ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی معاشی صورت حال سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی طورپر سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے۔
اسلام آبادمیں 15 جنوری 2025 ورلڈ اکنامک فورم(ڈبلیو ای ایف)کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2025 نے پاکستان پر قابل اطمینان نقطہ نظر اور اعتماد کا اظہار کیا ہے جو اس کی سالانہ عالمی خطرات کی تشخیص کا حصہ ہے۔
یہ رپورٹ دنیا بھر کے 900 سے زائد ماہرین اور 11,000 ماہرین کے ایگزیکٹو اوپینین سروے پر مبنی ہے پاکستان میں مِشعل پاکستان نے فروری سے جون 2024 تک ایک تفصیلی ایگزیکٹو اوپینین سروے (EOS) منعقد کیا جس میں ملک کے کاروباری رہنماؤں کی آراء کو شامل کیا گیا۔
گلوبل رسک رپورٹ عالمی اور علاقائی منظرنامے کی تشکیل میں جغرافیائی، اقتصادی، ماحولیاتی، سماجی اور تکنیکی چیلنجز کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتی ہے دیگر ترقی پذیر معیشتوں کی طرح، پاکستان کو بھی پیچیدہ خطرات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹیجک لچک اور پالیسی میں جدت ضروری ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا  کہ مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ سے پاکستان کی معیشت کمزور ہو سکتی ہےجس سے سرمایہ کاری پر اعتماد اور ترقی کے امکانات متاثر ہو سکتے ہیں تاہم ملک نے حالیہ برسوں میں غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے معاشی چیلنجز کو مؤثر انداز میں سنبھالا ہے۔
پاکستان ماحولیاتی طور پر سب سے زیادہ متاثر ممالک میں سے ایک ہے جہاں بار بار آنے والی سیلاب، ہیٹ ویوز اور پانی کی قلت جیسے عوامل خوراک کی سلامتی، بنیادی ڈھانچے کی استحکام اور لوگوں کے روزگار کے لیے خطرہ ہیں۔
مشعل پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او)عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے عالمی غیر یقینی صورتحال میں مستقل طور پر لچک دکھائی ہے، اور گلوبل رسک رپورٹ 2025 ہمارے چیلنجز اور مواقع دونوں کو اجاگر کرتی ہے جیسے جیسے ہم اقتصادی تبدیلیوں، ماحولیاتی موافقت، اور تکنیکی ترقی کے ذریعے آگے بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے  کہا کہ پاکستان اختراعات کو فروغ دے کر، گورننس کو مضبوط بنا کر، اور علاقائی تعاون کو بڑھا کر زیادہ مستحکم بن سکتا ہےہمارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم خطرات کو مواقع میں کیسے بدلتے ہیں اگر درست پالیسیاں اور اجتماعی عزم موجود ہو، تو پاکستان خود کو ابھرتی ہوئی عالمی معیشت میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

ریجنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس کے قیام کی تجویز

