Express News:
2025-04-16@22:30:21 GMT

ایک چہرے پر…

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

’’شکل سے تو وہ بالکل بھی ایسا نہیں لگتا کہ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہو گا!!‘‘’’ بڑی بد زبان اور بد لحاظ بہو ہے ان کی۔‘‘ ’’ ان کی بیٹی جابر حکمران کے نام سے مشہور ہے، کام پرلوگ اسے ہٹلر کہتے ہیں۔‘‘’’ ہماری اماں دنیا کی سخت ترین عورت ہیں۔‘‘ ’’ ہمارے ابا جیسا ظالم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘

’’ ہماری ٹیچر اتنی بد مزاج ہیں کہ اس سے زیادہ بد مزاج عورت میں نے آج تک نہیں دیکھی۔‘‘ ’’ میری بہن کو میرے ساتھ لڑنے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے۔‘‘’’ ہمارا بھائی تو ہر وقت والدین سے ہماری شکایتیں لگاتا رہتا ہے ۔‘‘’’ میرا ماتحت تو بالکل نکما، نالائق اور کام چور ہے۔‘‘ ’’ ہمارا بیٹا تو بالکل جورو کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔‘‘

اس طرح کے فقرے ہم اپنے ارد گرد ہر روز اور ہر جگہ سنتے رہتے ہیں، یہ کئی لوگوں کے بارے میں بھی ہو سکتے ہیں ، ایک ہی شخص کے بارے میں اس میں سے ایک، دو یا اس سے زائد بیانات بھی ہو سکتے ہیں ۔ ان میں کسی حد تک حقیقت بھی ہو سکتی ہے اور زور بیان ہونا بھی ممکن ہے ۔ ایک ہی عورت بد زبان بہو، کام پر ہٹلر، سخت ترین ماں، بد مزاج ٹیچر اور لڑنے والی بہن بھی ہو سکتی ہے مگر اس میں کوئی نہ کوئی خوبی تو ہو گی۔

ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بہت فرمانبردار بیٹی، وفادار بیوی اور دوست ہو۔ اسی طرح بیوی پر ہاتھ اٹھانیوالا شوہر، باپ کے روپ میں ظالم کہلانیوالا، بہنوں کی شکایتیں لگانے والا اور ایک نکما اور نالائق ماتحت بھی کسی نہ کسی رشتے یا حیثیت میں اچھا تو ہو گا، اچھا بیٹا ہو گا، دوست ہو گا… انسان کی نفسیات بھی بہت عجیب ہے اس میں کئی طرح کے تضادات ہیں، ہر لحاظ سے مکمل ذات تو صرف اللہ تعالی ہی کی ہو سکتی ہے۔

انسان دن رات میں کئی چولے بدلتا ہے، رشتوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان کبھی بھی ہر رشتے سے ایک جیسا انصاف نہیں کر سکتا۔ جتنی بھی کوشش کرے، ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتا۔ ماں کو خوش کرو تو بیوی ناراض، بہن کو خوش کرو تو بھائی پریشان، بیٹی کا خیال کرو تو بیٹے کی نظروں میں ظالم اور اچھے دوست بنو تو گھر والے ناراض، مر بھی جاؤ تو ہر کسی کو خوش کرنا ممکن نہیںہوتا۔ کوئی بھی ہم میںسے کامل شخصیت کا حامل نہیں ہو سکتا مگر ہر رول میں ایک جیسا اچھا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

انسان جب بچہ ہوتا ہے تو اس کی شخصیت ایک صاف سلیٹ کی طرح ہوتی ہے، اس کا سب سے پہلے ماں باپ کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور گھر میں رہنے والے باقی افراد سے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں نئے رشتوں کا اضافہ ہوتا ہے، اس کے بہن بھائی، پھر اسکول اور باہر کے دوست، کالج کے دوست، خاندان کے دیگر بچے۔ جوں جوں اس کی عمر بڑھتی ہے اور وہ نئے بندھنوں میں بندھتا ہے تو اس کا رشتہ شوہر، داماد اور پھرباپ کا بن جاتا ہے۔

