رجب کے مہینے کے پہلے دن کے بعد سے یکم جنوری 2025 سے رمضان لمبار ک کے پہلے دن کی سرچ انجنز پر سب سے زیادہ تلاش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہےجس کا مسلمان دنیا بھر میں سال بھر انتظار کر تے ہیں۔ یہ ماہ مقدس اپنی روحانی اور مذہبی رسومات کی وجہ سے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔

فلکیاتی طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ ھجری کلینڈر کے نویں مہینے رمضان 1446 ھ کا پہلا دن ہفتے کے روز یکم مارچ 2025 ءکو ہوگا.

عرب اور اسلامی ممالک میں فتوئے کی رو سے 29 شعبان 1446 ءکو روہیت ہلال کا سرکاری سطح پر اہتمام کیا جائے گا جس پر رمضان کے مبارک مہینے کی تاریخ پر زور دیا جائے گا۔ بہت سے عرب اور اسلامی ممالک فلکیاتی رصد گاہوں کا استعمال کرتے ہوئے روہیت ہلال ک پر انحصار کرتے ہیں۔فلکیاتی حساب کتاب کے مطابق روزہ رکھنے کے مہینے کے آغاز کی صحیح تاریخ کا تعین کرنے کے لیے 28 فروری 2025 ءکے مطابق جمعہ 29 شعبان 1446 کو غروب آفتاب کے بعد روہیت ہلال کیا جائے گا۔ابتدائی فلکیات کے حساب کتاب کے مطابق فلکیاتی حساب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چاند تقریبا 37 منٹ کی مدت کے لئے قاہرہ آسمان میں نظر آئے گا ، جبکہ ابتدائی فلکیاتی حساب کے مطابق یہ مکہ مکرمہ کے آسمان میں 33 منٹ تک ظاہر ہوگا۔یہ توقع کی جارہی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے کے دوران عرب اور اسلامی ممالک میں روزے کے اوقات مختلف ہوں گے۔ ابتدائی دنوں میں روزے کے اوقات کم ہوں گے ، جس میں سعودی عرب سمیت بہت سے عرب ممالک میں ایک اندازے کے مطابق 13 گھنٹےکا روزہ ہو گا ، مصر ، امارات ، قطر اور کویت مقدس مہینے کے آخر میں 14 گھنٹے کا روزہ ہوگا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: مہینے کے کے مطابق

پڑھیں:

امن کی شمع کو جلنے دو

ہم امن کے خواہاں لوگ کس کرب سے گزر رہے ہیں یہ احساس کرنا آج بہت مشکل ہے کیونکہ پورا خطہ اک عجیب ہولناک اور جذباتی کیفیت میں مبتلا ہے،ہم امن پسندوں کے درد کو آج سمجھنا اتنا ہی مشکل درد ہے جیسے شکم مادر کے درد میں لوٹنے والی ماں کے احساس اور کیفیت کو سمجھنا،ہم امن کی آشا کے دیپ جلانے کی خواہش اور امید کے پیغامبر کیوں کر خطے کے امن کو تنگ نظر مذہب پرستی کی بھینٹ چڑھنے دیں۔

کیوں نہ ہم امن،پیار اور محبت کی منڈلیاں سجائیں اور اپنی نسل میں بٹوارے کی سوچ کی جگہ باہمی ربط اور مثبت سوچ کے دیے جلائیں،ایسا ممکن ہے اور ایسا ہو بھی سکتا ہے،بس صرف ہمیں اپنے لہجے اور گفتگو کو غور و فکر اور اپنا پن دینا ہے،نفرت کی تمام شاخوں کو کاٹ کر انسان کی حرمت اور عزت کو مقدم رکھنا ہے۔

جعفر ایکسپریس کا افسوسناک واقعہ ہو یا پہلگام کا متشدد واقعہ،ان دونوں واقعات کی کھوجنا مل بیٹھ کر کرنے سے ہی امن کی کرن سر ابھارے گی،ایسا آج بھی ممکن ہے کہ ہم آپس میں ایک پڑوسی کی طرح مل بیٹھ کر خطے سے نفرت،تشدد اور دوری کو ختم کرکے مل بیٹھ کر دہشت گردی کے تمام راستے بند کردیں اور خطے کی سیاسی اور معاشی آزادی کی جنگ مل بیٹھ کر طے کریں،یہ ممکن ہے کیوں کہ مشکل فیصلے کڑے وقت پر کرنا ہی دانشمندی کہلاتا ہے۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ کنول کی فطری صلاحیت حشرات اور پانی کے ضرر رساں کیڑوں سے لڑ کر جدوجہد کے نتیجے میں سارے منفی کرداروں کی روک تھام یا ٹانگ کھینچنے کے عمل سے بچتے بچاتے اپنے اعتماد اور صلاحیت سے نمو پا کر دنیا میں خوبصورتی اور عزم کا نشان بن کر’’کنول‘‘ بنتا ہے۔ اسی طرح ’’چنبیلی‘‘ کے پھول کی بھینی بھینی خوشبو شام سمے سے رات کے خنک پہر تک انسانی تخلیق کے وہ گوشے وا کر دیتی ہے جن سے دوستی، محبت، امن اور سنگی سے محبت بھرے جذبات کی آمیزش انسان پر وہ سحر طاری کردیتی ہے جو سب کے لیے امن و سکون کی شانتی کا پیغام ہوتا ہے۔

