غاصب صیہونی رژیم کو درپیش نئے اسٹریٹجک چیلنجز
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: طوفان الاقصی آپریشن کی ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ اس نے غاصب صیہونی رژیم کو گوشہ نشین اور نفرت انگیز رژیم میں بدل کر رکھا دیا اور بین الاقوامی عدالتوں نے اسے ایک مجرم اور باغی رژیم قرار دے دیا۔ اسی سلسلے میں عالمی عدالت انصاف نے صیہونی حکمرانوں پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا جرم ثابت کر دیا اور صیہونی وزیراعظم اور سابق وزیر جنگ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔ مزید برآں، خطے اور دنیا کی اکثر اقوام اور حکومتیں جو غزہ جنگ سے پہلے اسرائیل کو جمہوری اقدار کا گہوارہ سمجھتی تھیں اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کر رہی تھیں، غزہ جنگ کے بعد اسے ایک مجرم اور قاتل رژیم قرار دینے لگیں۔ ان واقعات نے صیہونی کاز پر انتہائی کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ 76 برس سے تعیین شدہ اسٹریٹجک اہداف اور منصوبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تحریر: علی احمدی
2025ء کا سال شروع ہوتے ہی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع چیلنجز سے روبرو ہونے پر مجبور ہے۔ اگرچہ صیہونی رژیم کی معیشت بہت مضبوط ہے اور اس کے پاس جدید ٹیکنالوجیز بھی ہیں لیکن وہ سیکورٹی شعبے میں بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد اس کی سیکورٹی مشکلات مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کو ایسی شکست سے روبرو کیا جس کی مثال نہیں ملتی اور تل ابیب جارحانہ پالیسیاں چھوڑ کر دفاعی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ صیہونی رژیم کے سیاسی اور اسٹریٹجک ماہرین نے طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے سیکورٹی شعبے میں مختلف قسم کے اہداف کا تعین کر رکھا تھا لیکن اس آپریشن کے بعد ان کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے اور وہ اپنے اہداف پر نظرثانی پر مجبور ہو گئے۔
نیا سال شروع ہونے کے بعد غاصب صیہونی رژیم ایسے نئے چیلنجز سے روبرو ہے جو ماضی کے چیلنجز سے بالکل مختلف ہیں جبکہ پہلے والے چیلنجز بھی بدستور موجود ہیں۔ گذشتہ سال غاصب صیہونی رژیم اور ایران کے درمیان چند بار براہ راست فوجی ٹکراو انجام پایا ہے اور یہ خطرہ اب بھی صیہونی رژیم کے سر پر منڈلا رہا ہے جبکہ شمالی محاذ پر حزب اللہ لبنان کی تلوار بھی اس کے سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ صیہونی فوج حالیہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت ختم نہیں کر پائی ہے۔ اس خطرے کی سب سے اہم علامت یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع یہودی بستیوں سے نقل مکانی کرنے والے آبادکار اب بھی اپنے گھر واپس نہیں لوٹ پائے ہیں۔ دوسری طرف مغربی کنارے سمیت پورے مقبوضہ فلسطین میں مزاحمتی کاروائیاں جاری ہیں۔ ان سب سے ہٹ کر اس سال صیہونی رژیم کو جن نئے اسٹریٹجک چیلنجز کا سامنا ہے وہ درج ذیل ہیں:
1)۔ بین الاقوامی حیثیت کا زوال
طوفان الاقصی آپریشن کی ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ اس نے غاصب صیہونی رژیم کو گوشہ نشین اور نفرت انگیز رژیم میں بدل کر رکھا دیا اور بین الاقوامی عدالتوں نے اسے ایک مجرم اور باغی رژیم قرار دے دیا۔ اسی سلسلے میں عالمی عدالت انصاف نے صیہونی حکمرانوں پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا جرم ثابت کر دیا اور صیہونی وزیراعظم اور سابق وزیر جنگ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔ مزید برآں، خطے اور دنیا کی اکثر اقوام اور حکومتیں جو غزہ جنگ سے پہلے اسرائیل کو جمہوری اقدار کا گہوارہ سمجھتی تھیں اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کر رہی تھیں، غزہ جنگ کے بعد اسے ایک مجرم اور قاتل رژیم قرار دینے لگیں۔ ان واقعات نے صیہونی کاز پر انتہائی کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ 76 برس سے تعیین شدہ اسٹریٹجک اہداف اور منصوبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
