Nai Baat:
2025-04-13@15:30:34 GMT

مریم نواز کی بھول

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

مریم نواز کی بھول

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کارکردگی اور بیانیہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، بیانیہ وہ بناتے ہیں جن کے پاس کارکردگی دکھانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ معروف اور تجربہ کار سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون وزیر اعلیٰ کی اس بات کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے؟ اس حوالے سے ایک بڑی مثال چودھری پرویز الٰہی کی ہے جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہر خاص و عام کے لیے دستیاب رہتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے، سیاسی میدان میں بھی پوری طرح سے سرگرم رہے لیکن 2008 ء کے انتخابات میں کھیل سے باہر ہو گئے پھر اقتدار میں شراکت کے لیے پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنا پڑا۔ کیونکہ مخالفین کے برعکس ان کے پاس کوئی بیانیہ نہیں تھا یا یوں کہہ لیں کہ مخالفین کے بیانیے کا توڑ نہیں کر سکے۔ نواز شریف نے سیاست کا آغاز جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں کیا۔ وزیر خزانہ بنے پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں وزیر اعلیٰ پنجاب بن کر بہت زیادہ ترقیاتی کام کرائے، پارٹی سیاست پر بھرپور محنت کی اور عوام کے ساتھ بھی گھل مل کر رہے۔ 1988ء کے انتخابات میں جب پیپلز پارٹی کی حمایت میں عوامی لہر چل رہی تھی تو نواز شریف نے مخالف قوتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بیانیہ بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف مسلم لیگ کے صدر بن گئے بلکہ 1990 ء کے انتخابات جیت کر وزیر اعظم بھی بن گئے۔ ایسی پالیسیاں اختیار کیں جس سے پختہ انفراسٹرکچر بنا جو پاکستان کو اقتصادی طور پر آگے بڑھانے لگا۔ موٹر ویز سمیت سب سے زیادہ ترقیاتی کام کرائے لیکن اس دوران ایک بھرپور سیاسی بیانیہ بھی اپنائے رکھا۔ 1993ء میں اسٹیبلشمنٹ کے گاڈ فادر صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد ’’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کا بیانیہ اختیار کر کے ناقابل تسخیر عوامی رہنما بن گئے۔ اسی بیانیے کی بنیاد پر دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے انہیں ہٹانے کے لیے جنرل مشرف کو مارشل لا لگانا پڑا۔ 2013 ء میں تیسری بار وزیر اعظم بنے تو یہ بھی بیانیے اور کارکردگی کا مشترکہ پھل تھا۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے تو آج تک جو کمالات دکھائے اور جو کچھ کیا وہ محض بیانیے کا کھیل ہی ہے ورنہ ان کی کارکردگی تو ملک و قوم کے لیے کئی حوالوں سے تباہ کن ثابت ہوئی۔ آگے جانے سے پہلے تھوڑا پیچھے جھانکیں تو ذوالفقار علی بھٹو جو بلاشبہ بڑے اور ہر دلعزیز لیڈروں میں سے ایک تھے کی ساری مقبولیت جنرل ایوب مخالف بیانیے کی مرہون منت تھی۔ آج جب کے عالمی حالات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سوچی سمجھی پالیسیوں کے نتیجہ میں ماحول ایسا بن چکا ہے کہ بیانیہ ہر چیز پر حاوی ہو جاتا ہے تو اس سے انکار ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کارکردگی اور بیانیہ لازم و ملزوم ہیں۔ پی ٹی آئی 2013 ء سے، کے پی کے میں حکومت کر رہی ہے۔ صوبے کے حالات ہر لحاظ سے مخدوش ہیں لیکن 2024 ء میں بھی یہ بیانیہ ہی ہے کہ جس نے پی ٹی آئی کو تقریباً کلین سویپ کرا دیا۔ مریم نواز جس محنت اور لگن کے ساتھ مختلف عوامی، فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کرا رہی ہیں وہ کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں۔ پنجاب میں اہم عہدوں پر تقرریاں اور تبادلے میرٹ پر ہو رہے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا اس کارکردگی سے ان کی یا مسلم لیگ ن کی پرانی ساکھ بحال ہو رہی ہے تو اس کا ایک ہی جواب ہے، نہیں۔ مسلم لیگ ن سیاسی اور تنظیمی طور پر کہیں نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب میں ارکان اسمبلی ہی نہیں وزرا بھی گلے شکوے کرتے پائے جا رہے ہیں۔ صرف سرکاری تقریبات کے دوران شرکا کے ساتھ گھل مل کر سلفیاں بنانے کو عوامی سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ پارٹی متحرک نہ ہو تو محلے کی سطح کے عہدیدار بھی لوگوں سے منہ چھپا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لاہور کا ایک بزنس مین جو چند ماہ پہلے تک ن لیگ میں شمولیت کے لیے تیاری کر رہا تھا اب کہتے پایا گیا ہے کہ ن لیگ کا حال ق لیگ سے بھی خراب ہو رہا ہے۔ ق لیگ کے دور میں چودھری پرویز الٰہی نہ صرف وزرا، ارکان اسمبلی بلکہ پارٹی کے عام عہدیدروں اور کارکنوں کو نہ صرف وقت دیتے تھے بلکہ ان کے کام ترجیحی بنیادوں پر کرتے تھے۔ اس سب کے بعد بھی بیانیہ نہ ہونے کے سبب انہیں اپنی سیاست بچانے کے لیے پی ٹی آئی میں جانا پڑا۔ وزیر اعظم شہباز شریف مزاجاً غیر سیاسی ہیں مگر مریم نواز کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ کراؤڈ پلر ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی سیاست کو آگے بڑھائیں گی۔ بھر پور سیاست اور بیانیہ کے بغیر اچھی سے اچھی کارکردگی بھی ایسے ہی ہے جیسے کوئی بیورو کریٹ شاندار پرفارمنس پیش کر کے ریٹائر ہو کر منظر سے غائب ہو جائے۔ بیانیہ کے حوالے سے مریم نواز کی اپنی سوچ جو بھی ہو یہ طے ہے کہ حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھ کر بیانئے کی طے شدہ لائن اختیار کیے بغیر سیاسی شطرنج کے کھیل میں شریک رہا ہی نہیں جا سکتا۔ مریم نواز نے بیانیہ اور کارکردگی کو متضاد عمل کسی وقتی سیاسی ضرورت کے تحت کہا ہے تو اور بات لیکن اگر وہ حقیقتاً ایسا سمجھتی ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مریم نواز وزیر اعلی پی ٹی ا ئی کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

