سندھ ہائیکورٹ نے کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دی
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
سندھ ہائیکورٹ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے خلاف مرحوم ملازم کے واجبات کی عدم ادائیگی پر کارروائی کرتے ہوئے کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ ڈی جی کے ڈی اے گزشتہ سماعت پر بھی پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی شوکاز نوٹس کا جواب دیا، جس پر عدالت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ، سندھ ہائیکورٹ نے ڈی جی کے ڈی اے کو 25 ہزار روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا، جبکہ ایس ایس پی شرقی کو وارنٹ کی تعمیل کرنے کی ہدایت بھی کی۔
سماعت کے دوران، ایم ڈی اے نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ مرحوم ملازم پہلے ایم ڈی اے میں کام کر رہے تھے اور بعد میں کے ڈی اے میں منتقل ہو گئے تھے، اور اب ان کے واجبات کی ادائیگی کے لیے مزید وقت دیا جائے۔
عدالت نے ایم ڈی اے کی درخواست پر غور کرتے ہوئے انہیں 18 جنوری تک واجبات عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ اس فیصلے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ عدالت ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سخت اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہے، اور اس نوعیت کی خلاف ورزیوں پر مزید سخت اقدامات بھی متوقع ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ملزمان کو گنجا کر کے ویڈیو اپلوڈ کرنے پر لاہور ہائیکورٹ پولیس پر برہم
---فائل فوٹولاہور ہائی کورٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیسے کسی بندے کو پکڑ کر گنجا کر کے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں، اس ملک میں کوئی قانون رہ گیا ہے یا نہیں؟
لاہور ہائی کورٹ میں قصور میں لڑکے اور لڑکیوں کی گرفتاری کے بعد ویڈیو وائرل کرنے کے کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالتی حکم پر ڈی پی او قصور لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو گنجا کر رہے ہیں اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں؟ پولیس کو یہ اختیار کس قانون نے دیا ہے؟
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ ڈی آئی جی کل پیش ہوں، ویڈیو میں بھارتی فلم کا کلپ مکس کر کے پولیس کے آفیشل سوشل میڈیا پیج پر اپلوڈ کیا گیا، آئی جی واقعے کی رپورٹ پیش کریں۔
ڈی پی او نے کہا کہ جس نے ویڈیو بنائی اس کو معطل کر دیا گیا ہے، جن لوگوں نے ویڈیو وائرل کی ان کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر دیا گیا ہے، ایس ایچ او کو بھی نوکری سے فارغ کرنے کی سفارش کر دی گئی ہے، آر پی او ایس ایچ او کو فارغ کر سکتا ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ عدالت کسی بھی قسم کے غیر قانونی کام کی اجازت نہیں دے گی، کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں مگر اس کے عمل کو پبلک کیوں کریں؟
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب حکومت کی جسمانی ریمانڈ کی اپیل پر سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو نوٹس جاری کر دیا۔
سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ تفتیشی افسر نے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی تھی۔
ڈی پی او نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ملزمان کو مقدمے میں سہولت دی، نوکری سے فارغ کرنے کی سفارش کی ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کیسی سہولت دی؟ کسی مذہب یا معاشرے میں ایسے عمل کی اجازت نہیں ہوتی۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ غیر اخلاقی سرگرمیوں، فارم ہاؤس پارٹیوں کا انعقاد ہوتا ہے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ ایسے کام کی کوئی اجازت نہیں، پولیس کو کارروائی کرنی چاہیے مگر ویڈیو بنا کر وائرل کرنے کی اجازت نہیں۔
ڈی پی او نے کہا فارم ہاؤس کا مالک فرار ہو گیا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کیا برآمد ہوا تھا؟ فارم ہاؤس کے مالک کو فرار نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ڈی پی او نے کہا کہ شراب کی بوتلیں برآمد ہوئی ہیں، ایس ایچ او کو فارم ہاؤس کے مالک کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے نوکری سے فارغ کرنے کی سفارش کی۔
عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی پیش ہوں گے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بتائیں گے دنیا میں کسی زیرِ حراست ملزم کو ایکسپوز کرنے کا قانون موجود ہے؟
عدالت نے قصور پولیس کے تفتیشی افسر صادق، کانسٹیبل اور ایس ایچ او کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔
جج نے کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر کیوں نہ پولیس والوں کو 6 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا جائے؟