Nai Baat:
2025-04-17@00:35:14 GMT

جائیں تو جائیں کہاں؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

جائیں تو جائیں کہاں؟

ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی صاحب کا ایک ٹی وی ٹاک شو یاد آ رہا ہے‘ جس میں انہوں نے ایک بڑی دلچسپ اور مزیدار بات کی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ایف بی آر کے90 فیصد افسر گھر چلے جائیں‘ یہ ادارہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں ان افسروں کو گھر بیٹھے ان کی پوری تنخواہیں بھی دینے کو تیار ہوں‘ بس یہ اپنی سیٹوں پر نہ رہیں اور اپنے اختیارات استعمال نہ کریں تو ایف بی آر کا بگڑا ہوا آوا ٹھیک ہو سکتا ہے۔ہماری افسر شاہی کا طرز عمل یہ ہے کہ گیارہ بجے دفتر آتے ہیں، قہوہ پیش کیا جاتا ہے، اس دوران ڈرائیور کھانا لینے گھر چلا جاتاہے،صاحب اپنے عملے سے دریافت کرتے ہیں کہ کس سائل کو کتنا پریشان کیا؟ کتنا مال پانی جمع کیا ؟ پانچ بجتے ہی صاحب واک اور گپ شپ کے لئے کلب جا پہنچتے ہیں۔ایف بی آر کے افسروں کے بارے میں کوئی اور نہیں ان کا سابق سربراہ بتا رہا ہے۔شبر زیدی صاحب نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ یہ بات بتا دی کہ اس ادارے میں معاملات کو ٹھیک کرنے کے ذمہ دار ہی دراصل حالات کو خراب کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ یہ واقعہ تو چند سال پہلے بڑا مشہور ہوا تھا کہ ایف بی آر کے لوگوں نے حصے کی تقسیم پر ایک دوسرے پر گن تان لی تھیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ محض ایف بی آر تک محدود نہیں بلکہ ہر ادارے کی یہی مثال اور ہر محکمے میں یہی صورت حال ہے کہ یہ لوگ ایک سرکاری بیج لگا کے بھتہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایک قانونی بھتہ جس کے خلاف نہ پرچا درج کرایا جا سکتا ہے اور نہ کچھ اور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ پیسہ حکومتی کھاتوں میں نہیں جاتا ان کے ذاتی کھاتوں میں چلا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کا ناسور کتنا گہرا ہے‘ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

میرے ایک دوست شیخ محمد آصف پانچ وقت کے نمازی اور پرہیز گار انسان ہیں۔ ٹھیک ٹھاک بزنس مین اور بڑے سرمایہ کار ہیں۔ جو بھی کماتے ہیں اس پر پورا ٹیکس پوری ایمان داری سے ادا کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے انہیں ایل ڈی اے سے ایک نقشہ منظور کرانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ انہوں نے جو نقشہ جمع کرایا تھا اس پر متعلقہ حکام سے ریٹ سیٹ نہیں ہو رہا تھا۔ جس افسر نے نقشہ پاس کرنا تھا‘ زیادہ پیسے مانگ رہا تھا‘ جبکہ میرا دوست کہہ رہا تھا کہ جتنے پیسے تم مانگ رہے ہو اتنے نہیں دے سکتا‘ میں صرف اتنے دے سکتا ہوں۔ جب ریٹ طے نہ ہو سکا تو وہ میرا دوست کام کرائے بغیر واپس چلا آیا۔ بعد ازاں اس نے نیچے سے لے کر اوپر تک اپنی ہر کوشش کر لی کہ نقشہ پاس ہو جائے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ میرا دوست جس اعلیٰ سے بھی بات کرتا‘ وہ آگے پوچھتا تو پتا چلتا کہ فائل گم ہو چکی ہے۔ کرتے کرتے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ گزر گیا۔ میرا دوست ایل ڈی اے کے دفتر کے چکر لگا لگا کر تھک گیا‘ اس کی جوتیاں گھس گئیں‘ لیکن نقشہ پاس نہ کرا سکا۔ پھر اسے پتا چلا کہ ایل ڈی اے کا وائس چیئرمین اس کے ایک عزیز کا دوست ہے۔اس نے تھک ہار کر اپنے اس عزیز سے بات کی۔ ان صاحب نے اپنے دوست وائس چیئرمین سے کہا۔ پھر ایک دن میرا دوست اس وائس چیئرمین کے پاس گیا تو انہوں نے میرے اس دوست کی موجودگی میں ایل ڈی کے اس اہلکار کو بلا لیا جو مسلسل یہ کہہ رہا تھا کہ فائل گم ہو چکی ہے اور اس سے کہا کہ یہ صاحب میرے دوست کے عزیز ہیں۔ انہوں نے فائل تمہارے ہینڈ اوور کی تھی۔ مجھے وہ فائل ہر حال میں آج چاہیے۔ وہ اہلکار گیا اور فائل لے کر حاضر ہو گیا۔ پتا چلا کہ جس جگہ اس نے اپنی میز اور کرسی رکھی ہوئی تھی‘ جن پر بیٹھ کر وہ کام کرتا تھا‘ وہاں ایک قالین بچھا ہوا ہے اور یہ فائل اس نے قالین کے نیچے دبا رکھی تھی‘ ملتی کہاں سے؟ خیر میرے اس دوست کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اس نے قسم کھا لی کہ اس ملک میں نہیں رہنا۔ وہ کمینہ کلرک ہڈی کھانے کا عادی تھا‘ چنانچہ اس نے فائل جان بوجھ کر چھپائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی ہڈی کی خاطر اور نہ جانے کتنے لوگوں کی فائلیں قالین کے نیچے دبا کر رکھی ہوئی تھیں۔ یہ تو حال ہے ہمارے ملک کا۔ ایسے میں کیسی ترقی اور کہاں کی ترقی؟

