Nai Baat:
2025-01-18@10:55:58 GMT

گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یہ مثل شائد پی ٹی آئی کے لیے ایجاد ہوئی تھی کہ ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘ یہ ہی کچھ اس جماعت کے ساتھ ہوگیا ہے، یا جاری ہے 25 اپریل 1996ء کو پاکستان میں ظہور ہونے والی جماعت جو اسٹیبلشمنٹ میں موجود اقتدار کی رسیاں ہلانے والے عناصر کے سہارے اپنی جماعت کو اقتدار تک لیکرآئی ، ایک تعلیم یافتہ ، قدرے جوان اور کرکٹ کے حوالے سے دنیا میں معروف سیاسی قیادت کے پیچھے ایک نئی امید کے ساتھ ملک کا نوجوان طبقہ اور تعلیم یافتہ طبقہ انکے گرد جمع ہونا شروع ہو گیا، کرکٹ کے زمانے سے ہی انکی عادات اور ذہنی سوچ کچھ اس طرح تھی کہ ’’مجھ سے اعلیٰ کوئی نہیں‘‘ کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا جس میں یقینا ٹیم کے تمام افراد کی کارکردگی تھی کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ جیتنے پر جو انعامات ملے وہ شوکت خانم ہسپتال کا نام دکھا کر ان سے لے لئے (شنیدہے ) ورلڈ کپ جیت کر جب عمران خان کو انکی بیگم جمائما کے ہمراہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے ا ور شوکت خانم کیلئے فنڈز حاصل کرنے کیلئے جدہ دعوت دی گئی، کمیونٹی نے انکے اعزاز میں ایک شاندار تقریب او ر عشائیہ کا بندوبست کیا، جس میں سیکڑوںکی تعداد میں پاکستانی خواتین اور مردوںنے شرکت کی ، وہ اس تقریب میں ایک ہی کرسی پر بیٹھے رہے ان سے کہا گیا کہ خطاب کریں وہ نہ کیا ، وہاںموجود حاضرین کی خواہش تھی کہ انکے ہمراہ تصاویر بنوائیں تقریب کی نظامت میں کررہا تھا ، میںنے مشورہ دیا انکی نشست پر جاکر کہ بجائے اسکے کہ لوگ یہاں آپکے پاس آئیں اگر آپ نشست پر جاکر لوگوں سے ملیں، وہ تصاویر بھی بنائینگے اور خاطر خواہ فنڈ بھی جمع ہوگا ، عمران خان نے کہا کہ میں کہیں نہیں جائونگا جس کو آنا ہے وہ یہاںآجائے ، ایک تقریب شوکت خانم کے فنڈز کے سلسلے میں پاکستان میں ہوئی جس میں بھارتی اداکار بھی آئے ، میوزک کے دوران بھارتی مہمان رقص کررہے تھے یہاں تک جاوید میاںداد بھی اپنی نشست سے اٹھ کر خوشی کا اظہار کرنے والوںکے ساتھ کھڑے ہوگئے موصوف عمران خان سے کہا گیا کہ وہ بھی اٹھ جائیں انہوں نے ایسا نہ کیا جیسے وہاںموجود لوگوںپر وہ فنڈ لے کر احسان کررہے ہیں۔ ورلڈ کپ میںکامیابی کی وجہ سے جب ٹیم عمرہ کرنے جدہ پہنچی وہ ٹیم کے ساتھ عمرہ کیلئے نہیں گئے بلکہ اپنے لئے علیحدہ انتظام کیا۔ سیاست میں آنے کے اعلان کے ساتھ ان سے جدہ کے ہوٹل میں اخباری نمائندوںنے مبارکباد دی اور مختلف سوالات کئے جس میں ایک سوال کشمیر کی تحریک کی حمائت کے حوالے سے تھا عمران خان کا جواب تھا ’’کشمیر چھوڑیں، صرف پاکستان کی فکر کریں۔ مندرجہ بالا واقعات لکھنے کا مقصد ان کی ذہنی کیفیت بتانا ہے، یہ ہی عمل اب سیاست میں آنے کے بعد کیا ۔ ایک مضبوط جماعت جسے بڑے پیمانے پر حمائت حاصل تھی مگر اسے انکی ’’صرف میں ہی اعلیٰ اور عقل کل ‘‘والی پالیسی نے اس جماعت کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ انکی جماعت کو آج حکومت سے مذاکرات کیلئے تحریری چارٹر آف ڈیمانڈ دینا پڑ رہا ہے ، ورنہ جو سڑک کی سیاست اس جماعت نے کی ہے اس پر تو حکومت کو خود ہی ان سے رابطہ کرنا چاہئے تھا اندرونی خوف کی بنا پر حکومت سمجھ چکی ہے کہ اس جماعت کے پاس منظم لیڈر شپ ہے اورنہ ہی عوامی سابقہ حمائت ، ایسے معاملات میں جتنی تاخیر ہوتی ہے دیگر عوامل شامل ہوجاتے ہیں گزشتہ دنوں عمرہ پر آئے ہوئے اس جماعت کے ایک معروف شخص جس نے روز اول سے اس جماعت کیلئے کام کیا اس سے ملاقا ت میںجو جماعت کے متعلق انہوںنے آپ بیتی سنائی ، آپ بیتی کے دوران انکی آنکھوں میں آنسو دیکھے انکا کہنا تھا۔ حکومت میں آنے سے قبل اور خاص طور حکومت میں آنے کے بعد یک شخصی فیصلوںنے بہت سے درد مند پارٹی رہنمائوں کو مایوس کیا ، اپنابڑا سرمایہ اور وقت لگانے، جیل کی صعوبتیںبرداشت کر کے وہ اس جماعت سے مایوس ہو گئے، انہیں حکومت کی سختیاں اور سرمایہ ضائع ہونے کا افسوس نہیں ، اصل افسوس اس بات کا ہے کہ جماعت میںجو بھی مثبت مشورہ دیتا ہے اسے جماعتی عہدے سے فارغ کردیا گیا ، دراصل پس پشت جماعت چلانے والے کسی مثبت مشوروںکو خاطر میںنہیں لاتے تھے انہیں اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا جسکا خمیازہ پوری جماعت اور اس سے محبت کرنے والوں کو بھگتنا پڑا ۔ انہوں نے ذکر کیا 9مئی کا کہ جماعت نے انکی موجودگی میں فیصلہ کیا کہ جماعت میں موجود بااثر سابقہ عسکری لوگوںکہا جائے کہ وہ اہتمام کریںکہ فوری طور کور کمانڈر ہائوس، قائداعظم ہائوس جہاں دہشت گردی کی گئی عمران خان وہاںجائیں وہیں پریس کانفرنس کریں واقعہ کی فوری مذمت کریں اور کہیں کہ جماعت اسکی خود بھی تحقیقات کرے گی اور جماعت سے وابستہ لوگوںکو جماعت سے علیحدہ کرے گی ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں مگر پشت پر بیٹھے لوگوںنے ایسا نہیں کرنے دیا۔ انہوںنے بتایا کہ جب انکی حالیہ بیگم نے جماعت میں کوئی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود احتجاج کی کال دی، اس فیصلے میںجماعت کے معروف لوگوںکو نظر انداز کرتے ہوئے تو انہوںنے اعلا ن کیا کہ ہر صوبائی ٹکٹ کا طلب گار 5000 افراد اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا طلب گار 10,000 افراد لیکر احتجاج کیلئے پہنچے گا انہیں مشورہ دیا گیا کہ ایسا ممکن نہیںیہاں تک کہ اگر فی ممبر 200 افراد بھی لائے یہ بھی ممکن نہیں، چونکہ اس میں ٹرانسپورٹ، کھانا اور دیگر ذمہ داریاں ہوتی ہیں جو بندے لانے والوںکی ہوتی ہیں صرف گرفتاریوں اور مارکھانے کوئی نہیں آتا۔ اسطرح اب یہ جماعت صرف ایک صوبے کے کچھ افراد پر مشتمل ہو گئی ہے۔ علاقائی عہدیداروں کی تبدیلیاں بغیر کسی وجہ کے پسند نہ پسند کی بنیادپر تو روز کا معمول رہا ہے اور تاحال جاری ہے۔ حکومت جب تھی اسکے لئے قربانیاں دینے والے، بڑے بڑے اخراجات کرنے والے مہینوں ملاقات کا انتظار کرتے تھے ۔ آج ہر رہنما دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اسلئے فیصلہ کوئی نہیں کر سکتا اختلافات کی وجہ سے پارٹی کی مقبولیت پر بھی اثر پڑ رہا ہے لوگوں کو لگتا ہے کہ پارٹی میں اختلافات کی وجہ سے وہ اپنے ووٹ بنک سے بھی محروم ہو گئی ہے ،جماعت میں کوئی نظم ضبط نہیں ہے سیاسی رہنما اپنے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور بانی کی رہائی کے حوالے سے جماعت کوئی رائے دینے یا کوئی مشورہ دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی اول تو بہت کم لوگ بانی سے مل پاتے ہیں جن کا رابطہ نہیں ان کا رابط کرنے والوں پر عدم اعتماد ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بانی کو حقائق نہیں بتاتے۔ وزیراعلیٰ کے پی کے نہ جانے کس کا کردار ادا کر رہے ہیں ان کے بارے میں جماعت میں بہت سی گفتگو ہوتی ہے اور لوگ منہ میں انگلیاں دے رہے ہوتے ہیں اور سوالیہ نشان رکھتے ہیںمثبت سوچ والے حکومت کے ساتھ کوشش میںہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے مگر پارٹی لیڈر بانی کو کوئی بھی رائے دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ بانی ناراض نہ ہو جائیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جماعت کو جماعت کے کہ جماعت کے ساتھ نہیں ا ہے اور

