اسلام آباد ہائیکورٹ کے نامزد ججز، پاکستان تحریک انصاف اور وکلا برادری کیا سوچ رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں 4 ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے لیے اس وقت 20 نام زیرِ غور ہیں۔ اس سلسلے میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس 17 جنوری کو ہوگا جس میں نامزدگیوں کا جائزہ لے کر کثرتِ رائے کی بنیاد پر ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کا فیصلہ کیا جائے گا۔
اِن 20 ناموں میں ضلعی عدلیہ سے کچھ نام ایسے بھی ہیں جنہوں نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف فیصلے دے رکھے ہیں یا اُن کے مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔ اور ممکنہ طور پر ہائیکورٹ کے جج بن جانے کے بعد یہی جج صاحبان اُن اپیلوں پر سماعت بھی کر سکتے ہیں تو کیا پاکستان تحریک انصاف کو ایسی نامزدگیوں پر تحفظات ہیں؟
بیرسٹر گوہر علی خانضلعی عدلیہ سے ایسے جج صاحبان کی نامزدگیوں کے بارے میں جب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان جو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے رُکن بھی ہیں اُن سے سوال پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اُن کی جماعت لائحہ عمل بنائے گی اور ہدایات جاری کرے گی کہ کس نامزدگی کو ووٹ دیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اُن کی جماعت نے بھی نامزدگیاں کر رکھی ہیں۔ وہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں اپنے نامزد کردہ جج صاحبان ہی کی حمایت کریں گے اور اُنہی کو ووٹ دیں گے۔
مزید پڑھیں:سوشل میڈیا کی جھوٹی مہم کا پردہ چاک، پشتون کمیونٹی کا اسلام آباد پولیس پر اعتماد کا اظہار
سینیٹر بیرسٹر علی ظفرپاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر جو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ممبر بھی ہیں اُنہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایسے جج صاحبان کو فیور دی جائے۔ لیکن آپ سنیارٹی کے اُصول کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ آپ کیسے ضلعی عدلیہ سے سینیئر موسٹ کے بجائے جونیئر جج صاحبان کو ہائیکورٹ کا جج بنائیں گے کیونکہ اُصول کے مطابق سینیئر موسٹ ہی کو لایا جانا چاہیے اور ہم نے اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ میں سب سے سینیئر موسٹ کو نامزد کر رکھا ہے۔ اگر ایسے جج صاحبان کو جن پر پی ٹی آئی کو تحفظات ہیں اُن کو ہائیکورٹ جج بنایا جاتا ہے تو کیا اُس سے عمران خان یا پی ٹی آئی مقدمات پر فرق پڑے گا؟
اس سوال کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مقدمات پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن اس سے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی ساکھ پر ضرور اثر پڑے گا اور اگر 17 جنوری کو جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ایسی کوشش کی گئی تو میں ضرور اُس ایشو پر آواز اُٹھاؤں گا اور پھر اجلاس کے بعد میڈیا میں بھی اِس کو ہائی لائٹ کیا جائے گا۔
ریاست علی آزاداسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجود صدر ریاست علی آزاد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم ختم ہو اور اِس ترمیم کے تحت جو ججوں کی تعیناتیوں کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے وہ طریقہ کار ختم کیا جائے اور میرٹ کی بنیادوں پر ججوں کی تعیناتیاں عمل میں لائی جائیں۔
اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ ایسے جج صاحبان جنہوں نے ایک سیاسی جماعت کے خلاف فیصلے دیے اور ریوارڈ کے طور پر اُن کو ہائیکورٹ جج تعیناتی کے لیے نامزد کیا گیا ہے، تو کیا وہ میرٹ اور قانون کے مطابق فیصلے کر پائیں گے؟
مزید پڑھیں: قاتل کو سزائے موت کیوں نہیں سنائی گئی؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کا ماتحت عدالت سے استفسار
اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتی اسلام آباد بار کونسل سے کے جائے اور باہر سے تعیناتیاں نہیں ہونی چاہیں۔ اور میں چیف جسٹس صاحب سے گزارش کروں گا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بھی اسلام آباد سے ہی ہونا چاہیے اور اگر کوئی باہر سے آئے گا تو ہم اُس کی مخالفت بھی کریں گے اور اُس کے خلاف احتجاج بھی کریں گے۔
