Daily Mumtaz:
2025-04-28@22:41:14 GMT

تمام ممالک شام کے معاملات سے دور رہیں، ترک صدر طیب اردوان

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

تمام ممالک شام کے معاملات سے دور رہیں، ترک صدر طیب اردوان

ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے شام کی موجودہ صورت حال پر تمام ممالک کو کسی بھی قسم کی مداخلت نہ کرنے کا مشورہ دیا  ۔
عرب میڈیا کے مطابق ترک صدر پارلیمان سے خطاب میں کہا کہ ہم شام میں دہشتگرد تنظیموں سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
ترک صدر نے کرد ملیشیا کو خطے میں امن کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام ممالک کو شام سے اپنے ہاتھ ہٹا لینا چاہیے۔
صدر طیب اردوان نے کہا کہ ترک فوجیں داعش اور کرد ملیشیا سمیت تمام شدت پسند تنظیموں کو پنپنے کا موقع نہیں دیں گے۔
ترک صدر نے کہا کہ اگر کرد ملیشیا نے ہتھیار نہ ڈالے تو وہ اپنے بھیانک انجام سے خبردار رہیں۔ ان کا آخری ٹھکانے تک پیچھا کریں گے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

پڑوسی ممالک کی دہشت گردی و آبی جارحیت

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 54 خوارج دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق یہ خوارج ’’ اپنے غیر ملکی آقاؤں‘‘ کے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے لیے دراندازی کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری جانب بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑنے سے دریائے جہلم میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔

 اس واقعے سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ افغانستان میں خارجی دہشت گردوں کو پناہ گاہیں میسر ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت انھیں کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون بھی نہیں کر رہی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی دہشت گرد تنظیموں کے لیے چھتری تنظیم بن رہی ہے، دہشت گرد تنظیمیں خطے اور دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔

ان خطرات میں القاعدہ، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسی تنظیمیں شامل ہیں، یہ تنظیمیں پاکستان اور خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہی ہیں، یہ تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت داری بھی کررہی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی سرحدی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کرتی ہے، ان حملوں میں پاکستانی فوجی، شہری اور ریاستی ادارے نشانہ بنتے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں کے نتیجے میں ہزاروں جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔

بی ایل اے اور مجید بریگیڈ بھی بلوچستان میں پاک چین اقتصادی تعاون کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہے، افغان عبوری حکومت خطے کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔دوسری جانب بھارت کی عالمی دہشت گردی صرف بلوچستان، پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ پورے خطے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ عالمی شواہد اور اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ ایک طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے تو دوسری طرف اس نے خود اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بھوٹان، سری لنکا، چین اور پاکستان میں بھارتی دراندازی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل اور دوست ممالک کے ساتھ دھوکہ دہی کے بے شمار واقعات عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اس کی شریک کار بن چکی ہے۔اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کر رہا ہے اور درپیش چیلنجز کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔

معاصر تاریخ میں اس کی دوسری مثال ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے کہ دو ہمسایہ ملک مل کر اپنے ایک ہمسایہ ملک میں دہشت گردی کرنے والوں کی اس طرح کھل کر اعانت کررہے ہوں۔ افغان طالبان اور بھارتی حکومت کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔ طالبان نے کابل سنبھالنے کے بعد وہیں سے کام شروع کیا جہاں بیس برس پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔ افغانستان ایک بار پھر بھارت کی جھولی میں جاکر بیٹھ گیا ہے اور طالبان حکومت پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کررہی ہے ۔

 پاکستان کبھی بھی بھارت سے کسی اچھے معاملے کی توقع نہیں کرسکتا۔ حالیہ آبی جارحیت بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ چند دن پہلے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں جب ایک لوکل علیحدگی پسند تنظیم نے مسلح کارروائی کر کے وادی میں موجود 25 سے زائد بھارتی سیاحوں کو ہلاک اور 10 کو زخمی کر دیا تو بھارتی حکومت نے اس حملے کا بھی ہمیشہ کی طرح بنا تحقیق و ٹھوس ثبوت، الزام پاکستان پہ لگاتے ہوئے رد عمل کے طور پہ دونوں ممالک کے درمیان موجود سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پہ معطل کرنے جیسا سنگین اقدام اٹھایا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدے کی روح کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی سالمیت پہ آبی جارحیت سے کم کچھ نہیں۔

بھارت دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں پر بھی 14چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے۔ اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا جا رہا ہے۔ جہلم پر12اور چناب پر مزید 20چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے اور یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ اس معاہدے کے چند برس بعد ہی اس کے تباہ کن نتائج پاکستان میں سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ راوی دریا ایک گندے نالے کی شکل اختیار کرگیا اور جنوبی پنجاب میں بھی دریا خشک ہوتے چلے گئے۔

