پی ایس ٹی جنوبی پنجاب کے صوبائی صدر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، مظلوم فلسطینیوں کی آہیں ناجائز ریاست کے باپ امریکہ کو جلا کر بھسم کر دیں گے، ڈوبتی ہوئی امریکی معیشت کے پیش نظر اسرائیل کو مجبورا اب غزہ میں جنگ بندی کرنی پڑے گی۔  اسلام ٹائمز۔ پاکستان سنی تحریک ملتان کے نومنتخب ذمہ داران کا اجلاس جامع مسجد جلال باقری میں منعقد ہوا، اجلاس کی صدارت صدر جنوبی پنجاب ڈاکٹر عمران مصطفی کھوکھر نے کی، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عمران مصطفی کھوکھر نے کہا کہ حکومت پاکستان بجلی کے نرخ کم کر کے عوام کو فوری ریلیف دے، آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے محض کرپشن کی بنیاد پر تھے، آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدوں کے بعد بجلی کے نرخ فوری کم کیے جائیں۔ ڈاکٹر عمران مصطفی کھوکھر نے کہا کہ عوام کو بنیادی ضروریات سستی اور بروقت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جس سے ہماری حکومتیں لاتعلق نظر آتی ہیں، حکومت کے پاس عوام کی خدمت کے علاوہ کوئی کام نہیں ہونا چاہیے لیکن ہماری حکومتیں محض عوام کو لوٹنے اور اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاس اینجلس کی آگ نے امریکہ و اسرائیل کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، مظلوم فلسطینیوں کی آہیں ناجائز ریاست کے باپ امریکہ کو جلا کر بھسم کر دیں گے، ڈوبتی ہوئی امریکی معیشت کے پیش نظر اسرائیل کو مجبورا اب غزہ میں جنگ بندی کرنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سنی تحریک دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کی آواز ہے اور ہم ہر موقع پر دنیا بھر کے مظلوم عوام کے لیے اواز بلند کرتے رہیں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر کشمیر اور فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے بھرپور آواز اٹھائی جائے گی۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے کہا کہ

پڑھیں:

دنیا کا مظلوم ترین بادشاہ

غالب نے کہا ہے:

شمع بجھتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے

شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

 یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہوا، آخری وقت میں جب بہادر شاہ ظفر نے رنگون کے قید خانے میں دم توڑا تو ساری محفل سیہ پوش ہوگئی۔ مغلوں کا اقتدار ختم ہوگیا اور ہندوستان پوری طرح انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ وہ ہندوستان جس میں موجودہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما کے چند علاقے شامل تھے، آل تیمورکی پانچویں نسل کے سپوت ظہیرالدین بابر کی سلطنت تھے۔ ظہیرالدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔

انگریز فرخ سیر کے زمانے سے چالیں چل رہے تھے، بہادر شاہ ظفرکو انگریزوں کے ایما پر بادشاہ بنایا گیا، اصل وارث بادشاہت کا مرزا جہانگیر تھا، لیکن وہ کسی بھی طور انگریزوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے والد اکبر شاہ ثانی کی چہیتی بیگم ممتاز محل، ان بیگم کے چہیتے بیٹے تھے۔ مرزا جہانگیر جنھیں وہ وارث تخت و تاج بنانا چاہتی تھیں لیکن مرزا جہانگیر چونکہ انگریزوں کو ناپسند کرتے تھے اور انھوں نے ایک دفعہ انگریز حاکم اعلیٰ اسٹیفن پر اپنا پستول بھی چلا دیا تھا، اس لیے وہ انگریزوں کے لیے قابل قبول نہ تھے۔

بہادر شاہ ظفر ولی عہد تھے، بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمری تخت و تاج کی راہ تکتے گزری۔ وہ باسٹھ سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے، اس وقت مغلوں کا جاہ و جلال رخصت ہو رہا تھا، حکومت تباہ اور خزانے خالی تھے۔ مثل مشہور تھی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دلّی تا پالم‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی تھی۔ بہادر شاہ کہنے کو تو بادشاہ تھے لیکن بالکل بے دست و پا تھے، فرنگی سرکار کے وظیفہ خوار تھے۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا، اگر کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بہادر شاہ ظفر کہتے ’’بھئی! انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘ لیکن اس بے بسی کے باوجود دلّی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔

بہادر شاہ 24 اکتوبر سن 1775 میں دلّی میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام اکبر شاہ ثانی اور والدہ کا نام لال بائی تھا جوکہ راجپوت تھیں۔ بہادر شاہ کا پورا نام ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ تھا۔ ان کی تعلیم دلّی میں ہی ہوئی،گھڑ سواری اور تیر اندازی کی تربیت حاصل کی، ان کے والد اور دادا شاعر تھے، شعرگوئی سے رغبت انھیں ورثے میں ملی۔ انھوں نے شاعری کی تربیت شاہ نصیر سے لی، پھر ان کے جانے کے بعد غالب اور ذوق سے فن شعر گوئی کی اصلاح لیتے رہے۔ بہادر شاہ ظفر کی چار بیگمات تھیں، اختر محل، اشرف محل،تاج محل اور زینت محل۔ زینت محل آخری وقت تک بادشاہ کے ساتھ رہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے 22 یا 26 بیٹے تھے جن میں مرزا جواں بخت، دارا بخت، مرزا مغل، مرزا خضر سلطان اور مرزا فتح الملک زیادہ جانے جاتے تھے۔

