امریکا نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی تصدیق کردی
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنے بیان میں امریکی صدر نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں مغویوں کی رہائی کا معاہدہ ہوگیا، وہ جلد ہی رہا ہوجائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم نے غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ کر لیا ہے۔ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنے بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں مغویوں کی رہائی کا معاہدہ ہوگیا، وہ جلد ہی رہا ہوجائیں گے۔ خیال رہے کہ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل غزہ جنگ بندی معاہدے پر متفق ہوگئے۔
خبررساں ایجنسی نے جنگ مذاکرات سے باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کے بعد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے اختتام کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ اس سے قبل فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے
پڑھیں:
طاقتیں تمہاری ہیں، اور خدا ہمارا ہے!
فلسطین میں پندرہ ماہ سے جاری جنگ کے خاتمہ کی امید پیدا ہو گئی ہے فلسطین کے عوام کی منتخب نمائندہ اور مزاحمتی تحریک حماس اور اسرائیل کے مابین غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس پر اتوار سے عمل درآمد ہو گا۔ جنگ بندی معاہدہ کی خبر سامنے آتے ہی غزہ میں کھلے آسمان تلے پڑے فلسطینی باشندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور بڑی تعداد میں اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے جس نے انہیں سخت آزمائش کے طویل لمحات میں سرخرو فرمایا۔ ہزاروں فلسطینیوں نے سڑکوں پر نکل کر ’اللہ اکبر‘ کے نعروں سے اپنے جذبات تشکر کا اظہار کیا ادھر خوف و ہراس کی فضا میں شب و روز بسر کرنے والے اسرائیلی شہری بھی جنگ بندی کے معاہدہ کی اطلاع ملنے پر جشن مناتے اور اظہار مسرت کرتے رہے۔ قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی نے دوحا میں پریس کانفرنس کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ پہلے مرحلہ میں معاہدہ کے تحت جنگ بندی کا دورانیہ چھے ہفتوں پر محیط ہو گا۔ اسرائیل ہر یرغمالی کے بدلے 30 فلسطینی قیدی اور ہر خاتون فوجی قیدی کے بدلے 50 فلسطینی قیدی رہا کرے گا۔ پہلے مرحلے میں 33 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے جن میں تمام خواتین، بچے اور 50 سال سے زائد عمر کے مرد شامل ہیں۔ پہلے مرحلے کے 16 ویں دن سے شروع ہونے والے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد پر بات چیت کی جائے گی جس میں تمام باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلیوں کا مکمل انخلا شامل ہے۔ تیسرے مرحلے میں مردہ یرغمالیوں کی باقی ماندہ لاشوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کا آغاز متوقع ہے۔ اسرائیل مجموعی طور پر 1 ہزار 650 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج فیلے ڈیلفیا اور نیتساریم راہداریوں سے مکمل انخلا کرے، اسرائیل یومیہ 600 امدادی سامان سے لدے ٹرکوں کو غزہ پٹی میں داخلے کی اجازت دے گا۔ امریکی صدر جوبائیڈن اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو چند روز میں صدارتی منصب سنبھال لیں گے، دونوں نے حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدہ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے معاہدہ کو امریکا کی سفارت کاری اور محنت کا نتیجہ قرار دیا ہے جب کہ حماس کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ فلسطینی عوام کی عظمت اور غزہ میں مزاحمت کے بے مثال جذبے کا غماز ہے جو پچھلے 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ حماس نے کہا یہ معاہدہ فلسطینی عوام، ان کی مزاحمت، امت مسلمہ اور عالمی سطح پر آزادی پسندوں کی ایک مشترکہ کامیابی ہے اور یہ ہماری جدوجہد کے سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کو ختم کرنا اولین ترجیح ہے۔ حماس نے غزہ کے مظلوموں کی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرنے پر دنیا بھر کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا ہم اب سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے غزہ کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، ہمارے حق میں آواز بلند کی اور عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ افغانستان کے بعد بنگلا دیش اور اب غزہ میں اسلامی تحریکوں اور مجاہدین نے مشکل سے مشکل حالات میں صبر کا دامن استقامت سے تھامے رکھا اور جان و مال اور اولاد سمیت ہر طرح کی قربانی دے کر ایک بار پھر دنیا پر ثابت کیا ہے کہ ’’طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے‘‘ یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ:۔
