 6 لاپتا افراد کی بوری بند لاشیں برآمد، بمشکل طے پایا امن معاہدہ ختم
  • پاراچنار جانے والے امدادی قافلے پر حملہ، شہید اہلکاروں کی تعداد 2 ہوگئی
  • پارا چنار جانے والے قافلے پر پھرفائرنگ، جوان شہید،4زخمی
  • کرم شورش: بگن میں خوراک و ادویات کی رسد کاٹنے کے لیے امدادی قافلے پر راکٹ حملے و فائرنگ
  • خیبرپختونخوا: لوئر کُرم میں امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملہ، سپاہی شہید، 4 زخمی
  • پاراچنار جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر ایک بار پھر فائرنگ، کانوائے واپس
  • پارا چنار جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر ایک بار پھر فائرنگ