پاکستان میں سوشل میڈیا کی دنیا نے گزشتہ کچھ سالوں میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے، اور اس نے لوگوں کو نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ مگر اسی پلیٹ فارم کا استعمال بعض افراد اور گروہ ایک منفی اور تخریبی مقصد کے تحت کر رہے ہیں جو نہ صرف ذاتی مفادات کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ پورے ملک کے استحکام اور اتحاد کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے جھوٹ، نفرت، اور پروپیگنڈے نے پورے پاکستان کو متاثر کیا ہے اور ملک کی ساکھ اور یکجہتی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
حال ہی میں معروف صحافی ابصار عالم نے ! جھوٹ پھیلائو ۔ ڈالر کمائو ! کے عنوان سے ثبوتوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے جھوٹ کا پردہ فاش کیا جنہوں نے عوام کو گمراہ کرنے اور ریاست مخالف خیالات کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ ان میں سے کچھ افراد نے جعلی ویڈیوز، جھوٹے دعوئوں اور حقیقت کو مسخ کرنے والی معلومات کو اس انداز میں پھیلایا کہ ان کا مقصد لوگوں کے درمیان نفرت اور بدامنی پیدا کرنا تھا۔ ان کی جھوٹی مہموں کی بدولت سینکڑوں بے گناہ نوجوانوں نے ہنگاموں میں حصہ لیا اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی خاندانوں کی زندگی تباہ ہو گئی۔
پاکستان میں اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ سامنے آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک چھوٹے سے گروہ کی جانب سے پھیلائے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈے کی حقیقت کو اتنی جلدی عوام تک پہنچا دیا جاتا ہے کہ لوگوں کو حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب یہ جھوٹ سوشل میڈیا کے مشہور افراد یا یوٹیوبرز کی جانب سے پھیلایا جائے تو اس کی تاثیر اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ گروہ انتہائی منصوبہ بندی کے تحت عوامی جذبات سے کھیل رہا ہے اور ملک کے اہم ترین مسائل پر دھوکہ دہی کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے ذریعے پیدا ہونے والے نفرت کے اس ماحول کو ’’ڈیجیٹل دہشت گردی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف عوام کے درمیان اضطراب اور بدامنی پیدا کرنا ہے۔ یہ افراد اتنا جھوٹ پھیلاتے ہیں بلکہ انہوں نے ایک ایسا نیٹ ورک بھی قائم کیا ہے جو عالمی سطح پر مختلف ٹائم زونز میں چلتا رہتا ہے۔ ان کے پروپیگنڈے کا مقصد صرف پاکستان کو ایک تقسیم شدہ ملک میں تبدیل کرنا اور اس کے اداروں کے درمیان دراڑ یں ڈالنا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف پاکستان کے داخلی استحکام کو بھی شدید خطرات میں ڈال دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی نفرت صرف نظریاتی نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں معاشرتی تقسیم، فرقہ واریت، اور نسلی منافرت بھی بڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ، ان جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے بارے میں عوام کا اعتماد کمزور کیا جاتا ہے اور قوم کی یکجہتی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس ڈیجیٹل دہشت گردی کا سدباب کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی نفرت اور جھوٹ کو روکنے کے لیے ریاستی اداروں کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر نے معید پیرزادہ جیسے افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایک مقدمہ درج کر لیا ہے، جنہوں نے سوشل میڈیا پر ریاست مخالف مواد پھیلایا اور عوام میں بدگمانی پیدا کی۔ معید پیرزادہ نے اپنے ٹک ٹاک اکائونٹ کے ذریعے ایسی ویڈیوز شیئر کیں جن میں فوجی قیادت کے بارے میں بے بنیاد الزامات لگائے گئے، جو کہ نہ صرف جھوٹے تھے بلکہ ان کا مقصد عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرنا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق ان ویڈیوز کا مقصد ریاست کی سالمیت کو نقصان پہنچانا اور ریاستی اداروں کے خلاف دشمنی کو بڑھاوا دینا تھا۔
اسی طرح قوم کی بیٹی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیو بنانے والے افراد بھی قانون کے شکنجے میں آ چکے ہیں۔ایف آئی اے کی جانب سے اس معاملے پر کی جانے والی کارروائی کو اب آگے بڑھانا ہو گا اور حکومت کو ایسے عناصر کو فوری طور پر پاکستان میں واپس لا کر قانونی سزا دینا ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس قسم کے اقدامات کافی ہیں؟ کیا صرف چند افراد کے خلاف کارروائی کرنے سے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی نفرت اور جھوٹ کا خاتمہ ممکن ہے؟ اس کے لیے ریاستی اداروں کو ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
اگلے روز وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے قومی اسمبلی میں تخریبی سیاست دانوں کے لئے حبیب جالب کی مشہور نظم پڑھی اور اس سیاسی فتنہ کی حقیقت کو بے نقاب کیا۔ یہ نظم آج کے حالات کے عین مطابق ہے، منافقوں اور فتنہ گروں کے بارے میں کچھ اس طرح ہے !
اٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے، سینوں میں
کسی کو فکر نہیں قوم کے مسائل کی
ریا کی جنگ ہے بس حاشیہ نشینوں میں
قصور وار سمجھتا نہیں کوئی خود کو
چھڑی ہوئی ہے لڑائی منافقینوں میں
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں
یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لیے
کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میں
اس نظم میں جو پیغام چھپا ہے وہ یہی ہے کہ اس وقت ملک میں جو سیاسی جنگ کی جا رہی ہے وہ صرف اور صرف اقتدار کی جنگ ہے۔ ان جھوٹے پروپیگنڈوں اور فتنوں کے ذریعے عوام کو تقسیم کیا جا رہا ہے اور اس کا نتیجہ صرف انتشار کی صورت میں نکل رہا ہے۔ پاکستان میں موجود اس سنگین صورتحال کے تناظر میں، میں ایک خاص اپیل کرنا چاہوں گا۔ یہ اپیل خاص طور پر ہماری با شعور ماں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے ہے جو اپنے خاندانوں کی حفاظت اور روشن مستقبل کی خواہش رکھتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ماں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ایک ماں اپنے بچے کی پرورش میں نہ صرف جسمانی دیکھ بھال کرتی ہے بلکہ وہ اپنے بچے کے ذہنی اور جذباتی استحکام کی بھی نگہداشت کرتی ہے۔ وہ انہیں اس بات کی اہمیت سمجھائیں کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کیسے کرنا ہے، اور کس طرح سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے منفی مواد سے بچنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے ملک کے آئین اور قوانین کا احترام سکھائیں تاکہ وہ کبھی کسی فتنے کا شکار نہ ہوں اور ان کی گودیں اجڑنے کی بجائے وہ اپنی نسلوں کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ہم اپنے بچوں کی تربیت میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیاب ہوں، بلکہ ایک پختہ اخلاقی سوچ بھی رکھتے ہوں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو اس فتنے سے بچا لیں گے تو یہ ہمارے ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی اور ہماری قوم کو ایک روشن اور پائیدار مستقبل کی طرف گامزن کر سکے گی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ریاستی اداروں سوشل میڈیا پر پاکستان میں کے درمیان کے ذریعے جاتا ہے کا مقصد ہے اور اور اس کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
امتحانی پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل کرنیوالوں کی شامت ،وارننگ جاری
لاہور : امتحانی پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل والوں کی شامت آگئی، اب 3سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق تعلیمی بورڈ نے پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے خلاف قواعد و ضوابط تبدیل کردیے اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔نوٹیفکیشن میں بتایا کہ امتحانی پرچہ آؤٹ کرنے کی سزا 3سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ غیر متعلقہ شخص کسی بھی امتحانی مرکز اور پریکٹیکل لیبارٹری میں داخل نہیں ہوگا، غیر متعلقہ شخص کے امتحانی مرکز اور پریکٹیکل لیبارٹری میں داخل ہونے پرمقدمہ درج ہوگا۔
تعلیمی بورڈ کا کہنا ہے کہ امتحان میں موبائل فون یا دیگر ممنوع آلات لانےپر سختی سے پابندی ہوگی اور امتحانی پرچے لیک کرنے والوں کے خلاف اقدامات مزید سخت کیے جائیں گے۔مزید برآں، امتحانات کے دوران، افراد کو کسی بھی ڈیوائس کا استعمال کرتے ہوئے سوالیہ پرچے کی تصاویر لینے، ریکارڈنگ بنانے یا امتحانی عمل میں خلل ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