نئے منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کی قیادت سے کہا تھا کہ وہ ان کے حلف اٹھانے تک اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑ دے ورنہ وہ غزہ کو جہنم بنا دے گا ۔ 20جنوری تو ابھی دور ہے لیکن اس کائنات کے مالک و خالق نے اس سے پہلے ہی امریکہ کی ایک ریاست کو جہنم کا نمونہ بنا دیا ۔اس آگ نے اس بد بخت کا گھر بھی جلا دیا کہ جو میڈیا پر آ کر مظلوم فلسطینیوں کے متعلق ہرزہ سرائی کیا کرتا تھا کہ Kill them allان سب کو قتل کر دو ۔ ہم عام طور پر سیاست سے جڑے حالات حاضرہ پر ہی گفتگو کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی موسم ، کھیل اور شو بز پر بھی کوشش کر لیتے ہیں ۔ ربیع الاول اور محرم کے مقدس ایام کے حوالے سے بھی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ قارئین کی نذر کر دیں لیکن آج جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے یقینا دیگر بہت سے احباب نے بھی اس پر طبع آزمائی کی ہے لیکن ہمارے لئے یہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہمیں انبیاء اکرام ؑ اور اہل بیت اطہارؓ اور خدائے پاک کے نیک اور برگزیدہ بندوں کے معجزات اور کرامات پر تو مکمل یقین ہے بلکہ یقین کامل کی حد تک ان پر پختہ ایمان ہے لیکن دور حاضر میں جس طرح ہم اکثر ایسے واقعات کو کہ جن کی توجیح مشکل ہو انھیں بھی معجزات میں شمار کر دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر و بیشتر جعلی ہوتے ہیں انھیں میرے لئے تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن بخدا امریکہ کے شہر اور ہالی ووڈ کے مرکز لاس اینجلس میں لگی آگ کو مادی اور سائنسی طور پر سمجھنے اور پرکھنے کی بہت کوشش کی لیکن مکمل ناکامی ہوئی ۔ یہ نہیں کہ تاریخ میں اس طرح کے واقعات نہیں ہیں بالکل ہیں اور لاس اینجلس ہی ماضی میں ایک سے زائد بار آگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے ۔ 1933میں بھی آگ نے تباہی مچائی تھی ۔2007میں کیلی فورنیا کے جنگلات میں آگ لگی اور کم و بیش دس لاکھ ایکڑ رقبے کو جلا کر راکھ کر دیا ۔ اس وقت بھی تقریباََ پندرہ سو مکانات جلے تھے ۔ اس کے علاوہ ماضی میں دنیا میں آگ کے طوفان بھی آئے لیکن موجودہ آگ نے ماضی کے ریکارڈ توڑ دیئے ۔ اب تک نقصان کا جو تخمینہ لگایا جا چکا ہے اس کے مطابق 250ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد24ہے اور بیسیوں افراد زخمی ہیں لیکن ابھی تک آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ۔ امریکہ کے پاس جدید ترین مشینری ہے لیکن اس کے باوجود بھی آگ نے رہائشی علاقوں میں تباہی مچا دی اور ہزاروں گھر راکھ کا ڈھیر بن گئے لیکن امریکہ کی جدید مشینری بھی کچھ نہ کر سکی ۔ اس وقت سو کلو میٹر کی رفتار سے ہوا چل رہی ہے جو اس آگ کے پھیلائو کو روکنے میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔
بچپن سے ٹیلی وژن سکرینوں اور اخبارات میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات تو پڑھتے رہے ہیں لیکن ان کے متعلق یہی سنتے رہے کہ سخت گرم موسم میں فضا میں نمی کے ختم ہونے کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے اور اکثر و بیشتر دنیا کے مختلف ممالک میں ایسا ہوتا ہے اور کئی مرتبہ کم سطح پر پاکستان میں بھی ایسا ہوا ہے لیکن سخت سرد موسم میں کہ ایسی ہوا کہ جس میں نمی بھی ہے اور حکام کو امید تھی کہ نمی لئے ہوا آگ کو بجھانے میں معاون ثابت ہو گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے بر عکس ہوا آگ کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہے ۔ایک تو جنگل سے ہٹ کر رہائشی علاقوں میں اس قدر تباہی پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے اور دوسرا گرمی کی بجائے سرد موسم میں اس شدت کی آگ اور اس کا پھیلائو بھی کم کم ہی دیکھنے کو ملا ہے ۔ قدرت نے امریکہ جسے ہم سپر پاور کہتے ہیں اسے کیسے بے بس کیا ہوا ہے کہ ایک ریاست میں اگر آگ جہنم کے مناظر پیش کر رہی ہے تو دیگر کئی ریاستوں میں برف کے طوفان نے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ قدرت کی ذات تو عبرت دکھاتی ہے لیکن انسان کے پاس عبرت کی نگاہ بھی ہونی چاہئے ۔
