سندھ ہائیکورٹ‘لاپتا شہری کی بازیابی کیلیے موثر اقدامات کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
کراچی ( اسٹاف ر پورٹر)سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت۔ عدالت کی جانب سے لاپتا شہری کی بازیابی کے لیے موثر اقدامات کرنے کا حکم۔ دوران سماعت درخواست گزار کا کہنا تھا کہ محمد یوسف 2017ء سے تھانہ سائٹ
بی کی حدود سے لاپتا ہے، 8 برس سے عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ لاپتا شہری کہاں ہے؟، اب تک کیا کارروائی ہوئی ہے؟۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹیز نے لاپتا شہری کو ازخود لاپتا قرار دیا ہے، درخواست گزار کا کہنا تھا کہ میرا بھائی خود کیسے لاپتا ہوسکتا ہے، وہ شادی شدہ ہے اور3 بچے ہیں، خاندان کو چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے؟۔ شہری کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے تھا؟۔ تفتییشی افسر کا کہنا تھا کہ لاپتا شہری کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کسی کا تعلق ایم کیو ایم سے ہوگا تو اسے غائب کردیں گے؟۔ عدالت نے لاپتا شہری کی بازیابی کے لیے موثر اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست کی سماعت4 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ لاپتا شہری کی بازیابی
پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ نے کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دی
سندھ ہائیکورٹ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے خلاف مرحوم ملازم کے واجبات کی عدم ادائیگی پر کارروائی کرتے ہوئے کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ ڈی جی کے ڈی اے گزشتہ سماعت پر بھی پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی شوکاز نوٹس کا جواب دیا، جس پر عدالت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ، سندھ ہائیکورٹ نے ڈی جی کے ڈی اے کو 25 ہزار روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا، جبکہ ایس ایس پی شرقی کو وارنٹ کی تعمیل کرنے کی ہدایت بھی کی۔
سماعت کے دوران، ایم ڈی اے نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ مرحوم ملازم پہلے ایم ڈی اے میں کام کر رہے تھے اور بعد میں کے ڈی اے میں منتقل ہو گئے تھے، اور اب ان کے واجبات کی ادائیگی کے لیے مزید وقت دیا جائے۔
عدالت نے ایم ڈی اے کی درخواست پر غور کرتے ہوئے انہیں 18 جنوری تک واجبات عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ اس فیصلے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ عدالت ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سخت اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہے، اور اس نوعیت کی خلاف ورزیوں پر مزید سخت اقدامات بھی متوقع ہیں۔