تاریخ کے اُس حصے کا ذکر کرتے ہیں جس میں قدرتی آفات کے باعث انسانی اموات کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس اعتبار سے سائنس دانوں نے دس بڑی قدرتی آفات کا ڈےٹا اکٹھا کیا ہے جن مےں اےک کروڑ سے زائد انسان دےکھتے ہی دیکھتے لاشوں میں بدل گئے۔ یہ افسوسناک ڈےٹا پڑھنے کے بعد ایک اور لرزہ بھی طاری ہو جاتا ہے۔ ان دس بڑی مصیبتوں میں سے تین بھارت اور پاکستان میں آئیں جبکہ پانچ کا تعلق چےن سے ہے۔ گوےا ماڈرن ہسٹری کی آٹھ بڑی قدرتی آفات جنوبی ایشیا اور چین میں آئیں۔ آندھرا پردیش کے ساحلی علاقے ”کورنگا“ مےں 25 نومبر 1839ءکو سمندری لہرےں اچانک 40 فٹ سے زےادہ بلند ہوگئےں۔ اس سمندری طوفان کو ”انڈیا سائیکلون“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کے نتےجے مےں 3لاکھ افراد دنےا سے غائب ہوگئے۔ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں 12 نومبر 1970ءکا دن دنیا کے بدترےن سائےکلون کے حوالے سے ےاد رکھا جاتا ہے۔ اس خونی سائیکلون میں تقرےباً 5لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ انڈونیشیا کے ساحلی علاقے سماٹرا کے سمندروں کے اندر 26 دسمبر 2004ءکو 9.3 درجے کا زلزلہ پےدا ہوا جس کے نتےجے میں تارےخ کا خوفناک ترےن ”سونامی“ آےا جس نے جنوبی اےشےا کے بہت سے ملکوں کو متاثر کےا۔ اس بے رحم سونامی نے 2لاکھ 30ہزار سے زائد انسانوں کو نگل لیا۔ چین کے شمالی حصے میں 23 جنوری 1556ءکو 8درجے کا زلزلہ آےا جس مےں ساڑھے 8لاکھ لوگ مارے گئے۔ چےن مےں ستمبر 1887ءکو ”زرد درےا میں سےلاب“ آنے کے باعث 20لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بےٹھے۔ ”گانسو“ نامی زلزلہ چین میں 16 دسمبر 1920ءکو آےا جس نے 2لاکھ 36ہزار لوگوں کو مردہ بنا دےا۔ چین میں جولائی 1931ءکو ”سنٹرل چائنا فلڈ“ نے 37لاکھ چےنیوں کو ڈبو دےا ےا بیماریوں سے ہلاک کردےا۔ بعد مےں ہونے والی تحقےقات کے مطابق اس سےلاب سے 25فےصد چین زیراثر آےا اور 5کروڑ سے زےادہ چےنی متاثر ہوئے۔ چےن 28 جولائی 1976ءکے ”تانگ شان زلزلے“ کو نہےں بھولا جس مےں 2لاکھ 42ہزار چےنی موت کی نےند سو گئے۔ ان کے علاوہ چند دوسری خونی قدرتی آفات کا ذکر کرےں تو ان مےں 31مئی 1935ءکا دن کوئٹہ والوں کے لئے قےامت بن کے نمودار ہوا۔ اس دن کے زلزلے نے کوئٹہ میں رہنے والے ہزاروں لوگوں کو قبرستان پہنچا دےا۔ پاکستان مےں 8اکتوبر 2005ءکا دن آنسوﺅں سے بھرا ہوا ہے جب آزاد کشمےر کے زلزلے نے ہزاروں خاندانوں کو اےک سانس مےں نگل لےا۔ اس کے نتےجے میں 1لاکھ سے زائد قےمتی جانےں ضائع ہو گئےں۔ موسلا دھار بارشوں کے نتےجے مےں پنجاب، خےبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان مےں جولائی 2010ءمیں بدترین سےلاب آےا جس نے 2کروڑ سے زائد لوگوں کو متاثر کےا۔ بلوچستان کے ضلع آواران مےں 24 ستمبر 2013ءکو 7.7درجے کا زلزلہ آےا۔ اس علاقے مےں بہت کم آبادی کے باوجود 1ہزار لوگ مارے گئے جبکہ ہزاروں متاثر ہوئے۔ 25 اپرےل 2015ءکو نیپال میں 8درجے کے زلزلے نے ہزاروں زندگےوں کے چراغ بجھا دےئے اور سیکڑوں مضبوط عمارتوں کو تہس نہس کر دےا۔ نےپال کے اس زلزلے سے ٹھےک اےک برس پہلے 22 اپرےل 2014ءکو انٹرنےشنل آن لائن مےگزےن foreignpolicy.com نے اےک رپورٹ شائع کی تھی جس میں لکھا گیا کہ ”موسمی تبدےلےوں سے مستقبل مےں دنےا کا ہرکونہ متاثر ہوگا جوکہ گلوبل خوشحالی اور امن کو متاثر کرے گا۔ ےہ اثرات پوری دنےا پر مرتب ہوں گے لےکن ان کا سب سے زیادہ اثر جنوبی ایشیا کے ممالک پر ہوگا جن مےں افغانستان، بنگلہ دےش، بھوٹان، انڈےا، مالدےپ، نےپال، پاکستان اور سری لنکا شامل ہےں۔ دنےا بھر مےں جو ممالک قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں پہلے نمبر پر جنوبی اےشےا کا خطہ آتا