2)۔ فوج کی ٹوٹ پھوٹ
غاصب صیہونی رژیم اپنے ڈھانچے میں صرف ایک ادارے کو مقدس قرار دیتی ہے اور وہ فوج ہے۔ صیہونی رژیم کا عقیدہ تھا کہ فوج پر کسی قیمت میں کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے لیکن گذشتہ چند سالوں میں اس عقیدے میں بہت حد تک تبدیلی آئی ہے اور صیہونی معاشرے میں فوج ایک متنازعہ ادارہ بن گیا ہے۔ اسی طرح اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جن میں کچھ سیاسی گروہوں کو کچلنے کا الزام بھی شامل ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں صیہونی فوج کو کئی میدانوں میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے اس کی طاقت اور صلاحیتوں میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف ان ناکامیوں کے باعث صیہونی فوج کے حوصلے بھی پست ہو گئے ہیں اور وہ شدید ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکار ہے۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر صیہونی فوج کی حیثیت کو شدید صدمہ پہنچا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر صیہونی معاشرے کا اعتماد بھی کم ہوا ہے۔ مستقبل میں خاص طور پر غزہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد غاصب صیہونی رژیم کے سیکورٹی اور فوجی ادارے کئی چیلنجز سے روبرو ہوں گے جن میں فوج کی رفتہ عزت و وقار کی بحالی اور یہودی آبادکاروں کا اعتماد بحال کرنا بھی شامل ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ گذشتہ چند برس میں فوجی اہداف کے حصول میں صیہونی فوج کی مسلسل ناکامیوں نے اس کی چہرہ بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ اگرچہ اس دوران صیہونی فوج کو محدود پیمانے پر کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں لیکن ناکامیوں کی مقدار اور شدت اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے اثرات غالب ہیں جن کے باعث فوج زوال پذیر ہو رہی ہے۔
3)۔ اندرونی سطح پر خلیج میں اضافہ
جب غاصب صیہونی رژیم کا ناجائز وجود قائم ہوا ہے اس کی حکمت عملی "سیکورٹی اور ترقی کی حامل جمہوری یہودی حکومت" کے قیام پر استوار رہی ہے تاکہ یوں اندرونی سطح پر اپنی بقا یقینی بنا سکے۔ دوسری طرف جب سے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند اتحادیوں کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات کا منصوبہ شروع ہوا ہے صیہونی معاشرے میں عظیم بھونچال رونما ہونے لگے ہیں۔ صیہونی معاشرہ اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے؛ ایک نیتن یاہو کی اصلاحات کا حامی اور دوسرا مخالف اور روز بروز ان دونوں دھڑوں کے درمیان خلیج اور دراڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حماس کی جانب سے بڑی تعداد میں اسرائیلی یرغمالی بنا لیے گئے اور ان یرغمالیوں کی آزادی کے مسئلے نے بھی صیہونی معاشرے کو دو لخت کر دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسے ایک مجرم اور صیہونی معاشرے بین الاقوامی صیہونی فوج نے صیہونی چیلنجز سے اور اس کے دیا اور کر دیا فوج کی رہی ہے ہے اور کے بعد جنگ کے
پڑھیں:
فلسطینیوں کا ساتھ دینا مسلمانوں پر فرض ہے، مولانا فضل الرحمان
جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ صیہونی جارحیت کے خلاف فلسطین کا ساتھ دینا مسلمانوں پر فرض ہے۔
جمعرات کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہودی فلسطینیوں کی مرضی سے بیچی زمینیوں پرآباد ہوگئے تو گلہ کیوں کیا جا رہا ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہودی پہلے صرف 2 فیصد زمین پر آباد تھے۔
خبر اپ ڈیٹ کی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل صیہونی فلسطین فلسطینی مسلمان مولانا فضل الرحمان