ہم پاکستانیوں کی نظر میں مغربی ممالک میں اور کچھ ہو نہ ہو لیکن وہاں انسانیت کا بول بالا ہے اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ مغربی معاشروں میں انسانی جان کی بڑی قدر ہے لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انہی مہذب معاشروں میں اور خاص طور پر امریکی معاشروں میں اخلاقی جرائم کی شرح کافی زیادہ ہے اور جب کبھی کہیں غیر اعلانیہ بجلی چلی جاتی ہے اور وہ چاہے پانچ منٹ کے لئے ہی جائے تو اس مختصر وقت میں بھی ہزاروں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہو جاتے ہیں اور یہی حال اب بھی ہوا ہے کہ ایک طرف تو امریکہ عذاب الٰہی کی گرفت میں ہے لیکن دوسری طرف اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں جس کے لئے انتظامیہ الگ سے پریشان ہے ۔ لاس اینجلس کائونٹی کے ڈپٹی شیرف نے کہا ہے کہ جنگل کی آگ نے شہر کے کچھ محلوں کو ایسا کر دیا ہے کہ جیسے وہاں کوئی بڑی جنگ ہوئی ہو ۔ کاش اس ڈپٹی شیرف کو کوئی بتائے کہ تم فلسطین کے مظلوم اور بے بس مسلمانوں پر جنگ مسلط کر کے جس طرح ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہو توقدرت ان کا بدلہ ایسے بھی لیا کرتی ہے ۔ آگ کی شدت کس قدر ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے تین دن پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ لاس اینجلس میں مدد کے لئے کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کے مزید ایک ہزار اہل کاروں کو تعینات کر رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اب تک تقریباََ 2500فوجی متحرک ہیں جو آگ سے تباہ ہونے والے علاقوں کے لوگوں کو محفوظ رکھنے میں مدد جاری رکھیں گے ۔ نئے منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کی قیادت سے کہا تھا کہ وہ ان کے حلف اٹھانے تک اسرائیلی یر غمالیوں کو چھوڑ دے ورنہ وہ غزہ کو جہنم بنا دے گا ۔ 20جنوری تو ابھی دور ہے لیکن اس کائنات کے مالک و خالق نے اس سے پہلے ہی امریکہ کی ایک ریاست کو جہنم کا نمونہ بنا دیا ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: لاس اینجلس کو جہنم ہے لیکن تھا کہ رہی ہے ہے اور لیکن ا
پڑھیں:
امریکہ کے47ویں صدرڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور کیرئیر پر ایک نظر
ویب ڈیسک —
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے سینتالیسویں صدر کی حیثیت سے ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس پہنچے ہیں جو ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس سے پہلے وہ 2016 سے 2020 تک امریکہ کے پینتالیسویں صدر کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس تمام عرصے میں ان کی شخصیت اور نظریات نے ریپبلکن پارٹی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ صدارتی انتخابات میں ان کی دوبارہ کامیابی سے امریکی ووٹروں نے انہیں ایک بے مثال اور طاقتور مینڈیٹ دیا ہے۔
انہوں نے دو بار امریکہ کے صدر کی حیثیت سے اپنے انتخاب پراامریکی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ،”میں ہر شہری سے کہتا ہوں کہ میں آپ کے لیے لڑوں گا۔ آپ کے خاندان اور آپ کے مستقبل کے لیے۔ اور جب تک میرے جسم میں ایک سانس بھی باقی ہے۔ ہر روز میں آپ کے لیے جدوجہد کروں گا۔”
انہوں نےعزم طاہر کیا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ان کے اپنے الفاظ میں، "ہم امریکہ کو مضبوط،محفوظ اور خوشحال نہ بنا دیں، جس کے حقدار ہمارے بچے ہیں اور جس کے آپ حقدار ہیں۔”
منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔ فائل فوٹو
ٹرمپ۔اپنے وجدان پر انتہائی بھروسہ کرنے والی شخصیت
کرس بیوٹنر نے جو نیو یارک ٹائمز کے تحقیقاتی رپورٹر ہیں، منتخب صدر کو ایک ایسی شخصیت سے تعبیر کیاہے "جنہیں خود اپنے وجدان پر انتہائی بھروسہ ہے۔ "
