Express News:
2025-01-18@10:11:41 GMT

’’ایک اچھی پیش رفت یہی ہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں‘‘

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ کے پی کا ایک ٹرائیکا ہے جس میں تین لوگ آتے ہیں، مولانا فضل الرحمن، علی امین گنڈاپور ہیں اور وہاں کے گورنر فیصل کریم کنڈی ہیں، اتفاق سے یہ تینوں ایک ہی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہیں، جب ایک ہی علاقے کے سیاستدان ہوتے ہیں تو انھوں نے محاذ گرم رکھنا ہوتا ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا مولانا فضل الرحمن سیاسی قیدیوں کی رہائی کا ٹھیک مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ بات یہ ہے کہ جو حالات ہو چکے ہیں اگر ہم دیوار پر لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے تو پھر کیا کہہ سکتے ہیں، نابینا ہیں یا جاہل ہیں، ان دوباتوں میں سے ایک ہے، دیوار پر اب واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اس ملک کے اندر کیا چل رہا ہے، عمران خان اگر جیل سے باہر نہیں آ رہے تو آپ یقین کر لیں کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آ رہے، کوئی دوسرا ایشو نہیں ہے۔ 

تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے جس طرح کی تجویز دی ہے انھوں نے سیاسی بلوغیت کا مظاہرہ کیا ہے، اسی پروگرام میںمیں نے بارہا کہا ہے کہ اگر آپ نے اعتماد سازی کرنی ہے تو سب سے پہلا اس کا اسٹیپ یہی ہے کہ آپ سیاسی قیدیوں کو رہا کریں، یہاں یہ تجویز مولانا صاحب کی طرف سے آئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ تجویز پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے آنی چاہیے تھی۔ 

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ چوائس کرتے ہیں ہیرے، وہ کپتان ہیں اور ٹیم اپنی مرضی سے بہترین سیٹ کر کے کھلاتے ہیں، بہرحال بات تو مذاکرات کی ہے جب کل پی ٹی آئی لسٹ دے گی تو حکومت نے جو ان کے اراکین ہیں اور اتحادی جماعتیں وہ پھرسارے مل کر پرائم منسٹر کے آگے چلے جائیں گے کہ جی یہ لسٹ ہے، ایسے میں ایک اچھی پیش رفت بہر حال یہی ہے کہ وہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ 

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، گورنمنٹ نے جو کہا ہے کہ فہرست دیں اس میں سے کس کس کو سیاسی قیدی تسلیم کرتی ہے اور کس کو تسلیم نہیں کرتی، اس میں9 مئی کا بھی واقعہ ہے،جو فہرست دی جاتی ہے اگر اس میں بانی پی ٹی آئی کا نام بھی آجائے تو کیا اس کو بھی تسلیم کریں گے اور انھیں رہا کرنے کی بات کریں گے،یہ ساری چیزیں دیکھنی پڑیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ

پڑھیں:

اچھی معیشت گڈ گورننس کے لیے ناگزیر

معاشیات کا قدیم تصور یہ ہے کہ اسے دولت کا علم قرار دیا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں یہ تصور آج بھی کافی حدتک موجود ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی معیشت کے بنیادی عقائد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا علاوہ ازیں ریاستی ماہرین کی طرف سے معاشی معاملات کی وضاحت کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں وہ عوام الناس کے لیے ناقابل فہم ہیں لہٰذا کوئی سمجھنا چاہیے بھی تو یہ اس کے لیے آسان نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ معیشت کی بات آتی ہے تو اعداد و شمار عام صارفین کا راستہ روک لیتے ہیں حالانکہ حکومتیں تحریف کردہ اعداد و شمار کے ذریعے عام آدمی کو قائل کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ عوامی نفسیات یہ ہے کہ انسان جب کنفیوژہو جاتا ہے تو پھر وہ غیر حقیقی معلومات کا بھی قائل ہو جاتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آج کے دور میں عوام کا معیشت کے بنیادی اصولوں سے واقف ہونا ناگزیر ہے تا کہ انہیں سرمایہ داروں کا رپوریٹ طبقے اور حکومتوں کی حیلہ بازیوں کا علم ہو سکے کہ کس کس طرح عوام کا استحصال جاری رہتا ہے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے سابق پروفیسر ڈاکٹر فہد رحمن کا شمار ان ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے جن کا فوکس یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے معیشت کی ABC سمجھے بغیر قطعی طور پر کوئی چارہ نہیں۔ جب تک وہ نہیں سمجھیں گے وہ سیاسی قیادت کی معاشی پالیسی اور سیاستدانوں کی عوام سے متعلق خیر خواہی کا پردہ چاک نہیں کر سکیں گے۔ ہر الیکشن کے موقع پر ووٹرز اگر پارٹیوں کی معاشی کارکردگی یا اگلے الیکشن کے لیے سیاسی منشور کی کسوٹی بنائیں تو یقینا اس سے ملک میں عوام دوست قیادت اقتدار میں آسکتی ہے۔
محترم ڈاکٹر فہد رحمن نے یونیورسٹی آف نیو ساو¿تھ ویلز آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ہے اس سے پہلے انہوں نے جاپان کی معتبر یونیورسٹی GRIPS سے پالیسی سٹیڈیز میں ماسٹرز کیا اور کافی عرصہ تک پاکستان کے سرکاری ادارے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی SMEDA میں فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب "Pakistan Structural Economic Problems in the Era of Financial Globalization عکس پبلی کیشن لاہور نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب غیر روایتی انداز میں سادہ اور عام فہم زبان میں ہے جس میں بھاری بھر کم معاشی اصطلاحات سے گریز کیا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے قاری کا اکانومسٹ یا ریسرچر ہونا ضروری نہیں۔ کتاب کے شروع میں جی سی یونیورسٹی لاہور کے ہسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر محترم عرفان وحید عثمانی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی انڈیا کے پروفیسر امیت بہادری کے خیالات درج کیے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا فطری تجسس پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ Grips جاپان کے پروفیسر ڈاکٹر امداد حسین نے کتاب پر اپنا مختصر تجزیہ رقم کیا ہے۔
ڈاکٹر فہد رحمن کہتے ہیں کہ عام طور پر کسی ملک کی معاشی پرفارمنس کا اندازہ لگانے کے لیے ملک کی جی ڈی پی یا فی کس قومی آمدنی کو ایک indicator سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر جی ڈی پی بڑھ رہی ہے تو ملک ترقی کر رہا ہے لیکن اس کے برعکس کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ حکومتیں اعداد و شمار کے بارے میں سمجھ مبالغہ آمیزی کام لیتی ہیں لہٰذا اس کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی حکومت تعلیم صحت نکاسی¿ آب اور سماجی ڈھانچے پر کتنا خرچ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن کے مطابق انہوں نے کوشش کی ہے کہ فنانشل گلوبلائزیشن کے اس دور میں معیشت کے سٹرکچرل ایشوز کو منظر عام پر لایا جائے۔
مصنف کا خیال ہے کہ غیر مستحکم معاشی اور سیاسی حالات کی وجہ سے روزگار کے حصول کے لیے دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت سماجی ڈھانچے پر دو طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے ایک تو شہری زندگی پر دباو¿ بڑھتا جا رہا ہے دوسرا اہل افرادی قوت کی نقل مکانی سے دیہات میں ترقی اور بہتری کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن پہلے معیشت دان بھی جو برین ڈرین کے مقامی اثرات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