ہے۔ ان ممالک میں قدرتی آفات کی تباہی کے باعث دنیا کی 30 فےصد معےشت متاثر ہوئی۔ آنے والے برسوں مےں درجہ حرارت بڑھنے سے ان ممالک کے سمندروں مےں پانی کی سطح تقرےباً اےک مےٹر بلند ہو جائے گی جس سے خشکی کا بہت بڑا حصہ سمندر کے نےچے چلا جائے گا“۔ قدرتی آفت بتائے بغےر اچانک آتی ہے جس کا فوری سامنا کرنا امےر ترےن ممالک کے لئے بھی مشکل ہوتا ہے۔ قدرتی آفات کی پےشےن گوئےوں کو پڑھےں تو ڈراﺅنے خواب کی طرح ےہ حقےقت سامنے آتی ہے کہ جنوبی اےشےا سب سے زیادہ ان سے متاثر ہوگا۔ ےہ ممالک محنت کش لوگوں کے ملک ہےں جو بڑی مشکل سے اپنا گزربسر کرتے ہےں۔ ےہاں کی حکومتیں بھی غریب ہیں۔ جنوبی ایشیا میں آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی جاتی ہے۔ دنےا مےں مختلف مقاصد کے لئے مشترکہ سکیورٹی فورس بنانے کا رواج ہے۔ اگراےک نئی تجویز پر غور کےا جائے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک مستقبل کی قدرتی آفات سے بچنے کے لئے سارک فورم کی طرح اےک مشترکہ ”رےجنل ڈےزاسٹر مینجمنٹ فورس“ بنائےں تو اس کا براہِ راست فائدہ خود ان ممالک کو ہو گا۔ ےہ ممالک وسائل کی کمی کے باعث اچانک بڑی آفت سے نمٹنے کی انفرادی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ”رےجنل ڈےزاسٹر مینجمنٹ فورس“ کے تحت یہ ممالک مشترکہ فنڈ، اےک دوسرے کی ٹےکنالوجی، مشترکہ ماہرین اور اےک دوسرے کی افرادی قوت کے تجربات سے فوری ریلیف کی کارروائیاں شروع کر سکیں گے۔ چےن بھی جنوبی اےشےا کے ممالک کا قرےبی ہمساےہ ہے اور وہ خود بھی مستقبل کی قدرتی آفات سے زےادہ متاثر ہونے والے ملکوں مےں سے اےک ہے۔ اس لئے چین کو بھی ”رےجنل ڈےزاسٹر مینجمنٹ فورس“ مےں شامل کرنا چاہےے کیونکہ چین کی ٹےکنالوجی، افرادی قوت اور تجربات سے بے پناہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین کی اقتصادی راہداری سے اس خطے کی قسمت بدلنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اقتصادی راہداری کو دوسری حفاظتی تدابیر اور سکیورٹی کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات سے بچانا بھی ضروری ہو گا۔ اقتصادی راہداری رکھنے والے خطے کے غریب ملکوں کے لیے کم وسائل کی وجہ سے انفرادی حیثیت میں ا یسا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ لہٰذا ریجنل ڈیاسٹر مینجمنٹ فورس کی ضرورت ہر وقت محسوس ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • ورلڈ اکنامک فورم اور شہباز شریف کا پاکستان
  • ریجنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس کے قیام کی تجویز
  • آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک جاری کر دیا، پاکستان کی معاشی ترقی تین فیصد رہنے کا امکان
  • آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ جاری کر دی
  • مصنوعی ذہانت پر زیادہ انحصار سے انسانی ذہانت متاثر ہونے کا انکشاف
  • ورلڈ اکنامک فورم کا پاکستان کی معاشی صورتحال پر اعتماد کا اظہار
  • معاشی چیلنجز کے باوجود پاکستان معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے، ورلڈ اکنامک فورم
  • 2025 میں سب سے بڑا خطرہ کس چیز کا ہے؟
  • عالمی بینک کا پاکستان کو 40 ارب ڈالرز کی فراہمی کا اعلان