’’شکل سے تو وہ بالکل بھی ایسا نہیں لگتا کہ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہو گا!!‘‘’’ بڑی بد زبان اور بد لحاظ بہو ہے ان کی۔‘‘ ’’ ان کی بیٹی جابر حکمران کے نام سے مشہور ہے، کام پرلوگ اسے ہٹلر کہتے ہیں۔‘‘’’ ہماری اماں دنیا کی سخت ترین عورت ہیں۔‘‘ ’’ ہمارے ابا جیسا ظالم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’ ہماری ٹیچر اتنی بد مزاج ہیں کہ اس سے زیادہ بد مزاج عورت میں نے آج تک نہیں دیکھی۔‘‘ ’’ میری بہن کو میرے ساتھ لڑنے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے۔‘‘’’ ہمارا بھائی تو ہر وقت والدین سے ہماری شکایتیں لگاتا رہتا ہے ۔‘‘’’ میرا ماتحت تو بالکل نکما، نالائق اور کام چور ہے۔‘‘ ’’ ہمارا بیٹا تو بالکل جورو کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔‘‘
اس طرح کے فقرے ہم اپنے ارد گرد ہر روز اور ہر جگہ سنتے رہتے ہیں، یہ کئی لوگوں کے بارے میں بھی ہو سکتے ہیں ، ایک ہی شخص کے بارے میں اس میں سے ایک، دو یا اس سے زائد بیانات بھی ہو سکتے ہیں ۔ ان میں کسی حد تک حقیقت بھی ہو سکتی ہے اور زور بیان ہونا بھی ممکن ہے ۔ ایک ہی عورت بد زبان بہو، کام پر ہٹلر، سخت ترین ماں، بد مزاج ٹیچر اور لڑنے والی بہن بھی ہو سکتی ہے مگر اس میں کوئی نہ کوئی خوبی تو ہو گی۔
ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بہت فرمانبردار بیٹی، وفادار بیوی اور دوست ہو۔ اسی طرح بیوی پر ہاتھ اٹھانیوالا شوہر، باپ کے روپ میں ظالم کہلانیوالا، بہنوں کی شکایتیں لگانے والا اور ایک نکما اور نالائق ماتحت بھی کسی نہ کسی رشتے یا حیثیت میں اچھا تو ہو گا، اچھا بیٹا ہو گا، دوست ہو گا… انسان کی نفسیات بھی بہت عجیب ہے اس میں کئی طرح کے تضادات ہیں، ہر لحاظ سے مکمل ذات تو صرف اللہ تعالی ہی کی ہو سکتی ہے۔
انسان دن رات میں کئی چولے بدلتا ہے، رشتوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان کبھی بھی ہر رشتے سے ایک جیسا انصاف نہیں کر سکتا۔ جتنی بھی کوشش کرے، ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتا۔ ماں کو خوش کرو تو بیوی ناراض، بہن کو خوش کرو تو بھائی پریشان، بیٹی کا خیال کرو تو بیٹے کی نظروں میں ظالم اور اچھے دوست بنو تو گھر والے ناراض، مر بھی جاؤ تو ہر کسی کو خوش کرنا ممکن نہیںہوتا۔ کوئی بھی ہم میںسے کامل شخصیت کا حامل نہیں ہو سکتا مگر ہر رول میں ایک جیسا اچھا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
انسان جب بچہ ہوتا ہے تو اس کی شخصیت ایک صاف سلیٹ کی طرح ہوتی ہے، اس کا سب سے پہلے ماں باپ کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور گھر میں رہنے والے باقی افراد سے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں نئے رشتوں کا اضافہ ہوتا ہے، اس کے بہن بھائی، پھر اسکول اور باہر کے دوست، کالج کے دوست، خاندان کے دیگر بچے۔ جوں جوں اس کی عمر بڑھتی ہے اور وہ نئے بندھنوں میں بندھتا ہے تو اس کا رشتہ شوہر، داماد اور پھرباپ کا بن جاتا ہے۔
اسی طرح کے رشتوں کا سلسلہ عورتوں کی زندگیوں میں بھی ہوتا ہے۔ جب انسان ایک اچھا بچہ ہوتا ہے تو وہ واقعی بچہ ہوتا ہے، ذرا بڑا ہوتا ہے تو ارد گرد کا ماحول اس کی شخصیت کو تبدیل کرتا ہے اور بسا اوقات گستاخ، شرارتی یا بد تمیز بچہ بھی بن جاتا ہے۔ بہن بھائی آتے ہیں تو یا وہ ان سے محبت کرتا ہے یا حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے، حسد میں مبتلا ہونے کا اہم سبب اس سے پیار کرنے والوں کی توجہ بٹ جانا ہوتا ہے ۔ جو چیزیں پہلے پہل صرف اس کی ملکیت ہوتی ہیں، انھیں بانٹنے والے آجاتے ہیں تو اس میں اور ان نئے آنیوالوں میں ان دیکھی فصیل کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس کی ملکیت اس کے والدین، اس کے کھلونے ، اس کا کمرہ اور اس کے دیگر رشتے ہوتے ہیں۔
ایک ہی ماں باپ کے بطن سے جنم لینے والے دو ، چار ، چھ یا دس بچے بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ایک انسان اچھا ہے تو وہ ہر روپ میں اچھا نہیں ہو سکتا، اگر وہ اچھا بھائی، بیٹا، باپ، شوہر اور دوست ہے مگر اچھا داماد نہیں ہے تو یہ جاننا اہم ہے کہ وہ اچھا داماد کیوں نہیں ہے۔
