کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ سستی بجلی ریلیف پیکج کو نقصان پہنچارہی ہے، جاوید بلوانی
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
کراچی (کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد جاوید بلوانی نے کراچی کے مکینوں اور کاروباری اداروں کو لوڈ شیڈنگ میں مسلسل اضافے کا سامنا کرنے پر کے الیکٹرک کو شدید تنقید نشانہ بناتے ہوئے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس اہم معاملے میں مداخلت کرے کیونکہ حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں میں ریلیف فراہم کرنے کی تمام کوششیں صرف کے الیکٹرک کی بے لگام لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے داؤ پر لگ گئی ہیں۔ایک بیان میں صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ یہ کراچی کے شہریوں اور تاجر برادری کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے جو کے ای کی نااہلی کی وجہ سے حال ہی میں اعلان کردہ سستی بجلی سہولت پیکج سے مستفید ہونے سے قاصر ہیں۔سستی بجلی سہولت پیکیج ملک کے باقی حصوں کے لیے ایک قابل ستائش قدم ہے جو کہ رہائشی اخراجات اور بڑھتی کاروباری لاگت کے پیش نظر ریلیف فراہم کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے تاہم کے ای کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کراچی کے رہائشی اور صنعتیں اس انتہائی ضروری فائدے سے محروم ہیں۔یہ پیکیج جو اضافی کھپت پر رعایتی بجلی کے نرخوںکی پیشکش کرتا ہے مگر کراچی میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے غیر مؤثر ہوگیا ہے کیونکہ پیک اوقات میں بھی بجلی کی فراہمی متاثر رہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی چیمبر کو حالیہ مہم کے دوران شہریوں کی جانب سے فون کالز اور ای میلز کے ذریعے سینکڑوں شکایات موصول ہوئی ہیں جو چیمبر کی طرف سے اپنے متعلقہ علاقوں میں لوڈ شیڈنگ پر عوامی رائے لینے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ہماری اس مہم کو لوڈ شیڈنگ پر عوامی رائے اکٹھا کرنے کے حوالے سے زبردست ردعمل ملا ہے اور شہر کے ہر کونے سے شکایات موصول ہو رہی ہیں۔یہ شکایات کے ای کی بدانتظامی کی وجہ سے ہونے والی شدید تکالیف کو اجاگر کرتی ہیں جس میں کئی علاقوں میں 12 گھنٹے تک بجلی کی بندش کی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر گڈاپ کے ایگرو پروسیسنگ زون سے موصول ہونے والی شکایت کا ذکر کیا جہاں ایگرو ایکسپورٹ زون کا لیبل لگا ہوا سیلف فنانس فیڈر ہونے کے باوجود روزانہ12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے جبکہ اس مخصوص علاقے کے تمام یونٹس اپنے بلوں کی مسلسل ادائیگی کر رہے ہیں اور بجلی چوری میں ملوث نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے یونٹس برآمدی کاروبار سے وابستہ ہیں لیکن طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے انہیں اکثر بھاری نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں جس سے برآمدی سامان خاص طور پر جلد خراب ہونے والی اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے۔جاوید بلوانی نے اس بات پر زور دیا کہ تاجر برادری اور عوامی رائے میں جو تاثرات سامنے آئے ہیں وہ کراچی کے شہریوں میں پھیلی ہوئی عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں۔بہت سے افراد نے کے ای کی غیر ذمے داری پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور یہاں تک کہ ریگولیٹر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یوٹیلیٹی سروس فراہم کرنے والی کمپنی کو مسلسل لوڈ شیڈنگ کے ذریعے مشکلات بڑھانے کی اجازت دے رہا ہے تاکہ منافع کو عوامی مفاد کے مقابلے میں ترجیح دی جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کراچی کے کے ای کی
پڑھیں:
