شاباش اکنا ریلیف امریکا
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
امریکا کی ریاست کیلی فورنیا کے سب سے بڑے شہر لاس اینجلس کو گزشتہ دس دن سے آگ کے شعلوں نے گھیرا ہوا ہے۔ اب تک یہ آگ تقریباً چالیس ہزار ایکڑ جگہ میں موجود آبادیوں اور کھیتوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا چکی ہے۔ پچاس ہزار عمارتیں اپنے سازو سامان، فرنیچر اور کاروں سمیت جل کر کوئلہ ہو چکی ہیں۔ دو لاکھ سے زائد افراد گھروں سے نکل کر دور کھلے میدانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور کم از کم پچیس انسان بھی جھلس کر موت کی وادی میں جا چکے ہیں۔ آبادی کا سب سے مہنگا علاقہ ہالی ووڈ آگ سے شدید متاثر ہوا ہے۔ فلم انڈسٹری کے بعض چوٹی کے مالکان کے گھر بے نام و نشان ہوچکے ہیں۔ آگ ریاست کیلی فورنیا کے چار مختلف مگر اہم علاقوں میں لگی ہے۔ تیز خشک ہواؤں کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ آگ بجھانے والے ہیلی کاپٹر ابھی تک متاثرہ علاقوں کے ایک چوتھائی حصے کی آگ بھی نہیں بجھا پائے جبکہ آگ کی لپٹیں آگے ہی آگے بڑھ رہی ہیں۔ امریکا کے جنگلات میں ماضی میں بھی کئی بار آگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر یہ آگ شاید امریکا کی تاریخ کی سب سے خوفناک آگ ثابت ہوئی ہے۔ اللہ کرے اس آگ پر جلد قابو پایا جا سکے اور مزید انسانی جانوں اور املاک کا نقصان نہ ہو۔
اکنا (ICNA) امریکی مسلمانوں کی ایک نمایاں اور معتبر تنظیم ہے اور اس کی رفاہی تنظیم اکنا ریلیف ،جو امریکا میں آنے والی تمام قدرتی آفات میں آگے بڑھ کر آفت زدگان کی مدد کو پہنچتی رہتی ہے، اس کے سیکڑوں رضا کار بروقت آفت زدہ علاقے میں پہنچ چکے ہیں اور مصیبت زدگان کی پورے جذبے اور صلاحیت سے مدد کرنے میں مشغول ہیں۔ آفت زدہ مقامات پر اکنا نے بڑے پیمانے پر کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے اور ادویات کی تقسیم کا سلسلہ شروع کر دیاہے۔ اکنا ریلیف قبل ازیں کورونا کی آفت اور طوفانوں کی زد میں آئے انسانوں کی مدد کو پہنچتی رہی ہے۔ امریکی معاشرہ (حکومت نہیں) ہمارا محسن معاشرہ ہے۔ لاکھوں مسلمان وہاں اپنے اپنے آبائی ملکوں سے کہیں بہتر آزادیوں اور مواقع سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اس وقت پورے امریکا میں ہزاروں مساجد، سیکڑوں رفاہی ادارے اور درجنوں پروفیشنل تنظیمیں مثبت اور تعمیری کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ امریکی مسلمان سیاسی عمل کا حصہ بھی بن رہے ہیں اور مقامی، ریاستی اور ملکی سطح پر اب ان کا وزن محسوس ہوتا جا رہاہے۔ ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر کچھ جذباتی مگر کم فہم نوجوان غزہ پہ برسنے والے بموں کی آگ کو کیلی فورنیا پر برسنے والے شعلوں کی آگ کے مماثل قرار دے رہے ہیں اور اسے قدرت کا انتقام بتاتے ہوئے غزہ اور کیلی فورنیا کی تباہی کی یکسانیت کو اپنی پوسٹوں کا موضوع بنا رہے ہیں۔ شاید یہ نادان دوست اپنے سینوں میں لگی بے بسی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے خود کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غزہ کے خوفناک مظالم کے خلاف عوامی سطح پر شاید سب سے زیادہ ردعمل امریکی شہریوں اور خاص طور پر طلبہ کی طرف سے آیا تھا۔ اسرائیل کی سفاکی وظلم کے خلاف اس رد عمل میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں امریکی شہری بھی پیش پیش تھے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے طلبہ نے حیرت انگیز طور پر اسرائیلی مظالم کے خلاف کئی ماہ تک نہ صرف شدید مزاحمت کی بلکہ پورے ملک کی مزاحمت کی قیادت کی۔ اِ س مزاحمت کا عشر ِ عشیر بھی کسی مسلم ملک میں نہیں دیکھا جاسکا۔ قدرت کب، کس سے، اور کیسے انتقام لیتی ہے یہ تو قدرت اور پھر القادر خود جانے۔ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ کیلی فورنیا میں لگی آگ کے حوالے سے ہمارا رد عمل کیا ہو؟ یہ ردِ عمل ٹھیک وہی ہونا چاہیے جس کا اظہار اکنا ریلیف کے نوجوانوں نے سرعت کے ساتھ موقع پر پہنچ کرمتاثرہ لوگوں کی مدد کی صورت میں کیا ہے۔
رسول پاکؐ کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ: ’’میری مثال ایک ایسے شخص کی ہے جوکسی کی جلائی ہوئی آگ کے پاس موجود ہے۔ پروانے اس آگ کی طرف بھاگ بھاگ کر لپک رہے ہیں اور میں ایک ایک پروانے کو پکڑ پکڑ کر اس کی جان بچانے کی کوشش میں لگا ہوں‘‘۔ نبی پاکؐ نے کبھی کسی بستی کے رہنے والے عام انسانوں کی ہلاکت کی دعا نہیں کی۔ طائف کی وادی میں پڑے پتھر آج تک اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔ آبادیوں میں رہنے والے عام انسانوں سے ہمارا رویہ وہی ہونا چاہیے جو طائف میں گِھرے محسن انسانیت کا تھا۔ میں امریکی مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں کے سربراہان سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد بنانے کے بجائے، اکنا ریلیف کے ہم سفر بن کر اہل لاس انجلس کی مشترکہ مدد کو پہنچیں۔ اکنا ریلیف والو؛ ہم آپ کے شکر گزار ہیں، آپ نے ٹھیک سمت میں مسلمانوں کی رہنمائی کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
تجارتی جنگ: چین نے امریکا سے بڑا مطالبہ کردیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے ٹیرف پر واشنگٹن اور بیجنگ آمنے سامنے ہیں، اور اب چین نے امریکا سے جوابی ٹیرف کی پالیسی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ نے کہاکہ ہم غلطیوں کو درست کرنے کے لیے امریکا سے بڑا قدم اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں، جوابی ٹیرف جیسے غلط اقدامات کو مکمل طور پر ختم کرکے باہمی احترام کا راستہ واپس اختیار کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں چینی کمپنی پر برطانوی قبضہ، وجہ کیا بنی؟
انہوں نے کہاکہ امریکا نے الیکٹرانک مصنوعات کو ٹیرف سے مستثنیٰ قرار دیا ہے لیکن یہ چھوٹا قدم ہے، اور چین اس فیصلے کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس، میموری چپس اور دیگر مصنوعات کو ان ٹیرف سے استثنیٰ دیا ہے جو انہوں نے رواں ماہ نافذ کیے تھے۔
امریکا کی جانب سے چین پر عائد کیا گیا 145 فیصد ٹیرف بیشتر چینی مصنوعات پر بدستور عائد ہے، جبکہ چین نے بھی جواباً امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ڈیوٹی عائد کررکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں ’ٹیرف وار‘ کے چلتے ٹرمپ نے چینی الیکٹرونک کمپنیوں کو بڑا ریلیف دیدیا
چین اور امریکا کے آمنے سامنے آنے سے بظاہر تجارتی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے، اور ماہرین کے مطابق اگر اس جنگ نے طول پکڑا تو عالمی معیشت پر اس کا اثر پڑےگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا بڑا مطالبہ بیجنگ تجارتی جنگ چین وی نیوز