Nai Baat:
2025-01-18@10:08:11 GMT

ٹائم سکیل پروموشن اور عدلیہ کی ذمہ داری

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

ٹائم سکیل پروموشن اور عدلیہ کی ذمہ داری

میں نے دیکھا کہ اپنی عمر کی ساٹھ بہاریں مکمل کرنے کے بعد ’’ ملک صاحب ‘‘ ایک عالم یاس میںمحکمہ سے ریٹائر ہو رہے تھے، ایک تو ان کو اپنی ریٹائرمنٹ اور دوستوں سے بچھڑنے کا غم لاحق تھا تو دوسرا گزشتہ ’’بیس سال ‘‘سے رُکی ان کی محکمانہ پروموشن کا دکھ بھی سوار تھا۔ اپنی روٹین کی پروموشن سے ہٹ کر ، گزشتہ دس سال سے انہوں نے ’’ٹائم سکیل پروموشن‘‘ کا حق لینے کے حوالے سے بڑے جتن کیے تھے۔ اپنے محکمہ کے ارباب اختیار کو زبانی کلامی کہنے سننے اور کہنے، کہلوانے کے علاوہ متعدد ’’تحریری عرض گزاریوں‘‘سے مایوس ہو کر انہوں نے عدالت ہائے کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا مگر ہر طرف سے ایک کے بعد دوسرا اعتراض، دوسرے کے بعد تیسرا بہانہ اور تیسرے کے بعد چوتھا حیلہ ہی ان کا حاصل ٹھہرا تھا اور یوں دل میں ’’گریڈ اٹھارہ سے انیس‘‘ میں ترقی کی حسرت اور سینے میں کسک لیے محکمہ سے الوداع ہوگئے ۔ ۔۔!

دیکھا جائے تو قوائد و ضوابط کی رو سے ٹائم سکیل پروموشن سرکاری ملازمین کا ایک ایسا حق ہے جس کے تحت ایک ہی سکیل میں دس سال یا دس سال سے زائد عرصہ کام کرنے والے ایسے ملازمین، جن کی ریگولر پرموشن نہ ہوسکے، کے لیے ایک راستہ ہے جس کے مطابق وہ وقت کے ساتھ اگلے سکیل میں پروموٹ ہو سکیں ۔اس حوالہ سے وفاقی و صوبائی سطح پرگاہے بگاہے متعد د ’’نوٹیفیکشنز‘‘ جاری ہوتے رہتے ہیں۔۔۔!
تاہم پاکستان میں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘جیسے جنگل کے قانون کے تحت بیوروکریسی جیسے طاقتوار ادارے فوائد پر فوائد لیے جار ہے ہیں اور کمزور اداروں کے جملہ سرکاری ملازمین اُ ن کا منہ دیکھ رہے ہیں۔دس سال تو بڑی دور کی بات ہے وہاں دو دو تین سال میںاگلے سکیل میں ترقی مل جاتی ہے اور دس سال میں ترقی اور مراعات کا گراف کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔

طاقت کے انہی ستونوں میں ایک ستون عدلیہ ہے جہاں ٹائم سکیل پروموشن بلکہ اچھے سے اچھے سکیل میںعام پروموشن بھی ایک تسلسل سے جاری ہے۔ سول جج سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک پروموشن کی ایک مسلسل چین ہے جس پر تسلسل سے کام جاری ہے اور عدلیہ اور اس سے متعلقہ ملازمین ان مراعات سے لطف اٹھا رہے ہیںجبکہ دوسری طرف عدلیہ کے انہی ایوانوں میں عام سرکاری ملازمین کی پروموشن کے مقدمات اور درخواستیں سالہا سال سے شنوائی کی منتظر ہیں۔۔۔!

عدلیہ صرف اپنے حقوق کی نہیں بلکہ آئین پاکستان کے تحت عوام النا س سے لیکر جملہ سرکاری اداروں و اہلکاروں تک سب کے حقوق کی محافظ ، نگہبان اور ذمہ دارہے۔ایسے میں دوسرے طاقتور اداروں کی خود غرضی اور بے حسی تو شاید اپنا کوئی جواز رکھتی ہو کہ ذہنی بھوک، افلاس اور اخلاقی باختگی کے دور میں ایسا ممکن ہے کہ لوٹ مار کرنے والے گروہوں کی طرح جس کے جو ہاتھ لگے وہ اُسے چھین جھپٹ کر لے اُڑے مگر عدلیہ کو روٹین سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔! اگر عدلیہ میں ٹائم سکیل پروموشن کے حوالہ سے ایک تسلسل سے ترقیاں ہو سکتی ہیںتو دوسرے محکموں میں کیوں نہیں۔اور دوسرے اداروں کی بے ضابطگیاں اورالجھے معاملات اگر عدلیہ نہیں دیکھے گی تو کون دیکھے گا۔ یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نظر دوسرے محکموں کی طرف بھی دوڑائے اور ان کے اعداد وشمار منگواکر جائزہ لے کہ کون کون ، کب کب، کتنے کتنے، سال سے پروموشن کے انتظار میں سسک رہا ہے اور اس کی شنوائی کہیں نہیں ہو رہی ۔۔۔۔!