یورپی یونین میں مضر صحت کیمیکلز سے بنے کھلونوں پر پابندی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) یورپی یونین نے کھلونوں کے لیے حفاظتی اصولوں کو سخت کرنے کے لیے نئے قوانین پر اتفاق کیا ہے، جن میں ایسے نقصان دہ کیمیکلز پر پابندی بھی شامل ہے، جو انسانی جسم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کیمیکلز میں ایسے مادے شامل ہوتے ہیں، جو انسانی نمو کے ہارمونز میں خلل ڈال سکتے ہیں اور جو تولیدی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
برسلز کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا مقصد بچوں کو کیمیکلز اور آن لائن مارکیٹ پلیس کے خطرات سے بہتر طور پر تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ یورپی یونین کے مذاکرات کاروں اور رکن ممالک نے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کا مقصد بچوں کو آن لائن فروخت کیے جانے والے خطرناک کیمیکلز اور خطرناک کھلونوں سے بچانا ہے۔
(جاری ہے)
اگرچہ زیادہ تر خطرناک مادوں پر پہلے ہی پابندی عائد ہے، تاہم بلاک کا کہنا ہے کہ ابھی بھی کچھ ایسے کیمیکلز پر کارروائی کی ضرورت ہے، جو ہارمونز میں خلل ڈالتے ہیں اور اعصابی، سانس یا مدافعتی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
کیمیکل پر نئے قوانین کیا ہیں؟نئے قوانین PFAS پر پابندی متعارف کراتے ہیں۔ یہ مصنوعی کیمیکلز کا ایک ایسا گروپ ہے، جو ان کی پائیداری اور انسانی صحت کے خطرات کے لیے جانا جاتا ہے۔
PFAS کو بار بار چھونے کا تعلق جگر کے نقصان، ہائی کولیسٹرول کی سطح، مدافعتی ردعمل میں کمی، پیدائشی کم وزن اور کینسر کی مختلف اقسام سے ہے۔ نئے یورپی ضوابط کارسنجینک، میوٹیجینک اور زہریلے تولیدی کیمیکلز (سی ایم آر) پر موجودہ پابندیوں کو بھی بڑھاتے ہیں تاکہ ہارمون ڈسٹرپٹرس جیسے دیگر خطرناک مادوں پر بھی پابندیاں عائد کی جا سکیں۔
اس طرح کے کیمیکل تیزی سے عام ہارمونز سے متعلق عوارض سے منسلک ہوتے ہیں اور اکثر بعد میں سپرم کے معیار کی خرابی کا سبب بنتے ہیں۔ یورپی کمیشن نے کہا، ''یہ کیمیکل خاص طور پر بچوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ وہ ان کے ہارمونز اور ان کی ذہنی نشوونما میں مداخلت کر سکتے ہیں یا عام طور پر ان کی عمومی صحت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘‘
یورپی پارلیمنٹ میں اس قانون سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی جرمن رکن ماریون والزمان نے کہا کہ حفاظتی خدشات کے پیش نظر یورپی یونین کی مارکیٹ سے نکالی جانے والی پانچ مصنوعات میں سے ایک کھلونے ہیں۔
انہوں نے کہا، '' نئے کھلونے سیفٹی ریگولیشن کے لیے ایک واضح پیغام ہے: ہم بچوں کی حفاظت کر رہے ہیں، منصفانہ مسابقت کو یقینی بنا رہے ہیں اور ایک کاروباری مرکز کے طور پر یورپ کی حمایت کر رہے ہیں۔‘‘یورپی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کی حکومتوں کی طرف سے باضابطہ طور پر منظور ہونے کے بعد ان ضوابط کا نفاذ کر دیا جائے گا۔ پولینڈ کے وزیر ٹیکنالوجی کرزیزٹوف پاسزیک نے کہا، ''یورپی یونین کے کھلونوں کے حفاظتی قوانین دنیا کے سخت ترین قوانین میں سے ہیں، لیکن ہمیں ابھرتے ہوئے خطرات سے ہم آہنگ رہنا چاہیے۔
‘‘ آن لائن فروخت ہونے والے کھلونوں کا کیا ہوگا؟نئے قوانین کے تحت کھلونوں کے درآمد کنندگان کو ڈیجیٹل پراڈکٹ پاسپورٹ کہلانے والی حقائق پر مبنی فہرست کو یورپی یونین کی سرحدوں پر قائم کسٹمز کے حکام کو جمع کرانا ہوگا۔ یہ فہرست ایک قسم کی سیفٹی فیکٹ شیٹ ہوتی ہے، جس میں حفاظتی معیارات کی تعمیل سے متعلق معلومات اور انتباہات شامل ہوتے ہیں۔
یورپی کمیشن کا کہنا ہے، ''اس سے قومی انسپکٹرز اور کسٹم افسران کے لیے ان پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔ نئے قوانین کے تحت، درآمد کنندگان کو ڈیجیٹل پراڈکٹ پاسپورٹ یورپی یونین کی سرحدوں پر کسٹمز میں جمع کرانا ہو گا جس کی جانچ پڑتال کی جائے گی تاکہ آن لائن فروخت کیے جانے والے کھلونوں سمیت غیر محفوظ کھلونے یونین کی مارکیٹ میں داخل نہ ہو سکیں۔‘‘
شکور رحیم ، اے ایف پی، ڈی پی اے کے ساتھ
ادارت عاطف بلوچ