بیانیہ کینالز کا

وہ بیانیہ جو کبھی اپنی بنیاد نہیں بنا سکتا ،جو غیر فطری ہو،ایسے بیانیہ ہم بنا تو لیتے ہیں مگر وہ بے بنیاد رہ جاتاہے ہیں، چاہے ہم اس بیانیہ کے لیے کتنی ہی تگ ودو کریں یا پھر بہترین ذرایع کا استعمال کریں۔

چھ کینالوں کے حوالے سے اس وقت اندروں سندھ میں ایک تحریک نے زور پکڑا ہے اوربیانیہ کی مثال ہمیں اسی تحریک سے مل جائے گی ۔ یہ ایک الگ بحث کہ ان کینالوں کی منظوری صدر آصف علی زرداری نے پچھلے سال آٹھ جولائی کو ہی دے دی تھی اور صدر صاحب کو اس منظوری کے اختیارات حاصل ہیں بھی کہ نہیں؟

یا پھر اس اس منظوری کے اختیارات صرف مشترکہ مفادات کی کونسل کو ہی ہیں کیونکہ مشترکہ مفادات کی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے،لیکن ہلکی سی بازگشت اس وقت سنی جارہی تھی اور پھر سندھ کے قوم پرستوں نے اس آواز کو اپنے ہاتھوں میں لیا، وہ قوم پرست چھوٹے قد کے لیڈر تھے جن کی آواز نگار خانے میں طوطی کی مانند تھی۔

