Nai Baat:
2025-04-16@04:37:12 GMT

بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟

ہم جیسوں کے لیے بدلتے رویے تکلیف کا باعث بنتے ہیں ۔ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور اسی تبدیلی کی زد میں ہمارا کلچر اور سماجی رویے بھی آ چکے ہیں ۔ جوائنٹ فیملی کلچر تیزی سے بدل رہا ہے ۔ اس میں نظریات کی تبدیلی اور عدم برداشت کے ساتھ ساتھ مہنگائی ، چھوٹے گھر اور دیگر وجوہات بھی ہیں ۔ پرائیویسی کے نام پر ہم اتنے تنہا ہوتے جا رہے ہیں کہ خوف آنے لگا ہے ۔ اب ہمارے گلی محلوں میں اجنبی کو آتا جاتا دیکھ کر کوئی الرٹ نہیں ہوتا ، جس کا نقصان بچوں کے اغوا اور زیادتی جیسے واقعات کی صورت سامنے آنے لگا ہے ۔اب محلے کی بہو بیٹی سانجھی نہیں رہی ، محلے کے بزرگ "چاچا جی ” نہیں رہے ، اب انہیں آتا دیکھ کر نہ تو محلے کی کوئی بیٹی سر پر دوپٹہ رکھتی ہے اور نہ ہی گلی کی نکڑ پر کھڑے لڑکے سگریٹ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جنریشن گیپ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا ہے ۔ گلی محلے کی کرکٹ اور تھڑے کی گپ شپ کو سوشل میڈیا ایپس کھا گئی ہیں ۔ شرم و حیا ہمارے اطوار سے نکل کر دیکھنے والے کی آنکھ تک محدود کر دی گئی ہے ۔ ہمارے جنازے مختصر ہونے لگے ہیں یہاں تک کہ میت کو قبرستان لیجانے کے لیے کندھے کم پڑ گئے ہیں لہذا میت بھی گاڑی میں لیجانا پڑتی ہے۔ تعزیت کے لیے ایک ایس ایم ایس یا فون کال کافی سمجھی جاتی ہے ، بیماری کے لیے تعزیت بھی موبائل فون کی اطلاع تک محدود ہو چکی ہے ۔ سچ کہوں تو آج کے دور میں ہم ہجوم کے درمیان بھی تنہا ہو چکے ہیں۔ مجھے لگنے لگا ہے کہ بہت جلد اولڈ ہومز کی تعداد بڑھنے لگے گی ۔ بچوں کی مصروفیت اور جوائنٹ فیملی سسٹم کی تباہی کی وجہ سے یہ ہماری سوشل مجبوری بن جائے گی ۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے اولڈ ہائوس بن جائیں گے جہاں اخراجات ادا کر کے بڑھاپا گزارا جا سکے گا کیونکہ ہم جس سوشل تنہائی اور پرائیویسی کا شکار ہو رہے ہیں یہ جوانی میں اچھی لگتی ہے لیکن بڑھاپے میں عذاب بن جاتی ہے ۔ یہ تو ہمارے رویے اور کلچر ہیں جس پر ہم جیسے اپنا دل جلانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ بدلتی دنیا کے ساتھ یہ اسی بہائو میں بدلتا رہے گا ۔ دنیا کی تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے۔ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے کچھ مختلف ہوتی ہے ۔ ہم اسی کا شکار ہیں ۔ ممکن ہے کسی دور میں احساس ہو تو لوگ واپس پہلی روایات کو اپنانے لگیں ۔ بہرحال اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بھی والدین کہیں نہیں ہیں ۔ اگلے روز عمر چودھری کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ عمر چودھری موٹرسائیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر رہے ہیں ۔ یہ سر پھرے نوجوان موٹر سائیکل پر پاکستان بھر کا سفر کر چکے ہیں اور ویڈیو تصاویر کے ذریعے دنیا بھر کو پاکستان کی خوبصورتی سے آگاہ کرتے ہیں ۔ ان کی بائیک اور ہیلمٹ پر لگے کیمرے سنگلاخ چٹانوں سے برف پوش پہاڑوں تک ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں ۔ عمر چودھری کے برادر نسبتی عدنان یعقوب ٹریفک پولیس میں وارڈن تھے۔ 2018 میں وہ ایک حادثہ میں فوت ہو گئے ۔ عدنان مرحوم کے بوڑھے والد ان کے ساتھ رہتے تھے ۔ جواں بیٹے کی موت نے بوڑھے باپ کی کمر توڑ دی ۔ آج وہی بوڑھا باپ کسمپرسی کی حالت میں ہے ۔ بیٹے کی وفات کے بعد سرکار کے پاس اس بوڑھے باپ کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ یہ صرف ٹریفک پولیس کا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ مجموعی طور پر ہمارا قانون ہے جو ہر محکمے میں لاگو ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں جب کوئی سرکاری ملازم فوت ہوتا ہے تو سب سے زیادہ کوریج اس کے بوڑھے والدین کی ہوتی ہے ۔ جذباتی مناظر دکھائے جاتے ہیں ۔ اگر بیٹا فورسز میں ہو تو بوڑھا باپ اس کی میت وصول کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بیٹے کی تدفین کے بعد بوڑھے ماں باپ کو کچھ نہیں ملتا ۔ سرکاری و غیر سرکاری طور پر آپ کی فیملی میں صرف بیوی اور بچے شامل ہیں۔ عموماً شوہر کی وفات کے بعد بیوہ اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ شوہر کی تنخواہ یا پنشن اسی کو ملتی ہے ۔ اگر دوسری شادی کر لے تو بچوں کی گارڈین کے طور پر بھی عموماً ہر ماہ ملنے والے پیسے بیوہ کے اکائونٹ میں جاتے ہیں۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے ۔ شریک حیات کے طور پر یہ سب بیوہ کا حق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بوڑھے والدین کا حق کہاں ہے ؟ بڑھاپے میں وہ کمانے کی سکت نہیں رکھتے ۔ جس بیٹے کی تعلیم و تربیت پر انہوں نے سب کچھ لگا دیا وہ فوت ہو گیا ہے ۔ بڑھاپے کا سہارا تو چلا ہی جاتا ہے لیکن سرکار بھی انہیں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی بوڑھے ہیں جو جوان بیٹے کی وفات کے بعد بے سہارا ہو چکے ہیں ۔ کرایہ کا گھر، ادویات ، خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے انہیں دوسروں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے ۔ عمر بھر کما کر کھانے اور کھلانے والے کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ ہے۔ اگر حکومت قوانین میں کچھ ترمیم کر لے اور سروس کے دوران وفات پانے والے ملازم کے والدین کا بھی کچھ شیئر رکھ لے تو شاید ان کے دکھ اور مسائل کا کچھ ازالہ ہو جائے گا۔ نجی اداروں کو بھی ایسی ہی کوئی پالیسی بنانی چاہیے ۔ پاکستان میں کئی عدنان یعقوب اپنے والدین کا سہارا تھے لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے بوڑھے والدین رل گئے ہیں ۔ہمارے ملک کی دستاویزات میں آپ کی فیملی میں والدین شامل نہیں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پھر بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بیٹے کی چکے ہیں کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