اسی طرح کے رشتوں کا سلسلہ عورتوں کی زندگیوں میں بھی ہوتا ہے۔ جب انسان ایک اچھا بچہ ہوتا ہے تو وہ واقعی بچہ ہوتا ہے، ذرا بڑا ہوتا ہے تو ارد گرد کا ماحول اس کی شخصیت کو تبدیل کرتا ہے اور بسا اوقات گستاخ، شرارتی یا بد تمیز بچہ بھی بن جاتا ہے۔ بہن بھائی آتے ہیں تو یا وہ ان سے محبت کرتا ہے یا حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے، حسد میں مبتلا ہونے کا اہم سبب اس سے پیار کرنے والوں کی توجہ بٹ جانا ہوتا ہے ۔ جو چیزیں پہلے پہل صرف اس کی ملکیت ہوتی ہیں، انھیں بانٹنے والے آجاتے ہیں تو اس میں اور ان نئے آنیوالوں میں ان دیکھی فصیل کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس کی ملکیت اس کے والدین، اس کے کھلونے ، اس کا کمرہ اور اس کے دیگر رشتے ہوتے ہیں۔

ایک ہی ماں باپ کے بطن سے جنم لینے والے دو ، چار ، چھ یا دس بچے بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ایک انسان اچھا ہے تو وہ ہر روپ میں اچھا نہیں ہو سکتا، اگر وہ اچھا بھائی، بیٹا، باپ، شوہر اور دوست ہے مگر اچھا داماد نہیں ہے تو یہ جاننا اہم ہے کہ وہ اچھا داماد کیوں نہیں ہے۔

اگر وہی شخص اچھا داماد بھی ہے مگر اس کی بیوی کی نظر میں وہ اچھا شوہر بھی نہیں ہے تو بھی سوال اٹھتا ہے کیا اس کی بیوی اچھی ہے یا اس کے ساتھ اچھی ہے؟ شوہروں کے بارے میں کہاوتیں مشہور ہوتی ہیں مثلا مرد کو دوسرے کی بیوی اور اپنا بچہ ہمیشہ اچھا لگتا ہے؟ یہ زیادہ تر لطیفے بیویوں پر ہی کیوں بنتے ہیں؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوتا ہے نہیں ہے بھی ہو ہے اور کو خوش

پڑھیں:

آٹزم پیدا ہونے کی وجہ اور اس کا جینیاتی راز کیا ہے؟

خیال کیا جاتا ہے کہ جینیاتی عوامل آٹزم کی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن کئی دہائیوں سے وہ سب مضحکہ خیز ثابت ہوئے ہیں اور اب سائنس دان ان رازوں سے پردہ اٹھانے لگے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’خصوصی افراد کو معاشرے کا کامیاب شہری بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1970 کی دہائی تک نفسیات میں مروجہ عقیدہ یہ تھا کہ آٹزم غیر مناسب جوڑوں یعنی والدین کا نتیجہ ہے۔ سنہ 1940 کی دہائی میں آسٹریا کے ماہر نفسیات لیو کینر نے متنازع ’ریفریجریٹر مدر‘ تھیوری وضع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ آٹزم ابتدائی بچپن کے کسی ٹراما سے پیدا ہوتا ہے جو ان ماؤں کی طرف سے پیدا ہوتا ہے جو سرد مہری و بے پرواہی سے اپنے بچوں کو مسترد کرتی تھیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں نیورو سائنس اور جینیٹکس کے پروفیسر ڈینیل گیسچ وِنڈ کہتے ہیں کہ اب اسے بجا طور غلط تسلیم کیا گیا ہے لیکن کینر کی تھیوری کو ختم کرنے میں 3 دہائیاں لگ گئیں۔

سنہ 1977 میں نفسیاتی ماہرین کے ایک جوڑے نے ایک تاریخی مطالعہ کیا جس میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ آٹزم اکثر ایک جیسے جڑواں بچوں میں چلتا ہے۔

یہ سنہ 1977 کا مطالعہ پہلی بار تھا جب آٹزم کے جینیاتی جزو کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جب ایک جیسے جڑواں بچے آٹسٹک ہوتے ہیں تو دوسرے جڑواں کے بھی ہونے کا امکان 90 فیصد سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ دریں اثنا ایک ہی جنس کے برادرانہ جڑواں بچوں کے ہر ایک کے آٹزم کی تشخیص کے امکانات تقریباً 34 فیصد ہیں۔ یہ سطحیں 2.8 فیصد کے قریب وسیع آبادی کے درمیان ہونے کی عام شرح سے کافی زیادہ ہیں۔

