قابض افواج کبھی ہمارے عوام اور مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتی، خلیل الحیہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
غزہ میں حماس کے سربراہ و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ ہم خاص طور پر لبنان کے عزیز بھائیوں کا ذکر کرتے ہیں، خاص طور پر حزب اللہ کے مجاہدین، جنہوں نے القدس کی آزادی کیلئے سیکڑوں شہداء دیئے اور انکی قیادت، جنکی سرپرستی میں یہ کارنامے انجام پائے، جن میں سید حسن نصراللہ اور انکے ساتھی شامل ہیں۔ ہم اسلامی جماعتوں کے بھائیوں کی مدد کو بھی یاد کرتے ہیں اور لبنان کے عوام کی عظیم مزاحمت اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے فلسطینی عوام کے دفاع میں بڑی ثابت قدمی دکھائی اور انہیں بے شمار مشکلات میں معاونت فراہم کی۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں حماس و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے جنگ بندی معاہدے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جن کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے، ہم تمام مزاحمتی گروپس کے مجاہدین کو سلام پیش کرتے ہیں، خاص طور پر القدس بریگیڈ کے مجاہدین کو جو اسلامی جہاد کی صف اول کے ساتھی ہیں۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں وزیراعظم محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی نے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ کروانے کے لیے قطر، مصر اور امریکا کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا اطلاق 19 جنوری سے ہوگا، حماس اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے مراحل پر عمل درآمد کے حوالے سے کام جاری ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے بعد غزہ میں حماس اور مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے اپنے تفصیلی بیان میں کہا کہ اس تاریخی لمحے میں، جو ہمارے عوام کی جدوجہد اور مسلسل نضال کا نتیجہ ہے، جو دہائیوں سے جاری ہے اور جس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوگا، ہم غزہ کے عظیم عوام کو فخر اور عظمت کے تمام الفاظ پیش کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اے اہل غزہ، اے عظمت کے حامل لوگو، اے شہداء، زخمیوں، اسیران اور مفقودین کے اہل خانہ، جنہوں نے وعدہ سچ ثابت کیا، صبر کیا اور وہ تکالیف برداشت کیں، جن کا کسی نے بھی پہلے سامنا نہ کیا اور آپ نے وہ سب کچھ جھیلا، جو کسی اور نے نہ جھیلا۔ آپ نے امانت کو اس کی اصل شکل میں نبھایا اور آپ اس کے اہل تھے۔ آپ نے فداء کی ہر لمحے کو پیش کیا اور قربانی کی ہر بات کو سچ ثابت کیا، صبر کے ہر موقع پر ثابت قدم رہے، جہاد کے میدان میں لڑے اور اللہ کے حکم سے عظیم ترین عزت حاصل کی۔
ان تمام افراد کو سلام جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ آپ کے عزم، جدوجہد، صبر، قربانیوں اور آپ کی بے شمار خدمات کا صلہ ملے گا، ہم اس لمحے میں عظیم شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جن میں بچے، خواتین، بزرگ، علماء، مجاہدین، ڈاکٹرز، صحافی، دفاعی اہلکار، حکومت اور پولیس کے ارکان اور قبائلی افراد شامل ہیں۔ ہم ان تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں، جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے اور ان کو خاص طور پر سلام پیش کرتے ہیں، جو ان کے بعد عہد پر ثابت قدم رہے اور اس راہ کو جاری رکھا اور اس پرچم کو ان کے بعد اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان عظیم شہداء قائدین کے سامنے ادب و احترام کے ساتھ کھڑے ہیں، جن کے جسموں کے ٹکڑے اس معرکہ میں بکھر گئے، جیسے شہید اسماعیل ہنیہ ابو العبد، شہید یحییٰ السنوار ابو ابراہیم، شہید صالح العاروری ابو محمد اور غزہ میں تحریک کی سیاسی و فوجی قیادت کے دیگر ارکان۔