سمندر پار پاکستانی ہمارے سفیر، سر کا تاج ہیں، شہباز شریف

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ سمندر پار پاکستانی ہمارے سفیر اور سرکا تاج ہیں، ان پر جتنا کچھ نچھاور کریں کم ہے۔

اسلام آباد میں سمندر پار پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ آج ہمارے پاکستانی یورپ، امریکا، خلیجی ممالک سے یہاں تشریف لائے، ایک کروڑ پاکستانی دنیا کے مختلف خطوں میں آباد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے شبانہ روز محنت سے طب، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں نام اور رزق حلال کمایا اور تمام ممالک میں پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان کے 24 کروڑ عوام اوورسیز پاکستانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں، بیرون ملک پاکستانیوں نے محنت اور لگن سے اپنا مقام بنایا۔

اُن کا کہنا تھا کہ سپہ سالار عاصم منیر ایک سچے پاکستانی اور زبردست پروفیشنل ہیں، ان کے جو دل میں ہوتا ہے وہی زبان پر بھی ہوتا ہے، پاکستان کا دفاع محفوظ ہے کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔

شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے جہاں سے ملتے ہیں، کون ان کو پیسے دے رہا ہے، اس کا سب کو پتہ ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے دہشت گردوں کیخلاف جو جہاد کیا اس کی مثال عصر حاضر میں نہیں ملتی، 2018 میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوچکا تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ فاش غلطیوں کی وجہ سے چند سال بعد دہشت گردی دوبارہ سامنے آئی ہے، دہشت گردوں کو سوات اور دوسرے علاقوں میں لاکر بسایا گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہارڈ اسٹیٹ اور سافٹ اسٹیٹ کے تقاضوں میں فرق ہوتا ہے، معاشی استحکام ٹیم ورک کا نتیجہ ہے، پاکستان معاشی طاقت بنے گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاک فوج کے شہداء سے متعلق سوشل میڈیا پر غلیظ گفتگو کی جاتی ہے، پاکستان میں 80 ہزار افراد نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں ظلم اور زیادتی ہورہی ہے، سیزفائر کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رواں سال کتنے پاکستانی ملک چھوڑ گئے اور کہاں منتقل ہوئے
  • سمندر پار پاکستانی ہمارے سفیر، سر کا تاج ہیں، شہباز شریف
  • اوورسیز پاکستانی دنیا بھر میں ہمارے سفیر، تمام جائز مطالبات پورے کیے جائیں گے، وزیراعظم شہباز شریف
  • رواں سال کتنے پاکستانی ملک چھوڑ گئے اور کہاں منتقل ہوئے؟
  • اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے، بیرسٹر گوہر
  • خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 مسترد، اے این پی کا احتجاجی تحریک کا اعلان
  • علیحدگی کے باوجود والدین تادمِ مرگ اچھے دوست رہے؛ نورجہاں کی بیٹی کا انٹرویو وائرل
  • شادی کا کھانا کھانے سے سینکڑوں افراد کی حالت غیر،انتہائی افسوسناک واقعہ کہاں پیش آیا،جانیں
  • والدین علیحدگی کے باوجود دوست تھے، وفات سے قبل والد ہی والدہ کو اسپتال لیکرگئے: بیٹی نور جہاں
  • ملک میں پولیو ویکسین سے انکار کرنیوالے 44 ہزار میں سے 34 ہزار والدین کراچی کے ہیں;وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال