جب پاکستان کے زخمی کھلاڑیوں نے ویسٹ انڈیز کو ڈھیر کیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کو آخری پوزیشن پر دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے: ’ایسی بلندی ایسی پستی‘
یہ کرکٹ کے ان شائقین کے لیے بڑی تکلیف دہ بات ہے جو اس ٹیم کے زمانہ عروج کی تاریخ سے واقف ہیں۔
ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں ویسٹ انڈیز سے اوپر (نیچے سے) خیر سے پاکستان ٹیم ہے جسے اپنے سے اوپر (نیچے سے) بنگلہ دیش کی ٹیم نے گزشتہ برس ہوم سیریز میں وائٹ واش کیا تھا۔ اس لیے ان نتائج کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ کل ملتان میں ٹیسٹ کرکٹ کی دو کمزور ترین ٹیمیں برسرِ پیکار ہوں گی۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیسٹ کرکٹ میں گراؤٹ دیکھ کر میں نے اس کے تاب ناک ماضی کا ایک قصہ بیان کرنے کی ٹھانی ہے جس میں پاکستان ٹیم کا کردار ابھر کر سامنے آتا ہے اور پتا چلتا ہے اس کا ٹیسٹ کرکٹ میں کیا مقام تھا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب کوئی ٹیم ویسٹ انڈیز کی قاہری کے سامنے نہیں ٹکتی تھی۔ حریف ٹیمیں اور کھلاڑی اس سے خوف زدہ رہتے تھے۔ لیکن پاکستان ٹیم نے کئی دفعہ اس سیلِ رواں کے سامنے بند باندھنے کی کامیاب کوشش کی، اسے ٹف ٹائم دیا اور کرکٹ میں اس کی حاکمیت کو چیلنج کیا۔
یکم جون 1976 سے 30 مارچ 1995 تک ویسٹ انڈیز ٹیم نے 142 ٹیسٹ میچ کھیلے تھے جن میں سے صرف 19 ٹیسٹ میچوں میں اسے شکست ہوئی۔ چار دفعہ پاکستان نے اسے ہرایا۔ ان چار میں سے ایک ٹیسٹ پاکستان نے 1977 میں مشتاق محمد کی کپتانی میں جیتا لیکن پاکستان وہ ٹیسٹ سیریز ہار گیا تھا۔ باقی تینوں ٹیسٹ میچ پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں جیتے اور وہ تینوں مواقع پر سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہوئے۔
عمران خان کی کپتانی میں پاکستان نے انگلینڈ اور انڈیا کے خلاف ان کی سرزمین پر پہلی دفعہ ٹیسٹ سیریز میں کامیابی حاصل کی لیکن ان کامیابیوں کے مقابلے میں وہ کپتان کے طور پر تین دفعہ ویسٹ انڈیز سے ٹیسٹ سیریز میں ناقابلِ شکست رہنے کو زیادہ بڑی کامیابی جانتے ہیں۔
عمران خان کی زیرِقیادت پاکستان نے ویسٹ انڈیز سے جو تین ٹیسٹ میچ جیتے ان میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے لیکن 1986 میں فیصل آباد ٹیسٹ کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ پاکستانی میڈیا کا محاورہ مستعار لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے اس ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کا غرور خاک میں ملا دیا اور اسے دھول بھی چٹا دی۔
1979-80 سے 1986 میں فیصل آباد ٹیسٹ تک ویسٹ انڈیز نے 57 ٹیسٹ میچوں میں سے 30 میں کامیابی حاصل کی تھی اور صرف چار میچوں میں اسے شکست ہوئی تھی۔
فیصل آباد میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم دوسری اننگز میں 53 رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی۔ یہ اس کا ٹیسٹ میچ میں سب سے کم اسکور تھا۔ ویسٹ انڈیز کی اس ہزیمت میں عبدالقادر کی لیگ اسپن باؤلنگ کے جادو کا سب سے بڑھ کر دخل تھا جنہوں نے 9.
یہ ٹیسٹ میچ وسیم اکرم کے کیریئر میں ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ان کا نواں ٹیسٹ میچ تھا۔ ہر چند کہ انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے دوسرے ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لے کر اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا تھا لیکن کرکٹ کی سپر پاور کے خلاف شاندار کارکردگی چیزے دیگری تھی۔
وسیم اکرم نے پہلی اننگز میں 6 کھلاڑی آؤٹ کیے جن میں ویوین رچرڈز بھی شامل تھے۔ دوسری اننگز میں جب پاکستانی بیٹنگ لائن اپ لڑکھڑا گئی تو انہوں نے ذمے داری سے بلے بازی کرتے ہوئے ٹیسٹ میں پہلی نصف سینچری بنائی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ٹیسٹ کرکٹ میں آل راؤنڈر کی حیثیت سے ان کی صلاحیتوں کا اظہار ہوا اور وہ مین آف دی میچ ٹھہرے۔
یہ مقابلہ پاکستانی کھلاڑیوں کے گیند اور بلے کے ساتھ عمدہ کھیل اور ویسٹ انڈیز کی شکست کی بنا پر ہی یادگار نہیں ہے بلکہ یہ کھیل میں انسانی عزم اور ایثار کی بھی ایک درخشاں مثال ہے جس کی ابتدا کپتان عمران خان نے کی اور اسے انتہا تک سلیم ملک نے پہنچایا۔
پہلی اننگز میں 37 رنز پر پاکستان کے 5 کھلاڑی آؤٹ ہونے پر عمران خان کریز پر آئے تو میلکم مارشل کی پہلی ہی گیند ان کے کندھے پر لگی جس کے بعد پہلے ان کا کندھا سوج گیا اور پھر اس میں اکڑن آگئی۔ اس حالت میں بھی وہ وکٹ پر کھڑے رہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ میدان سے باہر چلے گئے تو باقی ٹیم جلد ہی آؤٹ ہو جائےگی اور پاکستان مشکلات میں گھر جائےگا۔
عمران خان نے عمدہ بیٹنگ کی جس دوران ان کے قابلِ بھروسہ پارٹنر سلیم ملک زخمی ہوکر میدان سے باہر چلے گئے۔ عمران خان 61 رنز پر آؤٹ ہوئے تو ٹیم کا مجموعی اسکور 159 تھا۔ عمر نعمان نے اپنی کتاب ’پرائیڈ اینڈ پیشن‘ میں اسے عمران خان کی بہترین اننگز میں سے ایک قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ایک منظم، جرات مندانہ اور تکنیکی لحاظ سے شاندار اننگز تھی جس نے ٹیم کو مکمل بربادی سے بچایا۔
ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے 159 رنز کے جواب میں 248 رنز بناکر میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ پاکستان کو پہلے 89 رنز کی برتری ختم کرنی تھی جس کے بعد اسے قابلِ دفاع ہدف دینا تھا۔
پاکستان کی اننگز کا آغاز اچھا نہیں تھا۔ 19 رنز پر دو کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ اس مرحلے پر کپتان نے سلیم یوسف کو نائٹ واچ مین کی حیثیت سے ویسٹ انڈیز کے خطرناک باؤلنگ اٹیک کا مقابلہ کرنے کے لیے میدانِ کارزار میں اتارا۔ سلیم یوسف نے اپنی شاندار بیٹنگ سے اس فیصلے کو درست ثابت کیا اور 61 رنز کی کارآمد اننگز کھیل کر ٹیم کو بھنور سے نکالا۔
وسیم اکرم نے اپنی کتاب ’سلطان‘ میں فیصل آباد ٹیسٹ کے بارے میں تاثرات بیان کرنے سے پہلے سلیم یوسف کے بارے میں بتایا ہے کہ عمران خان ان کو بہت پسند کرتے تھے۔ وسیم اکرم نے لکھا کہ سلیم یوسف بے خوف تھے، کسی بھی نمبر پر کھیل سکتے تھے، ان کا رویہ مثبت ہوتا اور وہ ہمیشہ ٹیم کے مفاد کو مقدم جانتے۔
عمران خان نے اپنی کتاب ’آل راؤنڈ ویو‘ میں 1988 کے دورہ ویسٹ انڈیز کے احوال میں سلیم یوسف کو آڑے وقت میں کام آنے والا کرکٹر قرار دیا ہے۔ انہوں نے بارباڈوس ٹیسٹ کے تذکرے میں سلیم یوسف کو نڈر کھلاڑی قرار دیا جن کی پہلی اننگز میں میلکم مارشل کی گیند پر ناک ٹوٹ گئی تھی لیکن وہ دوسری اننگز میں کھیلنے کے لیے آئے اور 28 رنز کی اہم اننگز کھیلی۔
اب آپ کو دوبارہ فیصل آباد لیے چلتے ہیں اور سلیم یوسف کے آؤٹ ہونے کے بعد کی صورتحال پر بات کرتے ہیں جس میں وسیم اکرم نے بہت اچھی بیٹنگ کی۔ نویں وکٹ گرنے کے بعد اس بات کی توقع بہت کم تھی کہ سلیم ملک وسیم اکرم کا ساتھ دینے کے لیے آجائیں گے۔ لیکن وہ تماشائیوں کے تحسینی نعروں کے شور میں اس عالم میں میدان میں اترے کہ ٹوٹے ہوئے بازو پر پلستر چڑھا تھا۔ کورٹنی والش کی پہلی گیند انہوں نے لیفٹ ہینڈر بن کر کھیلی لیکن اس کے بعد وہ رائٹ ہینڈر کے اپنے اصل روپ میں واپس آگئے تو والش کی گیند کھیلتے ہوئے انہیں زور کا درد اٹھا اور انہوں نے بلا ہاتھ سے جھٹک دیا مگر پھر ہمت مجتمع کرکے اگلی گیند کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
سلیم ملک نے 14 گیندوں پر تین رنز بنائے لیکن ان کی وسیم اکرم کے ساتھ 32 رنز کی شراکت داری ٹیم کے لیے سود مند رہی۔ سلیم ملک کے حوصلے سے حریف ٹیم کے حوصلے اتنے پست ہوئے کہ پہلے تو ویوین رچرڈز نے انہیں رنر لینے کی اجازت نہیں دی اور پھر سلیم ملک اور وسیم اکرم اوور کے بیچ جب صلاح مشورہ کررہے تھے تو وکٹ کیپر ڈوجون نے بیلز گرا کر رن آؤٹ کی اپیل کردی جسے امپائر نے مسترد کردیا۔ آخر کار 66 رنز بنا کر وسیم اکرم ہی پارٹنر سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے اور یوں پاکستان کی اننگز اختتام کو پہنچی۔
پہلی اننگز کی طرح مارشل نے دوسری اننگز میں بھی عمران خان پر وار کیا۔ ان کی گیند سے عمران خان کے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت زخمی ہوگئی اور اس پر تین ٹانکے لگے، اس لیے ویسٹ انڈیز کی دوسری اننگز میں انہیں گیند کو گرفت میں لینے میں مشکل پیش آرہی تھی لیکن یہ تکلیف ان کے عزم کی راہ میں حارج نہیں ہوئی اور وہ اوپنرز کو اننگز کے شروع میں آؤٹ کرکے مہمان ٹیم کو دباؤ میں لے آئے جس کے بعد ویسٹ انڈیز کی ٹیم عبدالقادر کی عمدہ باؤلنگ کی وجہ سے 53 رنز پر ڈھیر ہوگئی اور پاکستان نے 186 رنز سے یہ میچ جیت لیا۔
عمران خان کی کپتانی اور زخمی حالت میں شاندار کھیل، عبدالقادر کی جادوئی باؤلنگ، وسیم اکرم کی گیند اور بلے کے ساتھ بڑھیا پرفارمنس، سلیم یوسف کی دلیری اور سلیم ملک کا ٹیم کے لیے ایثار یہ وہ عناصر تھے جن کی یکجائی سے پاکستان نے اپنے وقت کی سب سے تگڑی ٹیم کو پچھاڑ دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمود الحسنگزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان کرکٹ بورڈ پاکستان ویسٹ انڈیز ٹیسٹ سیریز ٹیسٹ چیمپیئن شپ عمران خان محمودالحسن وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان کرکٹ بورڈ پاکستان ویسٹ انڈیز ٹیسٹ سیریز ٹیسٹ چیمپیئن شپ محمودالحسن وی نیوز میں ویسٹ انڈیز ویسٹ انڈیز کی وسیم اکرم نے عمران خان کی ٹیسٹ سیریز پہلی اننگز پاکستان نے فیصل آباد ٹیسٹ کرکٹ سلیم یوسف انہوں نے کرکٹ میں سلیم ملک ٹیسٹ میچ نے اپنی کی گیند اور وہ کے بعد ٹیم کو رنز کی کے لیے ٹیم کے
پڑھیں:
پاک ویسٹ انڈیز پہلا ٹیسٹ آج ملتان میں شروع ہوگا
ملتان(اسپورٹس ڈیسک)پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان پہلا ٹیسٹ آج ملتان اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جس کے لیے اسپن ٹریک تیار کر لیا گیا۔میچ کا آغاز صبح 10.30 بجے ہوگا، پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے کپتان ٹرافی کی رونمائی بھی کریں گے۔ ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ اسکواڈ کی جانب سے پریکٹس بھی کی گئی۔ اسپن وکٹ کی تیاری کے لیے انڈسٹریل سائز پنکھوں سے پچ کو خشک کیا جا رہا ہے جبکہ اسے پلاسٹک کور میں بھی ڈھانپ کر رکھا گیا ہے، گرائونڈ اسٹاف کو پہلے ہی پچ پر موجود نمی کو خشک کرنے کی ہدایت دی جا چکی۔اسپن ٹریک کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ٹیموں کی جانب سے پہلے ٹیسٹ میں اسپن بولرز پر انحصار کیا جائے گا۔ ممکنہ سلو کنڈیشنز کے پیش نظر بیٹرز نے بھی اسپنرز کو کھیلنے کی مہارت بنانے پر توجہ مرکوز رکھی رہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق اسپنر عبدالرحمان کو اسپن بولنگ کوچ مقرر کیا ہے، وہ ایک روز قبل ہی ٹیم کو جوائن کر چکے، انھوں نے میزبان اسپنرز ابرار احمد، نعمان علی اور ساجد خان کو پچ کے مطابق پریکٹس کروائی۔واضح رہے کہ کیریبیئن ٹیم 19برس بعد پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلے گی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان 2006 میں پاکستان میں کھیلی گئی سیریز میزبان ٹیم نے دو صفر سے جیتی تھی۔