ہم تمام مزاحمتی اور مجاہدانہ فصائل کے شہداء کے سامنے بھی احترام سے سر جھکاتے ہیں اور ان سے اور ہمارے عوام سے کہتے ہیں کہ ہمارے قائدین اور شہداء کی تجارت اللہ کے ساتھ ہے، یہ تجارت کبھی ضائع نہیں ہوگی۔ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یا تو فتح پائیں گے یا شہادت کی دولت سے نوازے جائیں گے، ان شاء اللہ۔ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ طوفان الاقصیٰ کی جنگ ہمارے مسئلے اور ہمارے عوام کی مزاحمت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہے اور اس جنگ کے اثرات کا تسلسل جاری رہے گا، یہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی نہیں رکے گی۔ 7 اکتوبر کو جو معجزہ اور عسکری و سکیورٹی کامیابی عمل میں آئی تھی، جو کہ حماس کی القسام بریگیڈ کے منتخب دستوں نے انجام دی، وہ ہمارے عوام اور ہماری مزاحمت کے لیے ہمیشہ فخر کا باعث رہے گی، جو نسل در نسل منتقل ہوگی۔ یہ حملہ دشمن کے لیے کاری ضرب ثابت ہوا اور یہ قابض دشمن عنقریب ہمارے وطن، قدس اور ہمارے مقدس مقامات سے رخصت ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔
ہمارے عوام کبھی نہیں بھولیں گے کہ کس نے اس نسل کشی میں حصہ لیا
انہوں نے کہا کہ قابض افواج اور ان کے حامیوں کی طرف سے کی گئی وحشیانہ نسل کشی، نازی جنگی جرائم اور انسانیت دشمن اقدامات، جو 467 دنوں تک جاری رہے، ہمیشہ ہمارے عوام اور دنیا کی یادوں میں محفوظ رہیں گے۔ یہ جدید دور کی سب سے بھیانک نسل کشی ہوگی، جس میں تکالیف، اذیتیں اور مصائب کے تمام رنگ شامل تھے۔ نسل کشی کی جنگ کے وہ فصول ہمیشہ انسانیت کے ماتھے پر ایک دھبہ بن کر رہیں گے اور دنیا کے خاموش اور کمزور کردار کی علامت ہوں گے۔ہمارے عوام کبھی نہیں بھولیں گے کہ کس نے اس نسل کشی میں حصہ لیا، چاہے وہ سیاسی اور میڈیا سطح پر اس کے لیے پردہ ڈالنے والے ہوں، یا وہ جنہوں نے ہزاروں ٹن بموں اور بارودی مواد کو غزہ کے معصوم عوام پر گرا دیا۔ ہم یہ بات یقین سے کہتے ہیں کہ یہ تمام مجرم اپنے کیے کی سزا پائیں گے، چاہے اس میں وقت لگے۔
جن کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ یتیموں، بچوں، بیواؤں، تباہ حال گھروں کے مالکان، شہداء، زخمیوں اور غمزدہ افراد کے نام پر اور ہر اس فرد کی طرف سے جس کا خون بہا، یا جس کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم ان کی طرف سے یہ کہتے ہیں کہ "ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے، ہاں، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے۔" ہمارے درمیان کوئی بھی شخص ان آلام اور قربانیوں کا حق کم کرنے والا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قابض افواج نے حملے کے آغاز سے ہی کئی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی، کچھ کو کھلے عام بیان کیا اور کچھ کو چھپایا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ان کا مقصد مزاحمت کا خاتمہ، حماس کا صفایا اور اسیران کو فوجی طاقت سے بازیاب کرنا تھا اور علاقے کی شکل بدلنا تھا۔ ان کا چھپا ہوا مقصد فلسطینی مسئلہ ختم کرنا، غزہ کو تباہ کرنا، غزہ کے عوام سے انتقام لینا اور ہمارے عوام کی آزادی کی خواہش کو مٹا دینا تھا، ساتھ ہی 7 اکتوبر کی جرات مندانہ کامیابی کے اثرات کو ختم کرنا تھا۔
