مذاکرات کامیاب ہوجائیں گے تو ہم سب کو خوشی ہوگی، اس سے سیاسی استحکام آجائے گا، شرمیلا فاروقی
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جنوری2025ء)پاکستان پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے کہاہے کہ مذاکرات کامیاب ہوجائیں گے تو ہم سب کو خوشی ہوگی، اس سے سیاسی استحکام آجائے گا اور پھر معاملات آگے چلیں گے۔
(جاری ہے)
خصوصی گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس وقت جو بھی باتیں ہو رہی ہیں بس عمران خان جو ڈیشل کمیشن یہ چیزیں عوام کے مسائل کی بات نہیں ہو رہی۔انھوں نے کہا کہ مذاکرات بھی ہو رہے ہیں پھریہ اسمبلی میں شور اور ہنگامہ بھی کر رہے ہیں، بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں پھر انھوں نی8 فروری کیلیے انائونس کر دیا ہے اس کو ختم ہونا چاہیے انھیں ایک فیصلہ کرنا پڑے گا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
پاکستان کو شفاف الیکشن اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، مولانا فضل الرحمٰن
لاہور:جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کو جیل میں ڈالنے کے بجائے مسائل کے حل کے لیے سیاسی مکالمے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کو سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔
میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئےمولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وہ ہمیشہ مذاکرات کے حامی رہے ہیں کیونکہ یہی مسائل کے حل کا بہترین راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے موجودہ مطالبات کے بارے میں علم نہیں، لیکن ان کی خواہش ہے کہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے سلجھایا جائے۔
انہوں نے سیاستدانوں کے رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے پارلیمان کی اہمیت ختم ہو رہی ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ادارے اپنی مرضی کی حکومت لانا چاہتے ہیں، جو ان کے لیے قابل قبول نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا نظریات سے کوئی تعلق نہیں، وہ صرف اپنی اتھارٹی مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، جو آئین کے میثاق ملی کی خلاف ورزی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے قبائلی علاقوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کی رِٹ ختم ہوچکی ہے، لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو رہے ہیں اور ایسے حالات میں جغرافیائی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ چھبسویں ترمیم کے معاملے پر صرف ان کی جماعت اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک جماعت آئین اور انسانی حقوق پر سمجھوتا نہ کرنے کا عزم رکھ سکتی ہے تو دیگر جماعتیں ایسا کیوں نہیں کر سکتیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ مارشل لا کے خلاف کھڑے رہے ہیں۔