اسی طرح کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے کہ میرے ایک دوست کو اسی ایل ڈی اے میں کوئی کام تھا جس کے لیے انہوں نے عرصے سے فائل جمع کرا رکھی تھی۔ ایل ڈی اے کے وائس چیئرمین صاحب اس کے دوست تھے۔ ان کی طرف سے سفارش کی جاتی تو یہ سننے میں آتا کہ فائل ہو رہی ہے‘ چل رہی ہے‘ آ رہی ہے‘ اس میں یہ کمی ہے‘ یہ نقص ہے۔ جب کافی عرصہ گزر گیا تو ایک روز کسی نے اسے یعنی میرے دوست کو مشورہ دیا کہ کیوں تم بار بار وائس چیئرمین کے پاس چلے جاتے ہو اور اسے پریشان کرتے ہو‘ کام پھر بھی نہیں ہوتا۔ ایک لاکھ روپے اْسے یعنی کلرک یا اہلکار کو دو‘ تمارا کام دنوں میں ہو جائے گا۔ واقعی جب اس نے ایسا کیا یعنی ایک لاکھ روپیہ دیا تو میرے دوست کی فائل دنوں میں تیار بھی ہو گئی‘ مل بھی گئی اور اس فائل کے تحت کام شروع بھی ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارے اور ہر محکمے میں اسی طرح کے پینڈورا باکس کھلے ہوئے ہیں۔ دس سال پہلے کی بات ہے‘ میں کسی کے ساتھ سندر تھانے گیا۔ ہم کسی کام کے سلسلے میں تھانے میں بیٹھے ہوئے تھے اور اے ایس آئی کے ساتھ ہماری پیسوں کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ اسی دوران اینٹی کرپشن والوں نے اچانک چھاپہ مارا۔ میں پریشان ہو گیا تو اے ایس آئی نے کہا کہ آپ نہ ڈریں‘ مجھے پیسے پکڑائیں‘ یہ مسئلہ بھی سیٹل ہو جائے گا‘ یہ روٹین میٹر ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنی شکایت لے کر کس کے پاس جائے؟ پہلے تو چلو اگر کوئی اہلکار بات نہیں مان رہا تو بندہ ایس ایچ او کے پاس چلا جاتا ہے‘ ایس ایچ او اگر نہیں مانتا تھا تو ڈی ایس پی کے پاس جا سکتے تھے‘ ڈی ایس پی نہیں مانتا تھا تو ایس پی کے پاس جاتا تھا اور اگر وہ بھی نہ مانے تو اوپر جایا جا سکتا تھا‘ لیکن اب آپ کسی کے پاس نہیں جا سکتے کیونکہ نیچے سے اوپر تک سب ایک جیسا معاملہ ہے۔ پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: وائس چیئرمین ایف بی ا ر کے انہوں نے جا سکتا سکتا ہے رہا تھا کے ساتھ ہو جائے کے پاس تھا کہ ہو گیا رہا ہے