تاہم، قابض افواج کو ہمارے عوام کے پختہ عزم اور اپنی سرزمین سے محبت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے کسی بھی اعلان شدہ یا پوشیدہ مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ہمارے عوام نے اپنی سرزمین پر ڈٹے رہ کر ثابت کر دیا کہ وہ نہ ہجرت کریں گے، نہ پیچھے ہٹیں گے اور انہوں نے مزاحمت کا مضبوط ترین حصار بن کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ غزہ میں حماس کے سربراہ و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا کہ ہمارے مجاہدین، خاص طور پر القسام بریگیڈ کے بہادر سپاہیوں نے، جنہوں نے اپنی جرات مندانہ کارروائیوں اور بے مثال بہادری سے دنیا کو حیران کن حد تک متاثر کیا، اس جنگ کے آخری لمحے تک محاذ پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے اپنے عزم و حوصلے سے دفاع و حملے کے دوران بے مثال کارنامے انجام دیئے، جیسے بارودی سرنگیں نصب کرنا، گولہ بارود فائر کرنا، گھات لگانا، صفر نقطے سے لڑنا اور دشمن پر اتنا اثر ڈالا کہ قابض افواج کے جنگی آلات جل کر تباہ ہوگئے۔
قابض افواج کبھی ہمارے عوام اور مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتی
انہوں نے کہا کہ ہم تمام مزاحمتی گروپس کے مجاہدین کو سلام پیش کرتے ہیں، خاص طور پر القدس بریگیڈ کے مجاہدین کو جو اسلامی جہاد کی صف اول کے ساتھی ہیں۔ انہوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں اور اپنے وطن و عوام کے دفاع میں عظیم مثال قائم کی۔ ہم آج یہ ثابت کرتے ہیں کہ قابض افواج کبھی بھی ہمارے عوام اور مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتی، اللہ کی مدد سے، جو اس نے ہمیں عطا کی ہے۔ قابض افواج نے ہمارے عوام کے خلاف جو تباہی، خونریزی اور قتل عام کیا، وہ صرف ایک بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انہوں نے ہمارے اسیران کو بھی مزاحمت کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ذریعے واپس لیا۔
غزہ میں حماس کے سربراہ و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ ہم خاص طور پر لبنان کے عزیز بھائیوں کا ذکر کرتے ہیں، خاص طور پر حزب اللہ کے مجاہدین، جنہوں نے القدس کی آزادی کے لیے سیکڑوں شہداء دیئے اور ان کی قیادت، جن کی سرپرستی میں یہ کارنامے انجام پائے، جن میں سید حسن نصراللہ اور ان کے ساتھی شامل ہیں۔ ہم اسلامی جماعتوں کے بھائیوں کی مدد کو بھی یاد کرتے ہیں اور لبنان کے عوام کی عظیم مزاحمت اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے فلسطینی عوام کے دفاع میں بڑی ثابت قدمی دکھائی اور انہیں بے شمار مشکلات میں معاونت فراہم کی۔ انہوں نے قابض افواج کی زندگی کو عذاب اور بربادی میں بدل دیا اور اس میں اسلامی اور عربی بھائی چارے کی حقیقی مثال پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم یمن کے بھائیوں، انصاراللہ، کو بھی یاد کرتے ہیں، جو جغرافیائی فاصلے کو عبور کرکے جنگ کے میدان میں نئی حقیقتیں لائے اور قابض دشمن کے قلب پر میزائل اور ڈرون حملے کرکے اسے بحیرہ احمر میں محصور کر دیا۔
ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے بھائیوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے ہماری مزاحمت اور عوام کی مدد کی، جنگ میں حصہ لیا اور "وعدہ صادق" (1) اور (2) آپریشنز میں دشمن کے قلب کو نشانہ بنایا، نیز عراقی مزاحمت نے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے فلسطین اور اس کی مزاحمت کی مدد کی اور ان کے میزائل اور ڈرونز ہمارے مقبوضہ علاقوں تک پہنچ گئے۔ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا کہ ہم ان تمام ممالک کے کرداروں کو بھی یاد کرتے ہیں، جو مختلف میدانوں میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے: جیسے ترکیہ، جنوبی افریقا، الجزائر، روس، چین، ملیشیا، انڈونیشیا، بیلجیئم، اسپین، آئرلینڈ اور دنیا کے تمام باضمیر انسان، ہم اُن تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے ہماری حمایت قلم، تصویر، مظاہروں، بائیکاٹ کے ہتھیار اور سیاسی، سفارتی اور قانونی جدوجہد کے ذریعے کی۔ ان تمام باضمیر انسانوں کا شکریہ، جو خاموشی کی سازش کو توڑتے ہوئے قابض دشمن کی انسانیت سوز جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔
ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں
انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، یہ تعمیر، دلجوئی اور غزہ کی تعمیر نو کا مرحلہ ہے۔ یہ یکجہتی اور ہمدردی کا مرحلہ ہے، جس کے ذریعے ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں، جو تعمیر کرتی ہے، تخریب نہیں۔ ہم وہ سب کچھ دوبارہ تعمیر کریں گے، جو قابض افواج نے برباد کیا ہے۔ ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ اے اہلِ غزہ، جس طرح آپ جنگ میں مردانگی اور جرات کا مظاہرہ کرچکے ہیں، اسی طرح جنگ کے بعد بھی اپنے عظیم کردار کو جاری رکھیں گے۔ ہم ایک دوسرے پر رحم کریں گے اور متحد رہیں گے۔ بے شک، جو دکھ اور تکلیف ہم نے جھیلی ہے، وہ بہت بڑی ہے، لیکن اس قوم کی عظمت اور اس کے اخلاق اس سے بھی زیادہ عظیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے فضل سے اور اپنے بھائیوں، دوستوں اور ہمدردوں کی مدد سے غزہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کے قابل ہیں۔ ہم اپنے زخموں پر مرہم رکھیں گے، یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھیں گے، غم زدہ دلوں کے آنسو پونچھیں گے اور ان لبوں پر مسکراہٹیں واپس لائیں گے، جنہیں جنگ نے چھین لیا تھا۔ ہمارے بہادر قیدی بھی آزادی کے ایک روشن صبح کے منتظر ہیں، ان شاء اللہ۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نہ معاف کریں گے انہوں نے کہا کہ کا ذکر کرتے ہیں ہمارے عوام اور کے مجاہدین کو نے کہا کہ ہم کے بھائیوں قابض افواج اور ہمارے کے ساتھی جنہوں نے لبنان کے اللہ کے کو سلام کے ساتھ عوام کے عوام کی کیا اور ہم ایک ہیں کہ گے اور کی مدد اور اس اور ان کے بعد جنگ کے کے لیے
پڑھیں:
جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
یاد داشت ایک عجیب چیز ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ماضی کی تصویریں ذہن میں صاف اور مکمل محفوظ ہیں، مگر پھرکوئی ایک لمحہ، ایک جملہ، ایک خوشبو سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔کبھی کچھ یاد آتا ہے، پھر شک ہوتا ہے کہ یہ واقعی ہوا تھا یا محض میرا گمان تھا؟