سرکاری ملازمین کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جس سے عہدہ برآء ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر عدلیہ اپنی طاقت و اختیار کے بل بوتے پر اپنے لیے مراعاتی پیکجز منظور کر کے یا کروا کر مطمئن اور مسرور ہو کر بیٹھ جائے گی تو یہ عوام الناس اور دیگر سرکاری ملازمین کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا۔اگر عدلیہ ہی اپنے خول میں قید ہو کر مطمئن ہو جائے گی تو اردگرد پھیلی ناہمواریوں ، ظلم ، جبر اور استحصال کا خاتمہ کون کرے گا۔ایک ایسے وقت میں جب قانون ساز ادارے لمبی تان کر سور ہے ہیں۔ ملکی پالیسیوں میں تسلسل اور یکسانیت کے لیے عدلیہ کو ہی اپنے کردار کا تعین کرتے ہوئے اس کی ادائیگی کے لیے قدم اٹھانا ہو گا۔بات صرف ٹائم سکیل پروموشن کی نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ مراعات، مستقل الائونسز اور دیگر سہولیات کے حوالہ سے بھی محکموں میں بہت زیادہ تفاوت اور تقسیم ہے جسے ختم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنے فرائض سمجھنے اور ان کو ادا کرنے کے لیے اپنا بھرپور اور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔مشکل میں پھنسے اور درماندہ لوگ اگر عدلیہ کی طرف نہ دیکھیں گے تو کدھر جائیں گے۔۔۔!

ایسے کتنے ہی ’’ ملک صاحب ‘‘ ہیں جو سینے میں اگلے سکیل میں ترقی کی حسرتیں سمائے اور دل میں پروموشن کے ارمان لیے، اپنے اپنے محکمہ اور عدلیہ کی طرف امید اور یاس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ریٹائر ہو رہے ہیں مگر اسلام کے نام پر بننے والے ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں استحصال، بے انصافی اور خود غرضی کا بازار گرم ہے۔ اپنے گھر کے آرام دہ بستر پر لیٹے کسی فرد کو بے سرو سامان ’’فٹ پاتھ پر سونے والے‘‘ اور دنیا جہان کی سہولیات اور مراعات کو اپنے لیے سمیٹ لینے والوں کو’’ کھلے آسمان تلے مصروف عمل محروم طبقوں ‘‘ کا خیال تک نہیں آرہا۔۔۔!آخر عدلیہ بھی ان کے لیے سائبان کا فرض ادا نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔۔۔!!!

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سرکاری ملازمین پروموشن کے سکیل میں عدلیہ کی کے لیے کے بعد سال سے ہے ہیں دس سال

پڑھیں:

عمران کیخلاف فیصلہ سنانے والے جج عدلیہ میں رہنے کے قابل نہیں‘حلیم

کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ قوم کے بچوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دینے پر عمران خان کو ایک من گھرٹ کیس میں آج سزا دی گئی افسوس کی بات ہے اس ادارے کو آج بند کر دیا جہاں قرآن و سنت کی تعلیم دی جاتی تھی پوری قوم اس فیصلے کو نہیں مانتی۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے جمعہ کو انصاف ہائوس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔حلیم عاد ل شیخ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کہہ چکے ہیں یہ یہ جج جس نے آج فیصلہ سانایا ہے عدلیہ میں رہنے کے قابل نہیں ہے ہم فیصلے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں جائیں گے عمران خان جس طرح دیگر جھوٹے فیصلوں میں بری ہوئے اس فیصلے میں بھی بری ہونگے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران کیخلاف فیصلہ سنانے والے جج عدلیہ میں رہنے کے قابل نہیں‘حلیم
  • سربراہ پاک بحریہ سے بنگلہ دیش کی مسلح افواج ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف افسر کی ملاقات ،باہمی دلچسپی کے امورپر تبادلہ خیال
  • سربراہ پاک بحریہ سے بنگلہ دیشی لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کی ملاقات
  • 190ملین پاؤنڈ کیس عدلیہ کا امتحان ہے، علیمہ خان
  • پاک بحریہ نے مشترکہ ٹاسک فورس کی کمانڈ رائل نیوزی لینڈ نیوی کو سونپ دی
  • ڈاکٹرز ترقی سے محروم
  • آزاد کشمیر عدلیہ کی تاریخ شاندار فیصلوں سے مزین ہے، بیرسٹر سلطان
  • پارلیمان اور عدلیہ صنفی برابری کیلیے خود کچھ نہیں کررہے ،جسٹس محسن اختر کیانی
  • پارلیمان اور عدلیہ صنفی برابری کیلیے خود کچھ نہیں کررہے، جسٹس محسن اختر کیانی