پڑھیں:

190 ملین پاؤنڈ کیس، ‏بانی پی ٹی آئی عمران خان کا سزا کے بعد پہلا بیان آ گیا

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ ‏میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھڑی میں رہنا پڑا میں رہوں گا لیکن اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتا نہیں کروں گا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بانی پی ٹی آئی کے آفیشل اکاونٹ پر پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ ‏ہمارا عزم حقیقی آزادی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ہے، جس کے حصول تک اور آخری گیند تک لڑتے رہیں گے، کوئی ڈیل نہیں کروں گا اور تمام جھوٹے کیسز کا سامنا کروں گا۔ ‏میں ایک بار پھر قوم کو کہتا ہوں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھیں۔ پاکستان میں 1971 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، یحیٰ خان نے بھی ملک کو تباہ کیا اور آج بھی ڈکٹیٹر اپنی آمریت بچانے کے لیے اور اپنی ذات کے فائدے کے لیے یہ سب کر رہا ہے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‏آج القادر ٹرسٹ کے کالے فیصلے کے بعد عدلیہ نے اپنی ساکھ مزید تباہ کر دی ہے جو جج آمریت کو سپورٹ کرتا ہے اور اشاروں پر چلتا ہے اسے نوازا جاتا ہے، جن ججز کے نام اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے بھیجے گئے ان کا واحد میرٹ میرے خلاف فیصلے دینا ہے۔

مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ آگیا، حکومت کی جیت!

بانی پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ ‏یہ کیس تو دراصل نواز شریف اور اس کے بیٹے کے خلاف ہونا چاہییے تھا جنہوں نے برطانیہ میں اپنی 9 ارب کی پراپرٹی ملک ریاض کو 18 ارب میں بیچی۔ سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ ان کے پاس 9 ارب کہاں سے آئے؟ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں۔ قاضی فائز عیسی کے ساتھ مل کر حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی۔

‏انہوں نے کہا کہ القادر یونیورسٹی شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی طرح ہی عوام کے لیے ایک مفت فلاحی ادارہ ہے جہاں طلبأ سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے- القادر یونیورسٹی سے مجھے یا بشرٰیٰ بی بی کو ایک ٹکے کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور حکومت کو ایک ٹکے کا بھی نقصان نہیں ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ ‏القادر ٹرسٹ کی زمین بھی واپس لے لی گئی جس سے صرف غریب طلبأ کا نقصان ہو گا جو سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ‏القادر ٹرسٹ کا ایسا فیصلہ ہے جس کا پہلے ہی سب کو پتا تھا۔ چاہے فیصلے کی تاخیر ہو یا سزا کی بات سب پہلے ہی میڈیا پر آ جاتا ہے۔ عدالتی تاریخ میں ایسا مذاق کبھی نہیں دیکھا گیا، جس نے فیصلہ جج کو لکھ کر بھیجا ہے اسی نے میڈیا کو بھی لیک کیا۔

‏ان کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ ایک گھریلو خاتون ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بشرٰیٰ بی بی کو صرف اس لیے سزا دی گئی تاکہ مجھے تکلیف پہنچا کر مجھ پر دباؤ ڈالا جائے، ان پر پہلے بھی گھٹیا کیسز بنائے گئے لیکن بشرٰیٰ بی بی نے ہمیشہ اسے اللہ کا امتحان سمجھ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ میرے کاز کے ساتھ کھڑی رہی ہیں۔ ‏مذاکرات میں اگر 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوتی تو وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بددیانت لوگ (cheaters) کبھی نیوٹرل ایمپائرز کو نہیں آنے دیتے- حکومت جوڈیشل کمیشن کے مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • معیشت مضبوط ہونے کی خوشخبری
  • بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ کیخلاف فیصلے میں قانون کی بالادستی واضح نظر آئی، علی خورشیدی
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس، ‏بانی پی ٹی آئی عمران خان کا سزا کے بعد پہلا بیان آ گیا
  • 190ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پر عمران خان کا بیان بھی سامنے آ گیا
  • سرکاری ملازمین کی تقسیم اور انکی مالی مشکلات
  • ممبئی‘اداکار سیف علی خان ڈکیتی مزاحمت میںزخمی،اہلیہ‘بیٹے محفوظ رہے
  • الیکشن کمیشن ، پر امن انتخابات کیلیے نوجوانوں سے رابطہ
  • کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
  • چہ پدی چہ پدی کا شوربہ