مجھے یہ بات اس وقت زیادہ شدت سے سمجھ آئی جب میں نے ایک مطالعے کے دوران پڑھا کہ بعض اوقات انسان کو وہ چیزیں بھی یاد رہتی ہیں جوکبھی وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ ابتدا میں مجھے یہ بات ناقابلِ یقین لگی۔کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ کیا دماغ اتنی بڑی غلطی کرسکتا ہے؟ لیکن جوں جوں میں نے اس موضوع پر پڑھا، تو میرے سامنے حیران کن حقیقتیں کھلتی چلی گئیں۔
انسانی یاد داشت پتھر پر لکیر نہیں ہوتی۔ یہ تو پانی پر بنتی لکیروں جیسی ہے، جوکبھی واضح ہوتی ہیں،کبھی دھندلی اورکبھی بالکل ہی غائب۔ بعض اوقات ہمیں ایسے واقعات یاد آتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیش ہی نہیں آئے ہوتے۔ ہم ان پر یقین بھی کرتے ہیں، ان کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔
حتیٰ کہ ان سے جذباتی وابستگی بھی محسوس کرتے ہیں۔ یاد داشت انسانی ذہن کا ایک بنیادی اور پیچیدہ عمل ہے۔ ہماری یادیں ماضی کے تجربات کو محفوظ کرنے اور مستقبل کے فیصلوں میں مدد دینے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ تاہم،کبھی کبھی انسان ایسی باتیں بھی یاد رکھتا ہے جو درحقیقت کبھی نہیں ہوتیں۔ ایسی یاد داشتوں کو نفسیات کی اصطلاح میں False Memories یا ’’ جھوٹی یادیں‘‘ کہا جاتا ہے۔
جھوٹی یاد داشت ایسی یاد ہوتی ہے جو انسان کو حقیقت لگتی ہے، لیکن وہ دراصل یا تو غلط ہوتی ہے یا مکمل طور پر خیالی۔ ان یادوں میں کبھی چھوٹے جزئیات بدلے ہوئے ہوتے ہیں اورکبھی پورا واقعہ ہی من گھڑت ہوتا ہے۔ انسان ان جھوٹی یادوں پر اس قدر یقین کر لیتا ہے کہ ان کا انکارکرنا ممکن نہیں رہتا۔
جھوٹی یاد داشتوں کے تصور پر سب سے زیادہ تحقیق ایلزبتھ لوفسٹس نے کی۔ وہ ایک امریکی ماہر نفسیات اور محققہ ہیں، جنھوں نے انسانی یاد داشت، بالخصوص گواہیوں اور جھوٹی یادوں کے حوالے سے انقلابی کام کیا۔ ''False Memory Theory'' دراصل یہ بتاتی ہے کہ انسانی یاد داشت پختہ اور ناقابلِ تغیر نہیں ہوتی بلکہ مختلف اثرات جیسے سوالات کا انداز، جذبات یا دوسروں کے بیانات، یادوں کو تبدیل یا حتیٰ کہ پیدا بھی کرسکتے ہیں۔
لوفسٹس نے 1970 اور 1980 کی دہائی میں ایسے تجربات کیے جن میں انھوں نے ثابت کیا کہ اگرکسی فرد کو بار بار ایک واقعے کا ذکرکیا جائے اگر وہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہ ہو تو وہ فرد کچھ عرصے بعد اس واقعے کو ’’ اپنی‘‘ یاد داشت کے طور پر قبول کرلیتا ہے، اگرکسی انسان کو بار بار بتایا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی مخصوص واقعہ پیش آیا تھا، تو وہ کچھ عرصے بعد اس جھوٹی بات کو اپنی یاد کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے کہ ایک بچہ مال میں گم ہوگیا تھا، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا۔
فالس میمریز مختلف طریقوں سے بنتی ہیں۔ سماجی دباؤ اور توقعات، بار بار دہرائی گئی باتیں اور بااثر شخصیات کی باتوں کا اثر، یہ سب ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ سوالات کا انداز،غلط معلومات کا دیا جانا، خوابوں کا اثر اور تصورکی طاقت بھی جھوٹی یاد داشتوں کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگرکسی کو بچپن میں کہا جائے کہ وہ بہت شرارتی تھا اور اس نے کوئی چیز توڑ دی تھی، تو وہ بچہ آخرکار اس بات کو سچ ماننے لگتا ہے، چاہے اسے اصل واقعہ یاد نہ ہو۔