پڑھیں:

پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغان قونصل جنرل

پشاور (ڈیلی پاکستان آن لائن) افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے کہا ہے کہ افغانستان میں اب اسلامی حکومت قائم ہے، اب فضا بن گئی ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک جائیں۔محب اللہ شاکر نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عید کے دوسرے روز افغانستان کے سفر کے دوران طالبان سربراہ سے افغان مہاجرین کے مسئلے پر گفتگو کی۔ افغان مہاجرین کے لیے افغانستان میں کمیشن بنایا گیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ طورخم بارڈر کے اس پار افغانستان میں کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں وطن واپسی پر مہاجرین کو تمام سہولیات دی جارہی ہیں۔ افغان قونصل جنرل نے کہا کہ مہاجرین نے پاکستان میں اسلام کی خاطر ہجرت کی، افغان مہاجرین نے پاکستان میں 40 سال گزارے۔  انہوں نے کہا کہ افغانستان پر حملے کے بعد افغان مہاجرین نے خالی ہاتھ پاکستان ہجرت کی، اب فضا ہے کہ مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغانستان میں اب امن اور اسلامی حکومت قائم ہے، افغان مہاجرین اپنے ملک میں سرمایہ کاری سمیت زندگی آرام سے گزار سکتے ہیں۔ 

عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی سے متعلق بہن مریم وٹو کا نیا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو اب تشویش نہیں ہونی چاہیے، وہاں ان کے لیے تمام سہولیات موجود ہیں، کنڑ میں کاروباری افراد کو زمینیں دی جارہی ہیں، کاروبار کے لیے ماحول سازگار ہے۔ افغان قونصل جنرل نے کہا کہ پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری ، ہمیں کسی قسم کی شکایت نہیں ہے۔محب اللہ شاکر نے کہا کہ افغانستان میں روس اور امریکا کی حکومت نہیں، اب ہم افغانستان کو آباد کریں گے، افغانستان میں ایسے امیر لوگ ہیں جو اپنے افغان بھائیوں کی مدد کررہےہیں، افغانستان میں ایسے تاجربھی موجود ہیں، جوافغانستان آنے والے بھائیوں کی مدد کررہے ہیں۔افغان قونصل جنرل نے کہا کہ افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم بھی دی جائے گی، افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں، وہاں ایسی خواتین بھی ہیں جو پاسپورٹ دفاتر میں کام کرتی ہیں۔

کیا چین امریکی قرض کو تجارتی جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟

مزید :

متعلقہ مضامین

  • حکومت عوام کے ووٹ سے آئی ہو تو بجٹ عوام دوست ہو گا، مفتاح
  • پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغان قونصل جنرل
  • شوبز میں کوئی سچا دوست نہیں ہوتا، سب سوشل میڈیا کی حد تک ہے، نعیمہ بٹ
  • خلائی مخلوق نے سوویت فوجیوں کو پتھر میں بدل دیا، سی آئی اے
  • ’شوبز میں دکھاوے کے دوست بنتے ہیں‘، نعیمہ بٹ ساتھی اداکاروں پر برس پڑیں
  • حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کو کہاں ایڈجسٹ کیا؟
  • رواں سال کتنے پاکستانی ملک چھوڑ گئے اور کہاں منتقل ہوئے
  • رواں سال کتنے پاکستانی ملک چھوڑ گئے اور کہاں منتقل ہوئے؟
  • اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے، بیرسٹر گوہر
  • شادی کا کھانا کھانے سے سینکڑوں افراد کی حالت غیر،انتہائی افسوسناک واقعہ کہاں پیش آیا،جانیں