اگر وہی شخص اچھا داماد بھی ہے مگر اس کی بیوی کی نظر میں وہ اچھا شوہر بھی نہیں ہے تو بھی سوال اٹھتا ہے کیا اس کی بیوی اچھی ہے یا اس کے ساتھ اچھی ہے؟ شوہروں کے بارے میں کہاوتیں مشہور ہوتی ہیں مثلا مرد کو دوسرے کی بیوی اور اپنا بچہ ہمیشہ اچھا لگتا ہے؟ یہ زیادہ تر لطیفے بیویوں پر ہی کیوں بنتے ہیں؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتا ہے نہیں ہے بھی ہو ہے اور کو خوش
پڑھیں:
خلع کاطریقہ
نکاح ایک سماجی معاہدہ (contract social) ہے، جس میں عبادت کا پہلو بھی شامل ہے۔ نکاح کے ذریعے اجنبی مرد اور عورت باہم عہد کرتے ہیں کہ وہ آئندہ ساتھ رہ کر زندگی گزاریں گے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں گے۔ اسلام میں نکاح کو بہت آسان رکھا گیا ہے اور زوجین کے حقوق اور فرائض صراحت سے بیان کردیے گئے ہیں اور ان پر عمل کی تاکید کی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم سماج میں نکاح کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے، مْسرفانہ رسوم پر بہت سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور حقوق و فرائض پر عمل کے معاملے میں بہت کوتاہی پائی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاندان کے تانے بانے بکھر رہے ہیں، افرادِ خاندان کے درمیان بے اعتمادی فروغ پا رہی ہے اور طلاق اور خلع کے واقعات بہ کثرت پیش آنے لگے ہیں۔
جس طرح ایک معاہدہ دو فریقوں کی رضا مندی سے انجام پاتا ہے اسی طرح رضا مندی باقی نہ رہنے کی صورت میں وہ ختم بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بیوی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، لیکن شوہر کسی وجہ سے اس سے علیٰحدگی حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اسے اختیار ہے کہ وہ طلاق دے دے۔ اور اگر شوہر بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے، لیکن بیوی کسی وجہ سے اس سے قطعِ تعلق پر مصر ہے تو اسے خلع لینے کا حق حاصل ہے۔ خلع کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی شوہر سے کہے کہ میں تمہارے ساتھ اب نہیں رہ سکتی۔ اس کے مطالبے پر شوہر اسے طلاق دے دے، البتہ خلع کی صورت میں شوہر کے مطالبے پر بیوی کو مہر واپس کرنا ہوگا۔
عہدِ نبوی میں خلع کا ایک مشہور واقعہ پیش آیا تھا، جو حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ سیدنا ثابت بن قیسؓ کی بیوی اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ’’میں اپنے شوہر کے دین و اخلاق پر کوئی الزام نہیں لگاتی، البتہ میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی‘‘۔ آپؐ نے دریافت کیا: ’’تمھیں مہر کے طور پر جو باغ ملا ہے، کیا تم اسے واپس کردو گی؟‘‘ انھوں نے رضا مندی ظاہر کی۔ آپؐ نے ثابتؓ کو بلا فرمایا: ’’اپنا باغ واپس لے لو اور اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دو‘‘۔ (بخاری)
اگر بیوی کے مطالبے اور اصرار کے باوجود شوہر طلاق نہ دے تو عورت کو اپنا معاملہ دار القضا میں لے جانا چاہیے۔ عورت کی شکایت پر قاضی شوہر کو نوٹس بھیجے گا، اسے بلاکر شکایات کی تحقیق کرے گا اور تنازع کو حل کرنے اور اختلافات کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن اگر وہ محسوس کرے گا کہ عورت کی شکایات بجا ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اب شوہر کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں ہے تو وہ نکاح کو فسخ کردے گا۔ واضح رہے کہ بیوی کو تعذیب سے دوچار کرنا ایسا سبب ہے جس کی بنا پر قاضی نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔
یہ صورت کہ لڑکی کا ولی اپنے علاقے کے چند سر برآوردہ افراد کو جمع کرکے ان کی موجودگی میں ان کی تائید حاصل کرکے نکاح کے فسخ کر دیے جانے کا اعلان کردے، درست نہیں ہے۔ البتہ سماج کے سربرآوردہ افراد اس معاہدۂ نکاح کو ختم کروانے میں اپنا تعاون پیش کرسکتے ہیں کہ وہ دونوں فریقوں کو ایک جگہ جمع کریں اور شوہر کی طرف سے ظلم و زیادتی ثابت ہونے اور بیوی کی جانب سے آئندہ شوہر کے ساتھ رہنے سے قطعی انکار کی صورت میں شوہر پر دباؤ ڈال کر اس سے طلاق دلوا دیں۔