ایسے جھوٹے تجربات خاندانی قصوں، اجتماعی یاد داشت، تعلیمی نصاب یا مذہبی واقعات کی شکل میں بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی، قانونی اور نفسیاتی سطح پر بھی گہرا ہوتا ہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں، رشتوں میں بے بنیاد الزامات اور فرد کی اپنی ذات کے بارے میں گمراہ کن یقین وغیرہ۔
یہ سب فالس میمریزکے اثرات میں شامل ہیں۔ سائنسدانوں نے ان یادوں کو روکنے یا پرکھنے کے لیے تحقیق کی ہے۔ ثبوتوں پر زور، تنقیدی سوچ کی تربیت اور ماہرینِ نفسیات سے مشورہ ان کے سدباب کے اہم طریقے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ہر یاد پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں، بلکہ اس پر سوال اٹھانا سیکھیں۔ کیا یہ واقعی ہوا تھا؟ یا یہ صرف ایک خیال تھا؟
میری زندگی میں بھی ایسے لمحے آئے جب کسی دوست نے ماضی کا واقعہ سنایا جو مجھے یاد ہی نہیں تھا۔ پھر میں سوچ میں پڑگئی،کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ یا یہ اس کی یاد داشت کا وہ حصہ ہے جس میں، میں کبھی شامل ہی نہیں تھی؟ زندگی میں کئی بار ہمیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کوئی واقعہ خواب تھا یا حقیقت اورکبھی خواب اتنے واضح ہوتے ہیں کہ ہم انھیں سچ مان لیتے ہیں۔
اس موضوع پر فلمیں ہیں جیسے میمینٹو فلم میں ایک شخص اپنی یاد داشت کھونے کے بعد ایک قتل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی یاد داشت کی الجھنیں ناظرین کو مسلسل چکر میں ڈالتی ہیں۔
اس موضوع پر فلمیں بنی ہیں جیسے انسپشن فلم جس کا کردار خوابوں میں داخل ہو کر خیالات چرانے اور یادوں کے ذریعے تصور قائم کرتا ہے جس سے جھوٹی حقیقتیں پیدا ہوتی ہیں۔
دی بٹر فلائی ایفیکٹ ایک نوجوان اپنی پرانی یادوں کو بدل کر حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ہر بارکچھ نیا اور الجھا ہوا سامنے آتا ہے۔
شٹر آئی لینڈ ایک امریکی مارشل جب ایک پاگل خانے کی تفتیش کے لیے جاتا ہے تو حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے اپنے ماضی کی یاد داشتوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ فلم ’’ ٹوٹل ریکال‘‘ میں ایک شخص ایک خفیہ مشن پر ہے لیکن وہ خود نہیں جانتا کہ اصل کیا ہے اور خیالی کیا۔
اب آتے ہیں حل کی طرف کہ کس طرح جھوٹی یاد داشت کے حصار سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ ثبوت پر انحصارکریں یاد داشت پر اندھا یقین کرنے کے بجائے، تحریری یا تصویری ثبوت پر توجہ دی جائے۔
ذہنی تربیت کی جائے خاص طور پر تنقیدی سوچ کو فروغ دینا اور خود کو بار بار سوال کرنا کہ ’’ کیا یہ واقعہ واقعی ہوا تھا؟‘‘ اس حوالے سے مددگار ہو سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، اگرکسی کو لگے کہ اس کی یاد داشتوں میں تضاد ہے، تو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بہتر ہے۔ یہ ایک نہایت دلچسپ اور پیچیدہ نفسیاتی مظہر ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کی یاد داشت ہرگزکامل نہیں۔ ایلزبتھ لوفسٹس نے یہ ثابت کر کے نفسیات کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا کہ ہماری یادیں حقیقت سے زیادہ ہمارے ذہنی عمل، تجربات اور بیرونی اثرات کی پیداوار ہوتی ہیں۔
اس نظریے نے نہ صرف نفسیات، بلکہ قانون، تعلیم، میڈیا اور روزمرہ زندگی میں انسانی رویے کو سمجھنے کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی یادوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے بھی دیکھیں،کیونکہ ضروری نہیں جو ہمیں یاد ہو وہ حقیقت بھی ہو۔