ریاست اور عوام کے جاننے کا حق
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
ریاست عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بیشتر ریاستی ادارے عوام کو معلومات فراہم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ عوام کے جاننے کا حق جس کی آئین کے آرٹیکل 19-A میں ضمانت دی گئی ہے، وفاقی وزارتوں کے افسروں کی فائلوں میں گم ہوجاتا ہے۔
عوام کے جاننے کے حق کے لیے آگہی کی مہم چلانے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) کے ماہرین نے وفاق کی 33 وزارتوں کے تحت قائم 40 ڈویژن کی ویب سائٹ پر دستیاب مواد کے تجزیے کے بعد یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ افسران بالا سے لے کر چھوٹے افسران بھی عوام کو معلومات فراہم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
فافن کے ماہرین نے اطلاعات کے حصول کے قانون R.
اس جامع رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ 33 وزارتوں میں سے آدھی وزارتوں نے اس قانون کے تحت اطلاعات فراہم کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اسی طرح 40 ڈویژن سے کسی ایک کی ویب سائٹ پر آر ٹی او کے تحت معلومات حاصل کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ فافن کے ماہرین نے اس ضمن میں وزارتوںکا جائزہ لیتے ہوئے یہ تحریرکیا ہے کہ صرف کیبنٹ ڈویژن اور بین الصوبائی رابطہ ڈویژن Interprovincial Coordication Division نے آر ٹی او کے قانون کی شق 5 کے تحت سب سے زیادہ معلومات اپنی ویب سائٹ پر وائرل کی جو کہ 42 فیصد کے قریب تھی۔
اسی طرح اسٹیبلشمنٹ، پٹرولیم ، نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر، ریونیو، داخلہ اور پلاننگ ڈویژن نے 38 فیصد معلومات اپنی ویب سائٹ پر فراہم کیں۔ اطلاعات کے حصول کے قانون مجریہ RTI 2017 کے تحت ایک خود مختار انفارمیشن کمیشن وفاق میں قائم ہے۔ اسی طرح اب انفارمیشن کمیشن چاروں صوبوں میں قائم ہوچکا ہے۔ وفاقی انفارمیشن کمیشن سینٹر بیوروکریٹ شعیب صدیقی کی قیادت میں فعال ہے۔
ہر پاکستانی شہری پہلے متعلقہ وزارت یا ڈویژن یا وفاق کے خودمختار اداروں کو معلومات کے لیے عرض داشت بھیجتا ہے مگر عمومی صورتحال یہ ہے کہ شہری کی پہلی عرضداشت پر متعلقہ افسران توجہ ہی نہیں دیتے۔ شہری قانون کے تحت 15 دن تک انتظار کے بعد انفارمیشن کمیشن سے رجوع کرتا ہے۔
وفاقی انفارمیشن کمیشن کے پاس شہریوں کی عرضداشتوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ انفارمیشن کمیشن کے افسران متعلقہ وزارت، ڈویژن یا خود مختار ادارہ کے خط بھیجتے ہیں۔ اب متعلقہ وزارت، ڈویژن یا خود مختار ادارے کے افسران دیر سے جواب دینے کی حکمت عملی اختیارکرتے ہیں۔کبھی کوئی قانونی نکتہ پیش کیا جاتا ہے اورکبھی متعلقہ افسرکی غیر حاضری یا متعلقہ ریکارڈ کی عدم دستیابی کے بہانے کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات کمیشن کے افسروں کی متعلقہ وزارت کے افسران سے میٹنگ منعقد ہوتی ہے۔
اس میٹنگ میں کسی غیر متعلقہ یا جونیئر افسرکو بھیج دیا جاتا ہے۔ پوری کوشش یہ کی جاتی ہے کہ یا تو انفارمیشن والے اس معاملے کو بھول جائیں یا معلومات حاصل کرنے والا شہری مایوس ہوتا ہے۔
راقم کو وفاقی اردو یونیورسٹی کے مالیاتی بحران، اساتذہ کو تنخواہیں، ریٹائر ہونے والے اساتذہ و عمال کو ریٹائرمنٹ کے بعد واجبات کی عدم ادائیگی اور اردو یونیورسٹی کی جانب سے بینکوں میں جمع کرائی جانے والی کروڑوں روپوں کی رقوم کے بارے میں معلومات درکار تھیں مگر تقریباً 5 ماہ گزرنے کے باوجود یونیورسٹی کی انتظامیہ یہ بنیادی معلومات فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جاننے کے حق کا بنیادی تعلق ریاستی اداروں میں شفافیت سے منسلک ہے۔
پاکستان میں پہلے بعض قانون دان یہ رائے دیتے تھے کہ آئین کا آرٹیکل 19 آزادی صحافت کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور عوام کے جاننے کا حق میڈیا کے اطلاعات فراہم کرنے کے حق سے منسلک ہے جس کی بناء پر کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے مگر یہ تصور عام ہوا کہ عوام کے جاننے کے حق کو عملی شکل دینے کے لیے ایک جامع قانون کی ضرورت ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے تو پھر ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کا بھی قیام عمل میں آیا۔
جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر خورشید احمد بھی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ پروفیسر خورشید احمد نے عوام کے جاننے کے حق کے تحفظ کے لیے سینیٹ میں ایک مسودہ قانون پیش کیا مگر یہ سینیٹ مسودہ پر غور نہیں کر پائی۔ جب 1988 میں عام انتخابات منعقد ہوئے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے اپنے منشور میں یہ وعدہ کیا کہ برسراقتدار آنے کے بعد عوام کے جاننے کے حق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کریں گے مگر یہ دونوں جماعتیں دو دو بار برسر اقتدار رہیں مگر ان جماعتوں کے رہنماؤں نے قانون سازی پر توجہ نہ دی۔