ججز تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے؟ججز تعیناتی ترمیمی قواعد کے مطابق جوڈیشل کمیشن اراکین ہائیکورٹ ججز تعیناتی کے لیے نام تجویز کرکے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو بھجواتے ہیں جبکہ چیف جسٹس خود سے بھی نام تجویز کر سکتا ہے، اور اس کے بعد امیدواران کی حتمی فہرست جوڈیشل کمیشن کو بھجوائی جاتی ہے۔ جہاں کثرت رائے سے تعیناتی کی منظوری دی جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کے لیے، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کا نام جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے نامزد رُکن روشن خورشید بروچہ جبکہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاہ رُخ ارجمند کا نام اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے تجویز کیا۔ یہ دونوں نام بانی پی ٹی آئی کے مقدمات سے جُڑے ہیں۔
عمران خان کو سزا سنانے والے ڈسٹرکٹ جج جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعیناتی کے اُمیدوار ہیں۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے 5 اگست 2023 کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کو توشہ خان ون کیس میں 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جُرمانے کی سزا سنائی تو اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر شدید ترین کمپین کی گئی جس میں جعلی ویڈیوز بھی شامل تھیں۔ اور پھر ستمبر 2024 میں اُن کے آبائی علاقے بنوں میں خیبر پختونخوا حکومت کے اینٹی کرپشن ادارے کی جانب سے ایک مقدمے کا اندراج بھی کیا گیا جس میں جج ہمایوں دلاور کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے۔
مزید پڑھیں: ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا پاسپورٹ واپس دلوایا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاہ رُخ ارجمند اس وقت بانی پی ٹی آئی عمران خان سے متعلق مختلف مقدمات اور اپیلوں پر سماعت کر چکے ہیں یکم اکتوبر 2024 کو انہوں نے توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی تھیں۔ اس سے قبل اُنہوں نے عمران خان کے خلاف عدت کیس کی اپیل سننے سے معذرت کی تھی۔
ڈسٹرکٹ سیشن جج محمد اعظم خان نے جولائی 2023 میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان عدت کیس کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے اِسے سول جج کو سماعت کے لیے بھجوایا تھا۔ اس سے قبل سول جج نے مئی 2023 میں مذکورہ مقدمے کو ناقابلِ سماعت قرار دیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے لئے کون اُمیدوار ہیں؟جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی فہرست کے مطابق نامزد اُمیدواروں میں 5 جوڈیشل افسران، 14 وکلاء، ایک لاء آفیسر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور ایک خاتون بھی شامل ہیں جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی کے اُمیدوار ہیں۔
جوڈیشل افسران میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور، ڈسٹرکٹ سیشن جج اسلام آباد راجا جواد عباس حسن، چیئرمین آئی ٹی این ای شاہد محمود کھوکھر، ڈسٹرکٹ سیشن جج محمد اعظم خان اور ڈسٹرکٹ سیشن جج شاہ رُخ ارجمند شامل ہیں۔ جبکہ وکلا نامزد امیدواروں میں عدنان بشارت ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سید قمر حسین شاہ سبزواری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، عمر اسلم خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، انعام امین منہاس ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، محمد عثمان غنی راشد چیمہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، عدنان حیدر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، مِس ندرت بیان ایڈووکیٹ، سلطان مظہر شیر خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، کاشف علی ملک ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، دانیال اعجاز ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، بابر بلال ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، محمد عبدالرافع ایڈووکیٹ، چوہدری حفیظ اللہ یعقوب کے ناموں کے ساتھ ساتھ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت کا نام بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس سننے والے 2 ججز کے نام اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعیناتی کے لیے تجویز