پھر آہستہ آہستہ یہ آواز سندھی اخباروں میں کالم نگاری کے ذریعے ابھری، ایک بحث چھڑی، سندھی میڈیا کی توسط سے سوشل میڈیا تک رسائی ہوئی اور اس آواز نے تحریک کی صورت اختیارکی۔ پیپلز پارٹی نے اپنا موقف یہی رکھا کہ کینالز نہیں بن رہی ہیں۔ پھر انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم کینالز نہیں بنانے دیں گے،مگر پنجاب حکومت کا بیانیہ کچھ اور تھا۔ وہاں تو مباحثے بھی رک گئے، ارسا نے سر پلس پانی کا سر ٹیفکیٹ بھی جاری کردیا اور اس طرح سے یہ بیانیہ مضبوط ہوتا گیا کہ کینالز بن رہے ہیں۔

ذوالفقار جونیئر جو سندھ میں ماحولیاتی مسائل کی باعث متحرک تھے، اب وہ دریا اور پانی کی تقسیم کو بھی ماحولیات سے جوڑتے ہوئے متحرک ہیں۔سندھ کے وڈیروں کے خلاف پچھلے دو برسوں سے ویسے ہی بیانیہ بنتا رہا، پھر پچھلے سولہ برسوں سے پیپلز پارٹی کی بری حکمرانی!ان تمام حقائق کی بناء پر بڑی تیزی سے کینالوں کا بیانیہ بنایا ،اب سندھ میں اس سے بڑا کوئی بیانیہ نہیں ہے ۔ اس بیانیے کو آخر میں پیپلز پارٹی نے خود سے جوڑنے کی کوشش کی مگر ایسا ہو نہ سکا۔

سندھ میں کینالوں کی بنیاد پر بننے والا بیانیہ آج ایسا ہی ہے جیسا کہ آج سے چالیس سال پہلے کراچی میں بشریٰ زیدی کا تھا جو بس کے نیچے آکر ہلاک ہوئی تھیں۔وہ بات بھی ایسے ہی بڑھی تھی کہ کراچی میں مہاجروں میں ایلیٹ کلاس اور جماعت اسلامی کے پاس جو قیادت تھی، ان کے ہاتھ سے کراچی کی سیاست نکل چکی تھی اور مہاجر قیادت و سیاست متوسط طبقے کے ہاتھوں میں آگئی جو بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوئے۔سندھ و قومی اسمبلی کے ممبر بنے اور وفاق میں نمایندگی پائی۔

یہ بیانیہ جو اس وقت سندھ میں کینالوں اور پانی پر بنا ہے، اس کے خدوخال وڈیروں کے خلاف ہیں۔یہ بیانیہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف پچاس سال بعد بنا ہے ۔ اس سے پہلے محور بھٹوخاندان کی شہا دتیں تھیں۔اب جو محور ہے وہ دریائے سندھ ہے جس کا وجود خطرے میں ہے۔بیانیہ کے حوالے سے پیپلز پارٹی اپنا کیس سندھ میں ہار رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی تمام نشستیں روایتی ہیں۔اس بار لوگوں نے ووٹ پیپلز پارٹی کو نہیں دیا تھا بلکہ اس وڈیروں اور جاگیرداروں کو دیا تھا جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور تھی۔اب بھٹو کا نام ان وڈیروں کو ایک چھتری کے نیچے جمع کرنے کا نام ہے۔ آصف زرداری کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ پارٹی بری حکمرانی کے دلدل میں پھنس چکی ہے۔اقرباء پروری انتہا پر رہی۔ کوئی بڑا ترقیاتی کام نہ ہو سکا۔ٹرانسفر اور پوسٹنگ ایک خاص مقصد کے لیے ہوتیں۔یہ پارٹی ، افسر شاہی کے اندر اپنی جڑیں بناتے ہوئے ان من پسند لوگوں کو آگے لائی ،اس طرح کے سوالات لوگوں کے ذہنوں میں ابھرے۔

یہ تمام گرج ، غم و غصہ اور پھر انڈس ڈیلٹا کی صورتحال۔ جب سو سالہ ریکارڈ ہے کہ دریا کبھی بھی اس قدر خشک نہ ہوا جو اس دفعہ ہوا ہے۔خشک سالی ہو رہی ہے۔ان تمام باتوں نے کینالوں کے خلاف بیانیہ کو مضبوط کیا۔پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کہ اس بیانیہ کا رخ وفاق اور پنجاب کی طرف موڑا جائے اور وہ اس بیانیہ میں بھی رہے۔

