حماس نے غزہ جنگ بندی کیلئے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی منظوری دے دی، میڈیا رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
DOHA:
فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے غزہ جنگ بندی کے لیے امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی منظوری دے دی۔
اسرائیلی ویب سائٹ ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق فلسطین اور اسرائیل کے عہدیداروں نے کہا کہ حماس نے غزہ جنگ روکنے اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی ہے تاہم حماس نے منظوری کو تحریری شکل میں پیش نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ اسرائیل کے عہدیداروں نے بتایا کہ دونوں فریقین نے معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے اور معاہدے کا باقاعدہ اعلان جلد کیا جائے گا۔
قبل ازیں بین الاقوامی خبرایجنسیوں نے بھی فلسطینی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ حماس نے معاہدے کی زبانی طور پر منطوری دے دی ہے تاہم بتایا گیا تھا کہ جنگ بندی سے متعلق تحریری طور پر آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں حماس کی جانب سے اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ بندی معاہدہ؛ 7 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کرنے پر اتفاق
اسرائیلی عہدیداروں نے میڈیا کو بتایا کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور غزہ میں موجود حماس کے رہنما نے منظوری دے دی ہے اور جلد ہی دونوں فریقین کی جانب سے باقاعدہ دستخط کردیے جائیں گے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزرا نے معاہدے کی توثیق کے لیے ممکنہ ووٹنگ کی تیاری کرلی ہے لیکن کابینہ کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ادھر حماس کے رہنماؤں کا اجلاس بھی ہوا جہاں تمام مسائل پر بات کی گئی ہے، جس میں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کی واپسی کے منصوبے کی تفصیلات کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ منگل کو دوحہ مذاکرات کے بعد غزہ جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات سامنے آئی تھیں، جس پر دونوں فریقین نے اتفاق کرلیا تھا اور یہ معاہدہ 3 مرحلوں پر مشتمل ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ معاہدے کے تحت حماس پہلے روز 3 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے اور اگلے ہفتے مزید 4 قیدیوں کی رہائی ہوگی اور مجموعی طور پر 34 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔
حماس کے اقدام کے نتیجے میں اسرائیل بھی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں وہ قیدی شامل ہوں گے جن کے حوالے سے حماس نے فہرست فراہم کردی اور اس فہرست میں ایک ہزار قیدیوں کے نام شامل ہیں۔
اسرائیل میں قید ان فلسطینیوں میں 190 ایسے قیدی ہیں جو 15 برس سے زائد عرصے سے صہیونیوں کی قید میں ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے معاہدے کی
پڑھیں:
غزہ جنگ بند کرنے کی ضمانت دیں تو تمام یرغمالیوں کی رہا کردیں گے؛ حماس کی پیشکش
حماس نے ثالث کاروں کے سامنے ایک بار پھر غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے قابلِ عمل حل کی پیشکش رکھ دی۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس کے ایک سینئر عہدیدار طاہر النونو نے کہا ہے کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ اسرائیل غزہ میں جنگ ختم کرنے، اپنی افواج واپس بلانے اور انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت دے۔
ان خیالات کا اظہار حماس کے نمائندے نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مصر، قطر اور امریکا کے ثالثوں سے مذاکرات کے بعد وطن واپس روانہ ہوتے ہوئے کیا۔
حماس کے سینئر رہنما نے اسرائیل پر جنگ بندی میں پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یرغمالیوں کی تعداد کا نہیں بلکہ اسرائیل کی طرف سے معاہدے پر عمل درآمد سے انکار اور جنگ جاری رکھنے کا ہے۔
ادھر، حماس کے رہنما طاہر النونو نے اسرائیل کی یہ بے جا شرط کہ حماس ہتھیار ڈال دے، کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کا ہتھیار ڈالنا ابھی مذاکرات کا موضوع ہی نہیں ہے۔
طاہر النونو نے یہ بھی کہا کہ حماس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے پر عمل کرنے کے لیے عالمی ضمانتیں دی جائیں۔
ادھر اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک نیا معاہدہ حماس کے سامنے پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت امریکا نے 10 زندہ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل کو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی ضمانت دی ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس وقت مذاکرات اس لیے تعطل کا شکار ہیں کیونکہ یرغمالیوں کی تعداد پر اختلافات ہیں۔ اس وقت بھی 58 افراد غزہ میں یرغمال ہیں جن میں سے 34 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال میں اسرائیلی مہم جو گروپ یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کا فورم نے مرحلہ وار رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طریقہ قیمتی وقت ضائع کرتا ہے اور تمام یرغمالیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ صرف ایک ہی موزوں اور مؤثر حل ہے اور وہ جنگ کا خاتمہ اور تمام یرغمالیوں کی ایک ساتھ فوری رہائی ہے۔
یاد رہے کہ پہلی جنگ بندی 19 جنوری کو شروع ہوئی تھی، جو دو ماہ چلی اور اس دوران قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ہوا تاہم یہ بعد میں ناکام ہوگئی۔