جوڈیشل کمیشن میں کون کون شامل ہوگا؟جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے ججز تعیناتی رولز کی منظوری کے فوراً بعد ملک بھر کی پانچوں ہائیکورٹس میں ججز تعیناتیوں کے لیے جوڈیشل کمیشن اراکین سے نامزدگیوں کی فہرست مانگی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈیشنل ججز تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کریں گے جبکہ اُن کے ساتھ دیگر اراکین میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق، سینیئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اختر حسین، ممبر اسلام آباد بار کونسل ذوالفقار علی عباسی، اسپیکر قومی اسمبلی کی نامزد رکن روشن خورشید بروچہ، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وفاقی وزیر رانا تنویر حسین، سینیٹر فاروق ایچ نائیک، سینیٹر سید علی ظفر، مسلم لیگ ن کے رُکنِ قومی اسمبلی شیخ آفتاب احمد اور پاکستان تحریک انصاف کے رُکن قومی اسمبلی بیرسٹر گوہر علی خان شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ بیرسٹر گوہر علی خان پاکستان تحریک انصاف جج ہمایوں دلاور ریاست علی آزاد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ بیرسٹر گوہر علی خان پاکستان تحریک انصاف ریاست علی ا زاد اسلام ا باد ہائیکورٹ میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان ڈسٹرکٹ سیشن جج ججز کی تعیناتی تعیناتی کے لیے ایسے جج صاحبان ایڈیشنل ججز قومی اسمبلی ہائیکورٹ کے ہائیکورٹ کا ججز تعیناتی ایڈیشنل جج مزید پڑھیں ضلعی عدلیہ پی ٹی ا ئی ا نہوں نے چیف جسٹس کے مطابق کورٹ میں کے خلاف علی ظفر کریں گے کہا کہ
پڑھیں:
حکومت سے مذاکرات: پاکستان تحریک انصاف نے کون سے تحریری مطالبات پیش کیے؟
پاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات کے تیسرے دور میں حکومتی کمیٹی کے سامنے اپنے مطالبات تحریری شکل میں رکھ دیے۔ تحریک انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں آئین کی بحالی، قانون کی حکمرانی، عوامی مینڈیٹ کا احترام اور آزاد و شفاف انتخابات کے حوالے سے وسیع مذاکرات شامل ہیں۔
تحریری مطالبات میں اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں نے مشکلات اور قربانیوں کا طویل سفر طے کیا ہے۔ ہمارے قائد عمران خان اور ہزاروں حمایتیوں کو بلاجواز قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ پاکستانی عوام کے ووٹ کو پامال کیا گیا، ان کی آوازوں اور جسموں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ اسلام آباد کی گلیوں کو ہمارے شہیدوں کے خون نے مقدس بنایا ہے۔ ہم اب بھی پاکستان کے محروم عوام کی آواز کے طور پر کھڑے ہیں۔ یہ وہ آواز ہے جسے اقتدار کے فریب میں مبتلا افراد نے دبانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد میں قائم حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے تاکہ عوام کے حقوق کی جنگ کو آگے بڑھایا جا سکے۔ تحریک انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈز کو آئین کی بحالی، قانون کی حکمرانی، عوامی مینڈیٹ کا احترام اور آزاد و شفاف انتخابات کے حوالے سے وسیع مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیےمذاکرات کا تیسرا دور جاری، پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات حکومت کے سامنے رکھ دیے
الف) پاکستان تحریک انصاف وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ 2017 کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت 2 تحقیقاتی کمیشن قائم کیے جائیں۔ ان دونوں کمیشنز میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس یا 3 حاضر سروس جج شامل ہوں، جنہیں تحریک انصاف اور حکومت کے مابین متفقہ طور پر 7 دن کے اندر نامزد کیا جائے۔ ان کمیشنز کی کارروائی عوام اور میڈیا کے لیے کھلی ہونی چاہیے۔
پہلا کمیشن درج ذیل امور پر تفصیلی تحقیقات کرے:
9 مئی 2023 کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے حالات کی قانونی حیثیت؛ گرفتاری کے طریقہ کار کی قانونی حیثیت اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں رینجرز اور پولیس کے داخلے کے ذمہ دار افراد؛ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات؛ خاص طور پر ان حالات کی تحقیقات جن میں افراد کے گروپز حساس مقامات تک پہنچے اور جہاں املاک کو نقصان پہنچنے کا دعویٰ کیا گیا؛ ان مقامات کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگز کا جائزہ؛ اگر سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب نہیں تو اس کی عدم دستیابی کی وجوہات؛4) 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے افراد کو کس طریقے سے حراست میں لیا گیا اور انہیں کس حالت میں رکھا گیا؟ نیز ان کی رہائی کے حالات کیا تھے؟ کیا ان افراد کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، بشمول تشدد؟ گرفتار ہونے والے افراد کی فہرستیں کیسے تیار کی گئیں؟
5) کیا 9 مئی 2023 کے حوالے سے کسی ایک فرد کے خلاف متعدد ایف آئی آرز درج کی گئیں اور قانون کے عمل کا غلط استعمال کرتے ہوئے مسلسل گرفتاریاں کی گئیں؟
6) میڈیا کی سنسرشپ اور اس واقعے سے متعلق رپورٹنگ پر پابندیوں کے واقعات کا جائزہ لیا جائے، بشمول صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملات۔
7) حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے نفاذ کی قانونی حیثیت اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے، اور اس سے پہلے، دوران اور بعد کے حالات میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔
دوسرا کمیشن درج ذیل معاملات پر تفصیلی تحقیقات کرے:
1) 24 سے 27 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعات۔ خاص طور پر درج ذیل امور کی جانچ اور تحقیقات کی جائیں:
(الف) کیا اسلام آباد میں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں یا دیگر جسمانی تشدد کیا گیا؟ اگر ایسا ہوا تو مظاہرین پر گولیاں چلانے اور تشدد کا حکم کس نے دیا؟ کیا طاقت کا استعمال حد سے زیادہ تھا؟ اگر ہاں، تو اس کے ذمہ دار کون تھے؟
(ب) 24 سے 27 نومبر 2024 کے بعد شہدا اور زخمیوں کی تعداد اور لاپتہ ہونے والے افراد کی تفصیلات کیا ہیں؟
(ج) 24 سے 27 نومبر 2024 کے دوران اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں اور طبی مراکز میں سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کی حالت کیا تھی؟
(د) کیا اسپتالوں اور دیگر طبی مراکز کے ریکارڈ میں رد و بدل کیا گیا؟ اگر ہاں، تو یہ کس کے حکم پر اور کن ہدایات کے تحت کیا گیا؟ کیا اسپتالوں کو اموات اور زخمیوں کی معلومات جاری کرنے سے روکا گیا؟
(ہ) بلیو ایریا، اسلام آباد میں چائنا چوک سے ڈی چوک تک مختلف مقامات پر ریکارڈ کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کی حالت کا جائزہ لیا جائے۔
(و) 24 سے 27 نومبر کے واقعات کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرانے اور دیگر قانونی کارروائی کے لیے درخواست دینے والوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
(ز) میڈیا کی سنسرشپ اور اس واقعے سے متعلق رپورٹنگ پر پابندیوں کے واقعات کا جائزہ لیا جائے، بشمول صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملات۔
(ح) حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے نفاذ کی قانونی حیثیت اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے، اور اس سے پہلے، دوران اور بعد کے حالات میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔
ب) پاکستان تحریک انصاف وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا کے معطل کرنے کے احکامات کی حمایت کریں۔
پاکستان تحریک انصاف ان تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا معطل کرنے کے احکامات کے لیے وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے جنہیں 9 مئی 2023 کے کسی بھی واقعے، 24 سے 27 نومبر 2024 کے کسی واقعے، یا کسی اور سیاسی سرگرمی کے سلسلے میں درج کی گئی ایک یا ایک سے زائد ایف آئی آرز کے تحت گرفتار کیا گیا ہو، یا جنہیں سزا دی گئی ہو اور جن کی اپیلیں یا نظرثانی درخواستیں اس وقت کسی عدالت میں زیر سماعت ہوں۔
اس چارٹر میں تجویز کردہ دونوں کمیشنز کا قیام سنجیدگی کے عزم کی لازمی علامت ہے۔ اگر ہمارے مطالبے کے مطابق ان کمیشنز کو اصولی طور پر تسلیم نہ کیا گیا اور فوری طور پر قائم نہ کیا گیا تو ہم مذاکرات جاری رکھنے سے قاصر رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان تحریک انصاف مذاکرات