مگر لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ وفاق میںسندھ کا کیس پیپلز پارٹی صحیح نہیں رکھ سکی ہے۔یہ تبدیلی جو دہائیوںسے سندھ میں ناگزیر تھی اب جنم لے چکی ہے۔سندھی جن کی نفسیات پر یا تو بھٹو یا پھر پیر اور وڈیرے طاری تھے اور انھوں نے ہمیشہ اپنا ووٹ بھی انھی کو دیا ہے۔بھٹو جن کا نام آہستہ آہستہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے مفاد سے جڑ گیا اور عوام کے مفاد سے کٹ گیا۔بھٹو کا نام اور وڈیرے ایک بن گئے اور عوام اس سفر میں کٹ گئے۔

اب قوم پرستوں کے پاس جو بیانیہ ہے وہ انتخابات کے زمانوں میں ان کو ایوانوں میں لے آئے گا۔سندھ سے ایک بھی قوم پرست ان پچھتر سالوں میں ایوانوں تک نہیں پہنچ سکا اور ایک بھی ایسی نشست نہیں جو سندھ کے عوام نے کسی بیانیہ کی نذر کی ہو سوائے بھٹو۔ مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ آیندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خلاف کچھ قوم پرست پانی کے بیانیہ کی مدد سے دو چار نشستیں لے کر ایوانوں تک پہنچ سکیں۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی نے کینالوں پر سمجھوتہ ، بلاول بھٹو کو دوسال کے لیے وزیرِ اعظم بنانے کے لیے کیا ہے،لیکن اس بیانیہ پر ابھرتی تحریک سے ایسا نظر آ رہا ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد میں درڑا پڑ سکتی ہے ۔

اب یہ اتحاد انتہائی غیر فطری نظر آ رہا ہے۔مجبور ہوکر پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں قرارد داد جمع کرنے کی کوشش کی لیکن کرا نہ سکی۔جب کہ پی ٹی آئی نے کینالوں کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کر وادی اور اگر پیپلز پارٹی اس قرار داد کی حمایت نہیں کرتی تو ان کا سندھ سے خاتمہ ہو جائیگا اور اگر پیپلز پارٹی اس قراداد کی حمایت کرتی ہے تو شہباز شریف کی حکومت کے لیے منفی پوائنٹ ہوگا۔

اس بیانیہ کے ثمرات سندھ میں آیندہ دو چار برسوں میں ملیں گے۔پہلی بار ایک نئی قیادت سندھ سے بنے گی جس کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں ہوگا۔بلاول بھٹو تک پہنچتے پہنچتے سندھ میں پارٹی اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ماضی میں پیپلز پارٹی جس بیانیہ پر چلی وہ بیانیہ سندھ اور پنجاب میں یکساں تھا اور اس دفعہ پارٹی نے یہ چا ہا کہ اس بیانیہ کو جو سندھ اور پنجاب میں بنا رہا ہے اپنے انداز سے لے کر چلے۔

اب اس ملک میں ایسا کوئی لیڈر نہیں جو بے نظیر کی طرح چاروں صوبوں کی زنجیر ہو، بانی پی ٹی آئی اپنے آپ کو کینالوں کے بیانیہ سے جوڑ کر شہباز شریف کی حکومت کے خلاف مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ یہ تحریک صرف سندھ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • مریم نوازکی نائب صدر ترکیہ سے ملاقات، معاشی شراکت داری کے فروغ پر اتفاق
  • طیب اردگان، امینہ سے ملاقات: گرلز ایجوکیشن کیلئے عالمی معاہدہ کیا جائے: مریم نواز
  • بیانیہ کینالز کا
  • وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کانوازشریف انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان
  • وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے دھی رانی پروگرام کے تحت ڈیرہ غازی خان کے 71 مستحق جوڑوں کی اجتماعی شادی کی تقریب
  • مریم نواز کی ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات
  • وزیراعلی مریم نواز شریف کی ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات
  • پاک-ترک تعلقات محض سفارتی نہیں بلکہ عقیدت اور اعتماد پر مبنی ہیں، مریم نواز
  • بیلاروس کے صدر کا وزیراعظم اور نواز شریف کے اعزاز میں عشائیہ، غیر معمولی گرمجوشی کا اظہار
  • مریم نواز کے دوروں سے ہسپتالوں میں بہتری آئی: عظمیٰ بخاری