پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کی طویل تاریخ ہے،عطاءاللہ تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کی طویل تاریخ ہے،عطاءاللہ تارڑ WhatsAppFacebookTwitter 0 16 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کی طویل تاریخ ہے۔
وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے اسلام آباد میں پاک ترکیہ فرینڈ شپ ریڈیو میوزیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ اور پاکستان کے دل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ترکیہ کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کی طویل تاریخ ہے۔
عطا اللہ تارڑ نے مزید کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں۔ ہمیں آئندہ نسلوں کو پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تعاون کو دوسرے شعبوں میں بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاک ترکیہ فرینڈ شپ ریئڈیو میوزیم کا قیام اہمیت کا حامل ہے۔ میوزیم کے قیام کا مقصد آنے والی نسلوں کو پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک ترکیہ فرینڈ شپ ریڈیو میوزیم دونوں ملکوں کے عوام کو مزید قریب لائے گا۔ عوامی آگاہی اور معلومات کی فراہمی کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کا اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان کے نامور اداکاروں کی اکثریت نے اپنے کیرئیرکا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
وزیر اعظم کا دورۂ ترکیہ اور بھارت کی سازشیں
وزیر اعظم پاکستان کے دورہ ترکیہ اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ جیسے اقدامات کا باہم کوئی تعلق ہے یا نہیں، اس سوال کا جواب تلاش کر لیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ ہمارے آس پاس کیا ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی پہلی یعنی پی ڈی ایم کی حکومت کے بنتے ہی پاکستان کی سفارتی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا اور وطن عزیز بین الاقوامی تعلقات کے نقشے پر نمایاں ہو گیا۔ یہ پی ٹی آئی حکومت کی سست رفتار خارجہ پالیسی کے بالکل برعکس تھا۔ یہاں عمران حکومت کی خارجہ پالیسی کی صرف ایک مثال کا ذکر ضروری ہو گیا ہے۔
2019 میں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے سے پہلے زبردست سفارتی سرگرمی شروع کر دی تھی۔ نریندر مودی خود اور ان کے وزیر خارجہ نے اس موقع پر دنیا کے اہم ترین دارالحکومتوں کا دورہ کر انھیں اعتماد میں لیا اور بتایا کہ ان کی حکومت کا فیصلہ کیوں ضروری ہے۔ پاکستان کشمیر کی شہ رگ ہے۔
اپنی شہ رگ کو دشمن کے شکنجے میں جانے سے بچانے کے لیے پاکستان اس وقت جو کچھ بھی کر گزرتا، کم ہوتا لیکن ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کا اس وقت کا وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دونوں اسلام آباد میں تھے۔ گویا اس زمانے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی فعال نہیں تھی۔ یہ عمران حکومت کی عدم فعالیت ہی کا نتیجہ تھا کہ کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔
میاں شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انھوں نے کام کا آغاز وہیں سے کیا جہاں سے چھوڑا تھا۔ دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے انھیں ابھی صرف ایک برس ہی ہوا ہے لیکن خارجہ تعلقات کے ضمن میں اتنی پیش رفت ہو گئی ہے جتنی عام حالات میں پانچ سات برسوں میں ہوتی ہے۔ یہاں ذکر یہ مقصود ہے کہ پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کا انفرادی پہلو کیا ہے جس سے بھارت حدت محسوس کر رہا ہے؟ دنیا کا نقشہ میز پر رکھ کر وزیر اعظم شہباز شریف کے غیر ملکی دوروں کے مقامات کو نکتے سمجھ پینسل سے انھیں ملا دیا جائے تو مستقبل کا نقشہ وجود میں آ جاتا ہے۔
یہ نقشہ کاغذ کا محض ایک ٹکڑا نہیں مستقبل کی صورت گری ہے جس سے پاکستان ہی نہیں اس خطے کی قسمت وابستہ ہے جس کی صورت گری میں بنیادی کردار دو شخصیات کا ہے، ان میں ایک وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف ہیں اور دوسرے صدر جمہوریہ ترکیہ رجب طیب اردوان۔ وزیر اعظم پاکستان کا حالیہ دورہ پاکستان کا تعلق بھی اسی منصوبے سے تھا۔ اس منصوبے کی اہمیت اس وقت نہیں سمجھی جا سکتی جب تک اس اقتصادی تباہی کی وجوہات کو نہ سمجھ لیا جائے جس کا آغاز پی ٹی آئی حکومت میں ہوا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کے ایک اقتصادی مشیر نے گفتگو میں انکشاف کیا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام لینے میں دانستہ تاخیر کر دی گئی ہے۔ اس وجہ سے اب پاکستان کی اقتصادی تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔
اس کے بعد اس دور کے ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے کھلے بندوں کہہ دیا تھا کہ پاکستان تیکنیکی اعتبار سے دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی یہ اقتصادی تباہ حالی تھی اور دوسری طرف ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجووں کو پاکستان میں بسا کر خانہ جنگی کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ اقتصادی دیوالیہ پن کے ساتھ خانہ جنگی کا ایک ہی مطلب تھا کہ بین الاقوامی قوتیں متحرک ہو کر یہ مؤقف اختیار کر لیتیں کہ پاکستان میں ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں لہٰذا انھیں اقوام متحدہ کی تحویل میں دے دیا جائے۔