اس کے ساتھ ہی بھارت نے یہ کیا کہ جب بھی سیلابی کیفیت پیدا ہوئی ان دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جس سے غیر متوقع طور پر پانی کے ریلے آ کر یہاں تباہی پھیلانے لگے۔ رتل اور کشن گنگا آبی بجلی کے منصوبے ہیں ۔ اس سے پاکستان کی طرف آنے والے پانی کی رسد مزید متاثر ہو رہی ہے ۔

پاکستان کے اعتراض کے باوجود بھارت نے ان منصوبوں پر کام مکمل کیا ہے اور دیگر منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانے کی اجازت نہیں ہے اور پاکستان پچھلے ایک دہائی سے مسلسل یہ اعتراض اٹھا رہا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ کشن گنگا ڈیم دریائے جہلم پر پاکستان کے حصے کے پانی کو روک رہا ہے جب کہ رتل ڈیم دریائے چناب پر ہے۔

غذائی تحفظ کا سب سے بڑا تعلق پانی کی فراہمی سے ہے اگر دریاؤں میں پانی روکا جائے تو کاشت کاری شدید متاثر ہوتی ہے جس سے فصل کم یا بالکل ختم ہوسکتی ہیں۔ بھارت کھلم کھلا کہہ چکا ہے کہ وہ اس معاہدے سے دست بردار ہورہا ہے ایسی صورت میں پاکستان یا عالمی بینک کچھ نہیں کرسکیں گے جیسا کہ کشمیر میں ہوا۔ سندھ طاس معاہدہ جتنا بھی بُرا سہی کم از کم اس میں کچھ ضمانتیں تو ہیں مثلاً یہ کہ کوئی بھی فریق تقسیم شدہ دریاؤں پر منصوبے ایک دوسرے کی رضا مندی کے بغیر شروع نہیں کرسکتا تاکہ اگر اعتراض ہو تو اسے کسی طرح حل کیا جائے۔ سندھ طاس معاہدے سے ملنے والا پانی پاکستان کی تقریباً پانچ کروڑ ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی بھارت کا وہ رویہ ہے جس کے تحت وہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت جموں کشمیر اور لداخ میں دریائے سندھ پر آٹھ نئے آبی منصوبے شروع کررہا ہے جن میں سات منصوبے لداخ میں اور ایک جموں کشمیر میں ہوگا۔ تقریباً تین ارب روپے کی لاگت سے لداخ میں در بکشیو آبی بجلی کا منصوبہ صرف ڈھائی سال میں مکمل ہونا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ پاکستان کی غفلت کا دخل بھی ہے کیوں کہ ہماری حکومتیں اعتراضات بہت دیر سے کرتی ہیں۔

 سندھ اور بلوچستان پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ دریائے سندھ کے جنوبی علاقے پانی سے بڑی حد تک محروم رہتے ہیں جن کے باعث ساحلی علاقوں میں سمندر کا پانی اوپر کی طرف آکر زمین کو شور زدہ کررہا ہے جس سے سجاول، ٹھٹھہ، بدین اور دیگر علاقوں میں کاشت کاری بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔

پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف یا بین الاقوامی ثالثی فورمز پر بھی لے جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہوئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو متاثرہ ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کرے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی خلاف ورزیوں کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرے اور معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں بھی لے جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں پاکستان کے لیے سفارتی اقدامات بھی اہم ہیں۔

پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھا کر دوست ممالک اور اتحادیوں کی جانب سے بھارت پر دباؤ بڑھا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق کرنے جیسے کسی اقدام سے باز رہے۔

متعلقہ مضامین

  • پڑوسی ممالک کی دہشت گردی و آبی جارحیت
  • پاک بھارت کشیدگی ،ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا پاکستانی عوام کیلئے اپنی بھرپور حمایت کا اعادہ
  • کینالوں کے حوالے سے وکلا کے احتجاج پر پولیس کے لاٹھی چارج پر تشویش ہے، علامہ شبیر میثمی
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزپیر،28اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزاتوار،27اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
  • پاک بھارت تعلقات میں نئی کشیدگی
  • امن کی شمع کو جلنے دو
  • طوفانی بارش اور آندھی کی پیش گوئی، الرٹ جاری کردیا گیا
  • ہمارے 100 اندرونی معاملات ہوں گے مگر پاکستان کی سلامتی کے لیے پوری قوم ایک ہے:شیخ رشید
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزہفتہ،26اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