اب یہ بڑے پیمانے پر قبول کیا جاتا ہے کہ آٹزم کا ایک مضبوط جینیاتی جزو ہے۔ لیکن کون سے جین اس میں شامل ہیں اور ان کا اظہار دوسرے عوامل سے کیسے متاثر ہوتا ہے اس کا ابھی ابھی انکشاف ہونا شروع ہو گیا ہے۔

ابتدائی ترقی

آج جینیاتی تحقیق اس بات میں پیشرفت کر رہی ہے کہ کس طرح نیورو ڈیولپمنٹ آٹزم کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سے جین کارٹیکس کی تشکیل کے دوران فعال ہو جاتے ہیں۔ دماغ کی جھریوں والی بیرونی تہہ جو میموری، مسئلہ حل کرنے اور سوچنے سمیت بہت سے اعلیٰ درجے کے افعال کے لیے ذمہ دار ہے۔

دماغ کی نشوونما کا یہ اہم حصہ جنین میں اس وقت ہوتا ہے جب یہ رحم میں نشوونما پا رہا ہوتا ہے اور گیسچ وِنڈ کے مطابق، 12 سے 24 ہفتوں کے درمیان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ گیسچ وِنڈ کہتے ہیں کہ آپ ان تغیرات کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ وہ ترقی کے معمول کے نمونوں میں خلل ڈالتے ہیں اور ترقی کو اس کے عام راستے سے ہٹاتے ہیں تاکہ بات کرنے کے لیے اور ہو سکتا ہے کہ ترقی کے عام، نیورو ٹائپیکل پیٹرن کی بجائے، کسی اور معاون دریا پر چلے جائیں۔

چونکہ وہ اس طرح کی شدید معذوری کا سبب بنتے ہیں، ان جین تغیرات کے بارے میں معلومات نے والدین کو سپورٹ گروپس بنانے کے قابل بنایا ہے، مثال کے طور پر FamilieSCN2A فاؤنڈیشن جو آٹسٹک بچوں کے خاندانوں کے لیے ایک کمیونٹی کے طور پر کام کرتی ہے جہاں آٹزم کی تشخیص کو SCN2A جین میں جینیاتی تبدیلی سے جوڑا گیا ہے۔ مستقبل کے تولیدی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیے ایسی جینیاتی معلومات کو استعمال کرنے کے خیال کے بارے میں بھی بات چیت کی گئی ہے۔

گیسچ وِنڈ کہتے ہیں کہ اگر یہ ڈی نوو ویریئنٹ ہے تو آپ والدین کو بتا سکتے ہیں کہ خطرہ کم ہوگا کیونکہ وراثت میں ملنے والے عوامل کی طرف سے محدود شراکت ہے، اگر انہوں نے بعد میں بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم خاندان کو اس بات کا احساس بھی دے سکتے ہیں کہ ان کا بچہ وقت کے ساتھ کس طرح ترقی کر سکتا ہے اور ایک 2 سالہ بچے کے والدین کے لیے جو کہ غیر زبانی ہے اور چلنے میں کچھ تاخیر ہوتی ہے، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا توقع کی جائے۔

مزید پڑھیے: ایبٹ آباد: بچوں کو اسکول سے نکالا گیا تو ماں نے اپنا اسکول کھول لیا

لیکن اگرچہ یہ ان خاندانوں کے لیے بہت زیادہ فوائد پیش کر سکتا ہے، جینیاتی تحقیق کے تصور کو آٹسٹک کمیونٹی میں عالمی مثبتیت کے ساتھ نہیں دیکھا جاتا۔ آٹزم ایک وسیع اسپیکٹرم ہے جس میں جسمانی اور ذہنی نشوونما میں شدید خرابی والے افراد سے لے کر انہیں کبھی بھی آزادانہ طور پر زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، بہت کم مدد کی ضرورت والے دوسروں تک جو اپنے آٹزم کو ایک شناخت اور ایڈوانٹج کے طور پر دیکھتے ہیں اور آٹزم کو ایک عارضے کے طور پر بیان کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔

دیگر تحقیقی مطالعات سے پتا چلا ہے کہ آٹزم سے وابستہ جین کی عام قسمیں ہمدردی یا سماجی رابطے کے ساتھ منفی طور پر منسلک ہوتی ہیں۔ لیکن وہ نظاموں کے تجزیہ اور تعمیر کے ساتھ ساتھ اصولوں اور معمولات کے ساتھ مثبت طور پر منسلک ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اکثر اعلیٰ تعلیمی حصول سے بھی منسلک ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ زیادہ مقامی یا ریاضیاتی یا فنکارانہ صلاحیتوں سے بھی۔

گیسچ وِنڈ کا کہنا ہے کہ یہ شاید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ جینیاتی متغیرات، جو بہت دور دراز کے اجداد سے آتے ہیں، پوری انسانی تاریخ میں آبادی میں کیوں رہے ہیں۔

آٹزم کیا ہے؟

بی بی سی میں ہی کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی ایک اور رپورٹ کے مطابق آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے ایس ڈی ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کا لوگوں سے بات کرنا متاثر ہوتا ہے۔ انسان کی ذہنی استعداد کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے تاہم یہ مختلف افراد میں مختلف سطح پر ہوتا ہے کبھی یہ کم اور کبھی بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر 160 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے لیکن اگر ہم اس مرض کی تشخیص کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں مرد و خواتین میں تعداد کے اعتبار سے بہت فرق نظر آتا ہے۔

برطانیہ میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 7 لاکھ افراد آٹزم کا شکار ہیں، صنفی تناسب سے تقریباً ہر 10 مردوں کے مقابلے ایک خاتون اس کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں کی جانے والی دیگر تحقیقات کے مطابق یہ تناسب 1:16 ہے۔

آٹزم کی تشخیص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں مبتلا اکثر لوگ بے چینی، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔

برطانیہ میں کی جانے والی ایک چھوٹی تحقیق کے مطابق بھوک کی کمی کی بیماری کا شکار ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والی 23 فیصد خواتین آٹزم کے تشخیصی معیار پر پورا اترتی ہیں۔

لڑکیوں اور خواتین میں آٹزم کی علامات لڑکوں اور مردوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ شاید سب سے اہم بات یہ کہ وہ علامات بآسانی نظر انداز ہو سکتی ہیں، ایسا خاص طور پر تیزی سے کام کرتے ہوئے آٹزم کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: خصوصی افراد کے لیے نادرا شناختی کارڈ میں اہم ترامیم کا فیصلہ

ایک اور مشکل جو محققین کو درپیش ہے وہ یہ کہ آٹزم کا شکار لڑکیوں کا رویہ اگر بہترین نہیں تو کم از کم قابل قبول ضرور ہوتا ہے کیونکہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں کم گو، تنہائی کا شکار، دوسروں پر انحصار کرنے والی حتی کہ اداس رہتی ہیں۔

وہ آٹزم کا شکار لڑکوں کی طرح کئی شعبوں میں جذباتی اور غیر معمولی حد تک دلچسپی رکھ سکتی ہیں- لیکن وہ ٹیکنالوجی اور ریاضی کے شعبوں کی جانب جھکاؤ نہیں رکھتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آٹزم آٹزم اور جینیات آٹزم کی وجوہات آٹزم کیا ہے

متعلقہ مضامین

  • حکومت عوام کے ووٹ سے آئی ہو تو بجٹ عوام دوست ہو گا، مفتاح
  • آٹزم پیدا ہونے کی وجہ اور اس کا جینیاتی راز کیا ہے؟
  • شوبز میں کوئی سچا دوست نہیں ہوتا، سب سوشل میڈیا کی حد تک ہے، نعیمہ بٹ
  • سیاسی روزہ رکھا ہوا ہے، روزہ طویل نہیں ہو سکتا، وقت آنے پر کھولوں گا.شیخ رشید
  • متحدہ عرب امارات میں شادی، طلاق اور بچوں کی تحویل سے متعلق قوانین میں بڑی تبدیلی
  • محمد عامر سے ہمیشہ اچھا مقابلہ رہتا ہے: سیم بلنگز
  • ’شوبز میں دکھاوے کے دوست بنتے ہیں‘، نعیمہ بٹ ساتھی اداکاروں پر برس پڑیں
  • جنگ  میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!
  • وزیر اعظم کا اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان
  • کراچی: شوہر کے چھری کے وار سے بیوی قتل