عدالتی فیصلے کے باوجود غلام محمد علی چیئرمین پی اے آر سی کے عہدے پر براجمان، ہٹانے کا نوٹیفکیشن کیوں جاری نہ ہو سکا ، تفصیلات سب نیوز پر
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
عدالتی فیصلے کے باوجود غلام محمد علی چیئرمین پی اے آر سی کے عہدے پر براجمان، ہٹانے کا نوٹیفکیشن کیوں جاری نہ ہو سکا ، تفصیلات سب نیوز پر WhatsAppFacebookTwitter 0 16 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)وزارت فوڈ سکیورٹی نے تاحال ڈاکٹر غلام محمد علی کو چیئرمین پی اے آر سی کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، زرائع کے مطابق وزارت کا عمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی، توہین عدالت کا کیس بن سکتا ہے،
ڈاکٹر غلام علی جسٹس بابر ستار کے فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے تک اپنے اپ کو عہدے پر بچانے کیلئے سرگرم ہیں ۔
وزارت فوڈ سیکیورٹی میں ڈاکٹر غلام علی کی حمایت کرنے والے افسران انہیں ہٹانے میں رکاوٹ،
ذرائع کے مطابق وزارت ڈاکٹر غلام علی کو اپنے فوائد کے حصول اور زاتی امور نمٹانے کیلئے چند دن تک ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے گریزاں ہے ۔
وزارت کی طرف سے پی اے آر سی اور وزارت کے سنئیر افسران میں سے کسی کو عارضی چارج دینے پر بھی غور کیا جا رہا ہے ۔
ڈاکٹر غلام علی فیصلے کیخلاف اپیل میں جا کر خلاف ضابطہ تقرری و توسیع کے کیس میں ریلیف لینا چاہتے ہیں،
ڈاکٹر غلام علی کیخلاف خلاف ضابطہ تقرری کیس کے مدعی کا انہیں ہٹانے میں لیت و لعل پر توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے پر غورشروع کردیا گیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پی اے ا ر سی سب نیوز
پڑھیں:
حکومت کی جانب سے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش
وفاقی حکومت نے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے آبی وسائل معین وٹو نے 6 نئی نہروں سے متعلق تحریری تفصیلات ایوان میں پیش کیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پنجاب کے لیے چھوٹی چولستان نہر کے منصوبے کے لیےارسا نے جنوری 2024 میں این او سی جاری کیا، یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی مالی معاونت سے مکمل کیا جا رہا ہے، جب کہ منصوبے کی کل لاگت 225 ارب 34 کروڑ روپے ہے جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے ایکنک کو بھجوا دیا ہے، تاہم ایکنک نے تاحال اس کے پی سی ون پر غور نہیں کیا۔معین وٹو نے بتایا کہ حکومت سندھ نے 15 نومبر 2024 کو ارسا کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے کی سمری ارسال کی جب کہ تھر کینال منصوبے کے لیے ارسا سے این او سی کی باضابطہ درخواست نہیں دی گئی۔ واپڈا نے اس منصوبے کے لیے 212 ارب روپے کا پی سی ون جمع کرایا ہے، منصوبہ فی الحال غیر منظور شدہ ہے۔
وزیر آبی وسائل کے مطابق گریٹر تھل کینال کے لیے ارسا نے مئی 2008 میں پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا، اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 10 ارب 17 کروڑ روپے کی لاگت سے 2010 میں مکمل ہو چکا ہے اور اسے پنجاب کے حوالے بھی کیا جاچکا ہے، دوسرے مرحلے کی منظوری ایکنک نے 2024 میں سی سی آئی سے مشروط کر کے دی ہے۔وزیر آبی وسائل نے بتایا کہ برساتی نہر منصوبے کے لیے ارسا نے ستمبر 2002 میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ فیز ون 17 ارب 88 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور اسے حکومت سندھ کے حوالے کر دیا گیا، فیز ٹو کی تجویز کو جی او سی مشاورتی اجلاس میں مسترد کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لیے شروع کیے گئے نہری منصوبے کا این او سی ارسا نے اکتوبر 2003 میں جاری کیا، اس کا فیز ون 2017 میں مکمل ہوا، تاہم 2022 کے سیلاب میں اسے نقصان پہنچا، واپڈا نے متاثرہ حصوں کی مرمت جزوی طور پر کر دی ہے، رواں مالی سال مارچ تک اس منصوبے کے لیے 22 ارب 92 کروڑ روپے مختص کیے گئے جب کہ فیز ٹو کے لیے 70 ارب روپے کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے جس کی منظوری کا انتظار ہے۔معین وٹو کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے لیے سی بی آر سی نہر کو ارسا نے اپریل 2004 میں این او سی دیا جب کہ ایکنک نے 2022 میں 189 ارب 61 کروڑ روپے کا پی سی ون منظور کیا، یہ منصوبہ فی الحال ایوارڈ کے عمل سے گزر رہا ہے۔