سوزین کریگ، بھی نیو یارک ٹائمز سے وابستہ ایک تحقیقاتی رپورٹر ہیں۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابیوں پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، "انہوں نے دی نیویارک ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا اور تب وہ 20 کروڑ کے مالک تھے۔اور اس کے ایک دہائی بعد جب وہ پروگرام’ 60 منٹس ‘ میں بات کر رہے تھے تو وہ ایک ارب ڈالر کے مالک بن چکے تھے۔ "
ٹرمپ نے اپنی جانب توجہ مرکوز کرنے اور خود کو ایک ڈیل میکر بنا کر پیش کرنے میں ملکہ حاصل کیا۔ انہوں نے اپنےنام سے لائسنسنگ کانٹریکٹس کے ذریعے لاکھوں کمائے۔
ٹرمپ نے دشواریوں کا سامنا بھی کیا
Trump rating
ان کامیابیوں کے پیچھے مشکلات بھی تھیں۔ ان کی کمپنیوں نے چھ مرتبہ دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا۔ ان کے کیسینوز کو نقصان ہوا اور وہ بند ہو گئے۔
ٹرمپ اپنے ٹی وی شو “
ٹرمپ اپنے ٹی وی شو "The Apprentice” کے ذریعے واپس آئے اور یہ ان کے اب تک کے سب سے بڑے کردار کی جانب لے گیا۔
کچھ کے خیال میں ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی جزوی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی جواب میں انکار کو تسلیم نہیں کرتے ۔
US President-elect Donald Trump speaks during an choosing night eventuality during a West Palm Beach Convention Center in West Palm Beach, Florida, on Nov. 6, 2024.
غیر معذرت خواہانہ اوربلا روک ٹوک انداز کے ساتھ، ٹرمپ تقسیم پیدا کرنے والے قوم پرست امیدوار تھے۔ انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کا معاملہ ان کا ایک اہم موضوع تھا۔ ان کی ایک تقریر کا اقتباس۔
"جب میکسیکو اپنے لوگوں کو بھیجتا ہے تو وہ اپنے بہترین لوگوں کو نہیں بھیجتے۔ وہ منشیات لا رہے ہیں، وہ جرائم لا رہے ہیں، وہ ریپ کرتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ کچھ اچھے لوگ بھی ہیں۔”
صدر کے طور پر ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے تین جج مقرر کیے جنہوں نے اسقاطِ حمل کے وفاقی حقوق کو تبدیل کر نے میں مدد دی۔
2020 کے اوائل میں کووڈ 19 کی وباء
2020 کے اوائل میں کووڈ 19 کی وباء ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک آزمائش تھی۔ انہوں نے زندگی بچانے والی ویکسینز کی تیز رفتاری سے تیاری پر زور دیا لیکن ساتھ ہی بظاہر انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ سائنسدان وائرس کو ختم کرنے کے لیے جسم میں بلیچ داخل کرنے پر تحقیق کریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ۔ فائل فوٹو
ایک ایسے وقت میں جب 90 لاکھ سے زیادہ امریکی کووڈ سے متاثر ہوئے اور مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار سے تجاوز کر گئی، اس سال نومبر کے صدارتی انتخابات میں ووٹروں نے جو بائیڈن کو اپنا آئندہ صدر منتخب کر لیا۔
ٹرمپ کے خلاف مقدمات
اپنے منصب سے الگ ہونے کے بعد ٹرمپ کو متعدد فوجداری الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پہلے ایسے سابق صدر ہیں جنہیں فوجداری جرم کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ تاہم اس کے باوجود وہ ہمیشہ سے زیادہ مقبول ہیں
گزشتہ سال ٹرمپ دو قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے۔ جن کی وجہ سے ان کے حامیوں سے ان کا رشتہ اور مضبوط ہوا۔
پیم اسمتھ، منتخب صدر ٹرمپ کی حامی ہیں، ان حملوں کے وقت انہوں نے کہا تھا، "خدا نے ٹرمپ کے لیے کچھ سوچ رکھا ہے۔ ان کی جان یقیناً کسی مقصد، کسی خاص وجہ سے بچی ہے اور توقع ہے کہ ایسا اسی لیے ہوا کہ وہ ملک کے سینتالیسویں صدر بنیں۔”
ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکی سیاست پہلے جیسی نہیں رہی۔ وہ شخص جس نے کبھی جرنلسٹ کیٹ بانر کے ساتھ مل کر "دی آرٹ آف دی کم بیک”نامی کتاب لکھی تھی، میدان میں واپسی کا فن استعمال کرتے ہوئے اب ایک بار پھر اقتدار میں واپس آ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