کتاب کے شروع میں معیشت کے روایتی اور غیر روایتی Formal & Informal شعبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملازمتوں کے ضمن میں 72 فیصد سے زیادہ افرادی قوت informal سیکٹر میں کام کر رہی ہے۔ یہ 2021 ءکے اعداد و شمار ہیں۔
ڈاکٹر فہد رحمن کی کتاب کا سب سے اہم موضوع فنانشل گلوبلائزیشن ہے جو ہماری قومی معیشت پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اس گلوبلائزیشن کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے لیے اس میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود اس کی مثالیں ہیں جو گلوبلائزیشن کی وجہ سے کافی تغیر پذیر ہیں اس سے زرعی شعبے میں منفی اثرات پڑتے ہیں۔
Multiple Financial Institutions یا MFIs کو مصنف نے کافی تفصیل سے ان کی معاشی مداخلت کو اجاگر کیا ہے ان سے مراد بین الاقوامی قرضہ دینے والے ادارے بشمول آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک شامل ہیں جو ایسی پالیسیاں زبردستی تھوپ دیتے ہیں جو طویل مدتی طور پر بجائے فائدے کے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ ڈاکٹر فہد رحمن کا کہنا ہے کہ قومی معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمیں MFis کی بجائے مقامی ماہرین پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سٹرکچرل ریفارمز کے نتیجے میں عوام کی زندگی پر آنے والے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر فہد رحمن کہتے ہیں کہ ہر ملٹری اور سول حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرضہ لینے پر مجبور ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حکومت قرضہ لیتی ہے تو اپوزیشن اس کی مخالفت کرتی ہے اور کشکول جیسے الفاظ استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ ان کے بغیر ادائیگیوں کا توازن ناممکن ہے البتہ میکرو اکنامک ریفارم کے نام پر کیے گئے اقدامات معیشت کی نشوونما کا عمل بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
کتاب کے دوسرے حصے میں انہوں نے پاکستان کے سٹرکچرل معاشی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے 5 شعبوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جس میں ناقابل برداشت حد تک مہنگی بجلی، زوال اور جمود پذیری کا شکار زرعی شعبہ، اوسط درجے کا انڈسٹریل سیکٹر، زرمبادلہ کے حصول میں رکاوٹیں اور لاقانون رئیل سٹیٹ سیکٹر شامل ہیں۔ مذکورہ بالا ہر شعبے پر الگ سے تفصیلی بحث درکار ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن نے ان سب شعبوں پر اپنی گراں قدر تجاویز دی ہیں جن پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سٹرکچرل یا ڈھانچہ جاتی مسائل اور ان کے حل کے فقدان کے نتائج کو انہوں نے الگ چیپٹر میں رقم کیا ہے جس میں ادائیگیوں کا بحران، افراط زر اور جائیداد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ شامل ہیں۔
اگر حکومتی وزراءیا مشیران حکومت میں سے کوئی شخصیت اس کتاب کا غیر جانبداری اور غیر سیاسی انداز میں مطالعہ کرتے تو اس میں مذکورہ تمام پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے واضح تجاویز دی گئی ہیں۔ معیشت حکمرانی کا اہم ترین شعبہ ہے۔ ملک میں معاشی حالت تبدیل کیے بغیر حقیقی تبدیلی کا تصور بے معنی ہے اور معیشت کو سمجھنے کے لیے آپ ماہرین کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات کمیٹی ڈرامہ
  • اچھی معیشت گڈ گورننس کے لیے ناگزیر
  • 2 مطالبات پھیل کر 2 صفحات تک چلے گئے، عرفان صدیقی
  • القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو، مذاکرات جاری رہیں گے.شبلی فراز
  • عمران خان کیخلاف کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو مذاکرات جاری رہیں گے، شبلی فراز
  • عمران خان  کیخلاف کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو مذاکرات جاری رہیں گے، شبلی فراز
  • کامیاب مذاکرات سے سیاسی استحکام آجائیگا، شرمیلا فاروقی
  • مذاکرات کا آج تیسرا دور، خوشخبری کی امید، پی ٹی آئی: اہم معلومات پر بات نہیں ہوئی، رانا ثنا
  • سیاسی استحکام جمہوریت کیلیے ضروری‘آج اچھی خبر آئے گی‘بیرسٹر گوہر