سابق صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا تو پیپلز پارٹی کے رہنما ملک معراج خالد کو نگراں وزیر اعظم مقررکیا گیا۔ ملک معراج خالد کی وزارتِ عظمی میں جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم وزیر قانون، ارشاد حقانی وزیر اطلاعات اور نجم سیٹھی مشیرکی حیثیت سے شامل ہوئے۔ جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کچھ دنوں بعد وزارت سے مستعفی ہوگئے مگر ان کے مختصر دور میں اطلاعات کے حصول کے قانون کے مسودہ پر کام ہوا۔
نجم سیٹھی کی دلچسپی سے یہ مسودہ مکمل ہوا اور جس دن ملک معراج خالد کی حکومت کی میعاد ختم ہو رہی تھی، ایک آرڈیننس کے تحت ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ اطلاعات کے حصول کا قانون نافذ ہوا، اس دوران انتخابی مہم شروع ہوگئی۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کے اطلاعات کے مشیر مشاہد حسین نے اعلان کیا کہ اس مسودے کو بہتر بناکر پارلیمنٹ سے منظور کراکر ایکٹ کی صورت میں نافذ کیا جائے گا۔ بعد ازاں مشاہد حسین مسلم لیگ ن حکومت کی کابینہ کے وزیر اطلاعات کے عہدہ پر فائز ہوئے، مگر وہ اپنے وعدے کو بھول گئے۔
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط ہوئے ۔ اس میثاق کے تحت اطلاعات کے حصول کے قانون کو جامع بنانے کا وعدہ کیا گیا۔ 2013ء سے وفاق اور صوبوں میں قانون سازی کا عمل شروع ہوا۔ سندھ میں اب بھی انفارمیشن کمیشن کی کارکردگی بہت زیادہ قابلِ ستائش نہیں رہی مگر وفاق میں انفارمیشن کمیشن نے اہم فیصلے کیے مگر ریاست کی اعلیٰ سطح پر شفافیت کی اہمیت محسوس نہیں کیا گیا اسی بناء پر وزارتوں، ڈویژن اور خود مختار اداروں کے افسران اطلاعات کی فراہمی کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے۔ فافن کی یہ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔
نظام کے استحکام کے لیے ایک تجویز یہ ہے کہ انفارمیشن کمیشنوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے سول سوسائٹی کے علاوہ صحافیوں اور وکلاء پر مشتمل ایک کمیشن بنایا جائے جو اطلاعات کی فراہمی میں رکاوٹوں کے تدارک کے لیے اقدامات کرے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کمیشن کو توہینِ عدالت کے اختیارات دیے جائیں تاکہ افسران اطلاعات چھپانے کے کلچر کو ترک کریں۔ اطلاعات کے حصول کا قانون کے ذریعے جمہوری نظام مستحکم ہوسکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اطلاعات کے حصول کے قانون عوام کے جاننے کے حق معلومات فراہم کرنے انفارمیشن کمیشن ویب سائٹ پر خود مختار کے افسران قانون کے کیا گیا نہیں ہے کے تحت کے لیے کے بعد
پڑھیں:
یہ حکمران نہیں جیب کترے ہیں, مونس الٰہی
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء مونس الٰہی کا کہنا ہے کہ منرلز ملک میں خوشحالی لانے کیلئے استعمال ہوں گے مٹھی بھر افراد کے خزانوں میں جانے کیلئے نہیں، ملک جل رہا ہے اور حکمرانوں کا زور اپنی غلطیاں ماننے اور عملی اقدامات سے ان کا ازالہ کرنے کی بجائے روم کے نیرو کی طرح ڈرامے اور گانے بنانے پر ہے۔ اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیمتی منرلز کے مالک صرف اور صرف پاکستان کے عوام ہیں، یہ لیتھیم، ٹائٹینیم، سونا، کوبالٹ اور دیگر سٹریٹجک منرلز ملک میں خوشحالی لانے کیلئے استعمال ہوں گے، مٹھی بھر افراد کے خزانوں میں جانے کیلئے نہیں، یہ حکمران نہیں جیب کترے ہیں جو عوام سے ایک اور دھوکہ کیا جارہا ہے جس کے تحت بجلی سستی کرنے کے دعویدار اب گیس مہنگی کرنے لگے ہیں، اگر عوام کو سستی بجلی سے کچھ ملنا بھی تھا تو وہ مہنگی گیس کی شکل میں اس کی جیب سے واپس نکال لیا جائے گا۔مونس الٰہی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب میں قتل،زیادتی، زنا اور اغوا کے جرائم کی تعداد باقی صوبوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہو گئی لیکن پولیس معصوم سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور جبر میں مصروف ہے جب کہ مجرم عوام کی عزتیں، جان و مال پامال کرنے میں مشغول ہیں۔ سابق وفاقی وزیر نے نہروں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کا جون 1985ء میں بطور وزیراعلٰی پنجاب بیان شیئر کیا جس وہ کہتے ہیں کہ "اگر سندھ کی نہروں میں کبھی پانی نہ ہوا تو پنجاب اس کی زمین اپنے خون سے سیراب کرے گا"، اس کے ساتھ ہی سابق وفاقی وزیر نے لکھا کہ وطن کی خدمت میں پنجاب نے تو ہر دور میں اپنا خون دیا ہے جب کہ اپنی دفعہ میاں صاحب کے خون کے پلیٹیٹس کم ہو جاتے ہیں۔