بادشاہت کیا تھی بدنصیبی تھی، وہ بس نام کے بادشاہ تھے ان کی حیثیت شطرنج کے بادشاہ کی تھی، وہ خود فرنگی سرکار کا مہرا تھے، تیموری دبدبہ لال قلعے میں محصور ہوگیا تھا، ملک ملکہ کا تھا حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کو اپنی بے بسی کا شدت سے احساس تھا مگر وہ اس کا کوئی تدارک نہیں کرسکتے تھے کیونکہ انھیں پنشن انگریز سرکار سے ملتی تھی۔ اقتدار کی خواہش اور محلات کی ریشہ دوانیاں بادشاہ کو لے ڈوبیں۔ جب انگریزوں کی فوجیں دلّی پر چڑھ دوڑیں تو بادشاہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں جا چھپے، لیکن کرنل ہڈسن نے انھیں گرفتار کیا اور رنگون بھیج دیا تاکہ وہاں بادشاہ پر مقدمہ چلایا جاسکے۔

دلّی فتح ہو چکی تھی اور آل تیمورکا آخری بادشاہ پابہ زنجیر تھا۔ کرنل ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو لال قلعے واپس چلنے کو کہا تو بوڑھا بادشاہ خوش ہوگیا، وہ اپنے چھ بیٹوں کے ساتھ فینس میں بیٹھ گیا، جب خونی دروازہ آیا تو ہڈسن نے شہزادوں کو باہر نکلنے کو کہا اور ایک ایک کر کے چھ کے چھ شہزادوں کو موت کی نیند سلا دیا اور بوڑھے بادشاہ کو رنگون بھجوا دیا گیا، جہاں انھوں نے اپنی بیگم زینت محل کے ساتھ درد ناک پل گزارے۔ ہڈسن نے چھ جوان بیٹوں کے سر کاٹ کر ایک طشت میں رکھے اوپر سے کپڑا ڈالا اور بادشاہ سے کہا ’’ہم تمہارے لیے نذر لایا ہے۔‘‘ بادشاہ نے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو وہ ان کے بیٹوں کے سر تھے۔ اس کے بعد دلّی روتی رہی۔ شاعر ان پر شعر کہتے رہے، میر صاحب کا ایک شعر ہے:

دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

بہادر شاہ ظفر اعلیٰ پائے کے شاعر تھے، ان کی بادشاہت کے دوران محل میں شاعری کی محفلیں جما کرتی تھیں، بڑے بڑے نام ور شعرا شرکت کرتے تھے۔ غالب، ذوق، مومن اور دوسرے بہت سے۔ خود بادشاہ بھی شعر کہتے تھے۔ ان کے چار دیوان موجود ہیں۔ ظفر کی شاعری ان کے دل کی کتھا ہے۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز اور رنج و الم نمایاں نظر آتا ہے، جیسے یہ شعر:

وہ رعایا ہند تباہ ہوئی کہوں کیسے ان سے جفا ہوئی

جسے دیکھا حاکم وقت نے،کیا یہ بھی قابلِ دار ہے

گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ، نہیں دل کو میرے قرار ہے

کروں غم ستم کا میں کیا بیاں میرا غم سے سینہ فگار ہے

یہ کسی نے ظلم کبھی ہے سنا،کہ دی پھانسی لوگوں کو بے گناہ

وہی کلمہ گویوں کی سمت سے ابھی دل میں ان کے غبار ہے

میرا رنگ روپ بگڑ گیا میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا

جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

٭……٭

میں نہیں ہوں نغمۂ جانفزا، مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا

میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

 اور ذرا یہ شعر دیکھیے جو ظفر کی زندگی کا ہولناک سچ ہے:

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

یا یہ شعر:

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے جو ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا

جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

کوئی آ کے شمع جلائے کیوں کوئی آ کے اشک بہائے کیوں؟

کوئی آ کے پھول چڑھائے کیوں، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں

نہ تھا شہر دہلی یہ تھا اک چمن کہو کس طرح کا تھا یاں امن

جو خطاب تھا وہ مٹا دیا، فقط اب تو اجڑا دیار ہے

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ اک مشتِ غبار ہوں

مجھے دفن کر چکو جس گھڑی، تو یہ اس سے کہنا کہ اے پری

وہ جو ترا عاشق زار تھا، تہہ خاک اس کو دبا دیا

متعلقہ مضامین

  • جے یو پی کراچی کے تحت اسرائیل مردہ باد ریلی، عوام کا فلسطینی مظلومین سے اظہارِ یکجہتی
  • جمعیت علمائے پاکستان کی زیر قیادت اسرائیل مردہ باد ریلی، عوام کا فلسطینی مظلومین سے اظہارِ یکجہتی
  • چوہدری شجاعت مسلم لیگ ق کے بلامقابلہ صدر منتخب،چوہدری سالک سینئر نائب صدر ، ڈاکٹر محمد امجد چیف آرگنائزر مقرر
  • کیا ڈونلڈ ٹرمپ کا دماغ ٹھکانے پہ ہے؟ رپورٹ کل آجائے گی
  • اہل غزہ نے اپنی قربانی سے امت کو بیدار کر دیا ہے، ڈاکٹر عمران مصطفی 
  • ملتان، جے یو آئی کے زیراہتمام مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ 
  • اسرائیل کے حق میں بولنے والوں کو عوام عبرت کا نشان بنا دینگے، حافظ نعیم الرحمان
  • کشمیر کا مسئلہ ہویا فلسطین جماعت اسلامی نے ہمیشہ آواز بلند کی؛ لیاقت بلوچ
  • دنیا کا مظلوم ترین بادشاہ
  • امریکہ اور صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، قائد انصاراللہ یمن