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، گرتا ہے تو جم جاتا ہے
پندرہ ماہ سے غزہ کے مظلوم مجبور اور محصور مسلمانوں پر جاری آتش و آہن کی بارش کے دوران یہ حقیقت بھی نمایاں ہو کر سامنے آئی کہ ’’الکفروملۃٌ واحدۃٌ‘‘۔ دنیا بھر کے کافر ایک قوم ہیں… اسرائیل معصوم بچوں، عورتوں، ضعیف و ناتواں بزرگوں، معذوروں، زخمیوں، بیماروں، رہائشی آبادیوں، ایمبولینسوں، اسپتالوں، مہاجر کیمپوں، اسکولوں، عبادت گاہوں اور امدادی کارکنوں پر اندھا دھند بمباری کرتا رہا۔ متاثرین کو خوراک پہنچانے والی گاڑیوں کو نشانہ بناتا رہا۔ اس نے نہتے اور بے یارو مدد گار شہریوں پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا جس پر انسانیت منہ چھپاتی پھر رہی ہے مگر عالمی طاغوت نے اس کی مذمت کرنے اور ظالم و جارح کا ہاتھ پکڑنے کے بجائے پوری ڈھٹائی سے کسی شرم و حیا کے بغیر اپنے کافر بھائی کا ساتھ دیا تاکہ اسلام کو مغلوب رکھا جا سکے اور مسلمانوں کو سبق سکھایا جا سکے۔ نشان عبرت بنایا جا سکے۔ کفر کی نمائندہ تمام بڑی طاقتوں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ وغیرہ نے اسرائیل کی نہ صرف سیاسی، سفارتی اور اقتصادی سرپرستی جاری رکھی بلکہ نہایت سفاکانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود بھی بھاری مقدار میں عین حالت جنگ میں اسرائیل کو فراہم کیا جاتا رہا کسی کو انسانیت یاد آئی نہ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے حقوق کے خیال نے ستایا۔ اس کے باوجود دعویٰ یہی ہے کہ وہ دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ اقوام ہیں۔ ان اقوام کی اس تہذیب کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے ایک صدی قبل پیش گوئی فرمائی تھی:۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
اسرائیل کی اس ننگی جارحیت کے دوران سب سے شرم ناک اور تکلیف دہ کردار مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا رہا، جو یہ سارا ظلم و ستم اس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے رہے کہ ٹک، ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم۔ مسلمانوں کے ان نام نہاد رہنمائوں کا فرض تو یہ تھا کہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے اس طرح کھل کر میدان میں آتے جس طرح کافر اور طاغوت اپنے کافر بھائی کی مدد و سرپرستی کر رہا تھا مگر وائے ناکامی کہ سیاسی، سفارتی، مادی و اسلحہ کی مدد تو دور کی بات ہے انہیں یہ تک توفیق نصیب نہ ہو سکی کہ کھل کر ظالم و جابر اور جارح کی مذمت ہی کر دیتے۔ مسلم حکمرانوں کے بزدلی، کم ہمتی اور خوف سے لرزتے اس طرز عمل کو تاریخ اپنے صفحات میں ہمیشہ محفوظ رکھے گی۔ اس کے برعکس الحمدللہ، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا کردار بہر حال قابل ستائش رہا جنہوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر دامے، درمے، سخنے اپنے فلسطینی بھائیوں کی امداد کا حق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پاکستان میں جماعت اسلامی نے اس ضمن میں بھر پور کردار ادا کیا اور عالمی ضمیر کو جگانے اور مصیبت زدہ فلسطینی بھائیوں کے مصائب اور دکھ درد بٹانے کے لیے جماعت کے قائدین اور کارکنوں نے اپنی جان لڑا دی۔ الخدمت کے مخلص اور بے لوث رضا کار اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اپنے بھائیوں کے لیے خوراک و پوشاک، ادویات و دیگر امداد ان کے کیمپوں تک پہنچاتے رہے۔ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدہ پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے بجا طور پر اسے اسرائیل اور امریکا کی شکست سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی سرپرستی میں حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا دعویٰ کیا مگر اسے آج حماس کے سامنے جھک کر جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا۔ یہ معاہدہ صرف اسرائیل نہیں امریکا کی بھی شکست ہے، اہل غزہ سرخرو ہو گئے۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور دیگر شہدا یقینا اپنے بھائیوں کی جیت کا نظارہ دیکھ رہے ہوں گے۔ ان شاہ اللہ القدس بھی آزاد ہو کر رہے گا!!