وزیر اعظم شہباز شریف قومی معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے کے بعد جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا تعلق مستقبل ہے جس میں پاکستان کا مفاد تو ہے ہی، اس خطے کی ترقی اور خوشحالی کا راز بھی اس میں پوشیدہ ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ صدر ایردوان نے ایک سہ فریقی میکنزم کا تصور پیش کیا تھا جس میں پاکستان کے علاوہ آذر بائیجان کو بھی شامل کیا جائے۔ ترکیہ کے سفیر ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو نے مجھے بتایا تھا کہ یہ میکنزم اقتصادی، تجارتی، ثقافتی اور اسٹریٹجک تعاون کو تو فروغ دے گا ہی، اس کے علاوہ ایک مڈل کاریڈور بھی تعمیر کرے گا جو پاک چین اقتصادی راہداری کی افادیت میں مزید اضافہ کر دے گا۔
صدر ایردوان کے حالیہ دورہ پاکستان سے سہ فریقی میکنزم کی داغ بیل پڑی جس کی تکمیل وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ آذر بائیجان میں ہو گئی۔ وزیر اعظم پاکستان کے اس دورے کا مقصد اس پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ چند اہم ترین شعبوں میں باہمی معاہدے بھی تھے۔ سہ فریقی میکنزم اور مڈل کاریڈور کے ذریعے ہمارا خطہ نہ صرف گریٹر یوریشیا سے منسلک ہو جائے گا بلکہ پورا وسط ایشیا بھی اسی دائرے میں شامل ہو جائے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر ایردوان جو خواب دیکھ ہیں اس کا تعلق پاکستان سمیت پورے خطے کی ترقی اور خوش حالی سے ہے۔ یہ میکنزم صرف ترقی اور خوشحالی کا ہی ضامن نہیں ہے بلکہ اس کی اسٹریٹجک اہمیت بھی ہے۔ بھارت اسی مستقبل سے خوف زدہ ہے کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ خطے کے ممالک خاص طور پر پاکستان اپنی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا تو وہ جس بالادستی کے خوب دیکھ رہا ہے، وہ چکنا چور ہو جائیں گے۔ بنگلا دیش کی کایا کلپ نے بھی اسے پریشان کر رکھا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ترکیہ اور امریکی نائب صدر کے دورہ بھارت کے موقع پہلگام کے ڈرامے اور اس کے بعد انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنے کے علاوہ جنگی عزائم ظاہر کرنے کا مطلب یہی ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے اور خطے کی خوش حالی کے جس پروگرام پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہے، اس سے اس کی توجہ ہٹا کر اسے اپنی سلامتی کے خطرے سے دوچار کر دیا جائے۔ یوں اس کی سنبھلتی ہوئی معیشت متاثر بھی متاثر ہو گی اور علاقائی ترقی اور خوشحالی کے منصوبے بھی فوری طور پر رک جائیں گے۔
بھارت چاہتا ہے کہ حالت جنگ میں مبتلا کر کے پاکستان کو ایک بار پھر عمران خان کے دور میں پہنچا دیا جائے جس میں اس کی اقتصادی حالت تباہی سے دوچار ہو جائے اور وہ علاقائی بالادستی کے ضمن اپنے مقاصد آسانی سے حاصل کر سکے۔ گزشتہ تباہی کے بعد پاکستان کو بڑی جاں فشانی سے درست راہ پر گامزن کیا گیا ہے۔ یہی راستہ کامیابی کا ہے۔ بھارت کی طرف سے کسی وقت کوئی بھی شرارت متوقع ہو سکتی تھی جو انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنے کی صورت میں سامنے آ گئی ہے۔ پاکستان نے فوری پر درست ردعمل ظاہر کیا ہے، اس کے بعد یہ ضروری ہے بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے کہ وہ اپنے اسٹریٹجک مقاصد کے لیے کس طرح انسانی جانوں سے کھیلتا ہے اور دہشت گردی کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
ڈاکٹر عمر حیات عاصم کا اقبال
تھوڑا عرصہ ہوتا ہے، آپا نعیم فاطمہ علوی کے ہاں ادیبوں کی ایک محفل میں اقبال کا ذکر ہوا تو وہاں موجود ایک خاتون دانش ور نے کہا کہ اقبال یقینا بڑے دانش ور اور بزرگ ہیں ان سے تھوڑا سا فاصلہ بھی ضروری ہے۔ کئی لوگوں کے کا ن کھڑے ہوئے لیکن خاموش رہے جب کہ چند ایک یہ سوال کیے بغیر نہ رہ سکے کہ اس کا سبب؟جواب میں وہی روائتی باتیں سامنے آئیں جن کی کوئی اصل نہیں۔ مجھے ڈاکٹر عمر حیات عاصم سیال کی یاد آئیَ ڈاکٹر صاحب ایک درویش دانش ور ہیں جنھوں نے ستائش اور صلے کی تمنا کیے بغیر ساری زندگی تعلیم و تعلم میںگزار دی ۔ اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریوں کی ادائی کے ساتھ ساتھ وہ تصنیف و تالیف کے کام بھی مصروف رہے۔
اقبالیات بھی ان کا محبوب موضوع ہے۔ وہ معروف ماہرین اقبالیات کی طرح کسی پیچیدگی میں پڑنے کے بہ جائے اصل متن پر کام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوتا ہے، اقبال پر ان کی کچھ کتابیں آئیں جن میں ’ بچوں کا اقبال اور’مطالعہ قرآن حکیم اقبال کی روشنی میں‘۔ یہ کتابوں کی ورق گردانی ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اقبال کے اگر متن کو ہی موضوعاتی اعتبار سے جمع کر دیا جائے تو نہ صرف اقبال تک لوگوں کی رسائی آسان ہو جائے گی بلکہ ان کے بارے میں پیدا کردہ منفی تاثرات کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکتر عمر حیات عاصم سیال کا کام قابل قدر ہے جس سے استفادہ بھی کیا ہونا چاہیے اور اس کی تحسین بھی کرنی چاہیے۔