مجھے نہیں پتہ کب تک بالکل تندرست ہوسکوں گا: صائم ایوب
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
کراچی (اسپورٹس رپورٹر) لندن میں زیر علاج پاکستانی بلے باز صائم ایوب نے کہا ہے کہ مجھے نہیں پتہ کہ کب تک بالکل تندرست ہوسکوں گا۔نجی ٹی وی سے گفتگو میں صائم ایوب کا کہنا تھاکہ اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا اور ڈاکٹر ز بھی پوری کوشش کریں گے۔ ان سے سوال کیا گیاکہ دو سنچریوں کے بعد پوری ٹیم کوآپ سے بڑی امیدیں ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ صرف ایک کھلاڑی اہم نہیں ہوتا، جیت کیلیے پوری ٹیم مل کرکھیلتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اب سفارش نہیں چلے گی
ایک زمانے میں ہر جائز ناجائز کام کے لئے سفارش ضروری ہوتی تھی ،اب سفارش کے ساتھ جب تک آپ خرچا پانی” نہ لگائیں یہ ممکن ہی نہیں آپ کا کوئی کام ہو جائے ،اگلے روز ایک صاحب نے مجھے بتایا وہ اپنے بیٹے کا ڈومیسائل بنوانے کے لئے گئے ،سرکاری اہل کار نے ذرا پرے لے جا کر ان سے کہا “اگر فوری چاہئے اس کا پندرہ ہزار خرچا ہوگا اگر دو دن بعد چاہئے اس کا آٹھ ہزار ہوگا اور اگر روٹین میں دو ہفتے بعد چاہئے اس کا تین ہزار ہوگا“ ،ان صاحب نے عرض کیا ”بھائی سرکاری فیس تو صرف دو سو روپے ہے آپ تین ہزار کیوں مانگ رہے ہیں ؟ وہ بولا” دو سو روپے میں آپ کی ڈومیسائل کی درخواست پر کم از کم دو سو اعتراضات لگیں گے ،تقریباً اتنے ہی آپ کے چکر لگ جائیں گے بہتر ہے آپ بغیر اعتراضات اور بغیر چکروں والا ڈومیسائل بنوا لیں“ ،انہوں نے اپنے بیٹے کی پولیس میں بھرتی کی درخواست دینی تھی جس کی آخری تاریخ قریب تھی سو انہوں نے دو سو اعتراضات اور تقریباً اتنے ہی چکروں کے بغیر والا ڈومیسائل بنوا لیا ،میں نے ان سے کہا”آپ مجھے بتاتے میں کسی سے کہہ دیتا“ وہ فرمانے لگے ،” میں نے آپ کو اس لئے نہیں بتایا آپ کسی سے سفارش کریں گے تو ممکن ہے میرا جو کام آٹھ ہزار میں ہونا ہے وہ پندرہ ہزار میں بھی نہ ہو “ ،انہوں نے بالکل ٹھیک فرمایا تھا ،رشوت اب ہمارے لہو میں دوڑتی ہے ،اسے اب حرام نہیں مکمل طور پر حلال سمجھا جاتا ہے ،اس کی مثال پہلے بھی کئی بار میں دے چکا ہوں میں نے ایک ڈی ایس پی سے کہا تم بڑے بے شرم ہو تم نے میرے فلاں عزیز سے پانچ لاکھ روپے رشوت لی ہے ان کا کام بھی نہیں کیا ،وہ بولا” سر رشوت لی ہے تو کام ضرور کروں گا ،میں نے اپنے بچوں کو کبھی حرام نہیں کھلایا“ ،میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں زیادہ پرانا نہیں ہے ،میں نے امریکہ جانا تھا ،جس روز میری فلائیٹ تھی میرا جرمنی میں مقیم ایک بہت اچھا دوست ملنے آگیا ،وہ مجھ سے کہنے لگا ” مجھے پنجاب کے سیکرٹری فوڈ سے ایک بہت ہی جائز کام ہے آپ میرے ساتھ چلیں ،میں نے کہا “ میری آج فلائٹ ہے ،میں نے ابھی پیکنگ کرنی ہے ،وہ میرے بہت اچھے دوست ہیں میں نہیں ابھی کال کر دیتا ہوں ،آپ ان سے مل لیں ،آپ کا کام ہو جائے گا“ ،اس نے اصرار کیا آپ میرے ساتھ چلیں میں ا±س کے ساتھ چلاگیا ،سیکرٹری صاحب نے بہت عزت دی ،کہنے لگے ”بٹ صاحب آپ بے فکر ہو کر امریکہ جائیں ان کا کام بڑا جائز ہے میں ابھی فائل منگوا کر کل تک آرڈرز کر دوں گا“ ،انہوں نے میرے اس دوست کا موبائل نمبر بھی لے لیا ،ان سے کہنے لگے ”آپ کل مجھے کال کر لیں میں آپ کو آرڈرز واٹس ایپ کر دوں گا آپ کو دوبارہ آنے کی ضرورت محسوس نہیں ھوگی“ ،اس کے بعد ہم پورے اس یقین سے ا±ن کے دفتر سے نکل آئے کہ ہمارا کام ہوگیا ہے ،میں بڑے اطمینان سے رات کو امریکہ روانہ ہوگیا“ ،میرا اطمنان اس قدر مضبوط تھا مجھے اپنے دوست سے پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ تمہیں آرڈرز مل گئے ہیں یا نہیں ؟ کچھ عرصہ بعد میں واپس آیا کسی عزیز کی شادی میں گیا وہاں مجھے وہ سیکرٹری فوڈ مل گئے ،وہ مجھ سے شکایت کرنے لگے کہ آپ جس دوست کو لے کر آئے تھے میں نے ان کا کام کر دیا تھا مگر میں پچھلے ہفتے جرمنی گیا میں نے انہیں کئی کالز کی انہوں نے میری کوئی کال اٹینڈ نہیں کی نہ رنگ بیک کیا ،مجھے اپنے ا±س دوست پر بہت غصہ آیا گھر واپس آکر میں نے ا±سے فون کیا اور غصے میں بولتا ہی چلے گیا کہ تم بہت بے حیا انسان ہو ایک بندے نے تم پر احسان کیا تم نے ا±س کی کال ہی اٹینڈ نہیں کی “ ،وہ خاموشی سے مجھے سنتا رہا ،میرا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا وہ کہنے لگا ”بھائی جان آپ تو ا±س روز امریکہ روانہ ہوگئے تھے ،اگلے روز میں نے سیکرٹری صاحب کو کال کی ا±نہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی ،ا±س سے اگلے روز بھی نہیں کی ،پھر میں خود ا±ن سے ملنے چلاگیا ،ا±نہوں نے معذرت کی فرمانے لگے میں دو تین روز بہت مصروف رہا ہوں آپ کل آجائیں میں آرڈرز دے د±وں گا ،ا±ن کے کہنے کے مطابق میں کل پھر چلا گیا ،وہ کہنے لگے جس ڈپٹی سیکرٹری نے فائل مکمل کرنی ہے وہ آج چ±ھٹی پر ہے آپ پیر کو آجائیں“ ،میں پیر کو گیا وہ کہنے لگے آپ بے فکر ہو جائیں اسی ہفتے آپ کو آرڈرز مل جائیں گے“ ،اس روز میں جب ان کے دفتر سے باہر نکلا ایک صاحب نے مجھے روک لیا وہ مجھ سے کہنے لگے ”آپ مسلسل تین چار چکر لگا چکے ہیں آپ کا کیا مسئلہ ہے ؟ میں نے ا±نہیں آپ کا بتایا پھر اپنا مسئلہ بتایا وہ کہنے لگے ”سر میں سیکرٹری صاحب کا ڈرائیورہوں آپ کا کام آج ہی ہوسکتا ہے مگر آپ قسم اٹھائیں آپ توفیق بٹ صاحب کو نہیں بتائیں گے“،میں چونکہ چکر لگا لگا کر تنگ آیا ہوا تھا اور آپ کو اس لئے نہیں بتا رہا تھا آپ اپنا ٹور انجوائے کر رہے ہیں میں کیوں آپ کو تنگ کروں ،چنانچہ میں نے قسم ا±ٹھا لی کہ میں آپ کو نہیں بتاوں گا“ ،اس کے بعد ا±س نے مجھ سے پانچ لاکھ روپے مانگے جو کچھ ہی دیر بعد میں نے اسے دے دئیے اور وہ ا±سی شام حسب وعدہ آرڈرز میرے گھر آ کر دے گیا“،یہ داستان سن کر میں نے سر پکڑ لیا ،میں نے ا±س سے پوچھا یار تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ؟ اس نے کہا ٹھہرو میں ابھی ”کانفرنس کال“ میں اس ڈرائیور کو لیتا ہوں آپ بس خاموشی سے ہماری گفتگو س±نتے رہنا آپ کو خود یقین آجائے گا“ ،ا±س کے بعد س نے کال ملائی اور ڈرائیور کا حال چال پوچھنے کے بعد اس سے کہنے لگا ”میں پاکستان آ رہاہوں کچھ چاہئے تو بتاو¿ تم میرے مہربان ہو تم نے میرا کام کیا تھا پانچ لاکھ روپے کی میرے لئے کوئی حیثیت نہیں تھی آپ دس لاکھ بھی مانگتے میں نے تمہیں دے دینے تھے ،اصل بات یہ ہے تم نے کام کروا دیا ورنہ اب لوگ پیسے لے کر بھی کام نہیں کرتے“ آگے سے ڈرائیور نے جو کچھ کہا مجھے یقین ہوگیا کام پیسے دے کر ہی ہوا ہے ،اس کے بعد میں نے اس سیکرٹری کو فون کیا اسے سارا واقعہ سنایا اور اس سے کہا ”میرے دوست نے اگر جرمنی میں تمہاری کالز اٹینڈ نہیں کیں اس نے بالکل ٹھیک کیا“ شام کو سیکرٹری صاحب معذرت کرنے میرے گھر آگئے ،میں نے ان سے کہا” بہتر ہوتا اگر تم اپنے ڈرائیور کی معطلی کے آرڈرز اور پانچ لاکھ روپے بھی ساتھ لے کر آتے تاکہ ثابت ہو جاتا اس واردات میں تم بے قصور ہو“ ،اس کالم کا مقصد آپ کو صرف یہ اطلاع کرنا ہے اب سفارش ذرا سوچ سمجھ کر کرایا کریں کیونکہ پاکستان کا مطلب اب بدل چکاہے
پاکستان کا مطلب کیا
پیسے ساہڈے ہتھ پھڑا
جیڑا مرضی کام کرا