 سوچتا ہوں کہ ہم ’’کنول‘‘ کی خوبصورت جدوجہد اور چنبیلی کی جہاں کو معطر کردینے والی صلاحیت کو نجانے کیوں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے گریز پا ہیں، ہمارے ہاں جانے کیوں ماضی کی دانش کو کریدنے اور اس میں چھپے ہوئی زندگی کو دیکھنے اور غورکرنے کا رجحان کیوں تنزلی کی طرف جارہا ہے۔

کیا ٹیکنالوجی کی جدت نے واقعی ہماری دانش پرکاری ضرب لگادی ہے کہ ہم ماضی کی دانش پر غور و فکرکو مکمل بھول چکے ہیں، لگتا ایسا ہی ہے کہ آج کی نسل کو ٹیکنالوجی کی ترقی کی آڑ میں جہاں دانش پر غور و فکر سے روکا جا رہا ہے، وہیں نوجوان نسل جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے ایسا سرپٹ دوڑ رہی ہے کہ نہ اس میں سماج کو بنانے کی فکر ہے اور نہ ہی اہل دانش کے ان مثبت رویوں کو دیکھنے کی فرصت ہے جن پر غور و فکر پیدا کرنا آج کے سماج کا نہ صرف فرض ہے بلکہ اہل دانش کی فکر میں تحقیق کے بعد اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے۔

اب تو نوجوان نسل سماجی بیگانگی کے ایسے پھیرے میں مبتلا ہو چکی ہے جہاں وہ جھوٹ کو سچ، ملامت کو مزاحمت اور انتشار کو جدوجہد سمجھنے لگی ہے۔ اس مرحلے پر جب سماج سیاسی اور معاشی بے راہ روی کا شکار رہے گا تو خطے کی ترقی اور آپسی ہم آہنگی کے تخلیقی سوتے کیونکر پھوٹیں گے؟ ایسے ماحول اور جاں سوز لمحات میں میرے دیس میں شنگھائی سربراہی کانفرنس نے ایک مرتبہ پھر دو روٹھے پڑوسیوں کو ایک دوسرے سے باہمی ربط اور آپسی رشتوں کو مضبوط کرنے کا بہانہ فراہم کیا تھا، جس سے فائدہ اٹھایا جانا دراصل دانش کی فتح کہلایا جاسکتا تھا۔

پاکستان میں شنگھائی سربراہ کانفرنس کے اس اہم موقعے پر تو یہ ممکن تھا کہ بھارت اپنے قومی پھول ’’کنول‘‘ ایسا اور پاکستان اپنے قومی پھول ’’چنبیلی‘‘ ایسی مہک امن کی خاطر خطے کے امن پرور عوام میں اس طرح بکھیر دیں کہ دونوں ممالک کے عوام آپسی رشتوں کو ’’کنول‘‘ اور ’’چنبیلی‘‘ کی خوبصورتی اور تازگی مانند استوار کریں، خطے میں ’’چنبیلی‘‘ اور ’’کنول‘‘ کی سیوا کر کے ان دونوں قومی پھولوں ایسے رویے اپنی زندگی اور اپنے رہن سہن کا شعار بنا لیں۔ دونوں ممالک کے امن پرور عوام ہمیشہ سے ایک دوجے کے دکھ سکھ کے ساتھی اور ساجھے دار رہے ہیں اور ایسا ہونا آج بھی ممکن ہے۔

جب دس برس کے وقفے کے بعد شنگھائی سربراہ کانفرنس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر جی اسلام آباد آسکتے ہیں، بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ بھارت جاسکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے بیچ اہل دانش، صحافی، فن و ثقافت کے مہان فنکار اور کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کے کھلاڑی کیوں نہیں ایک دوسرے سے مل کر خطے کے ان دو ممالک کی معاشی، سیاسی اور امن و شانتی کی آشا کو ایک دوسرے کے عوام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

ایسا ہوسکتا ہے، ہوتا رہا ہے، پردھان منتری واجپائی کے امن کو بھارت کی سرکار خطے کی ترقی اور محبت میں تقسیم در تقسیم کرسکتی ہے، کیونکہ ایسا ہوتا رہا ہے جب پاکستان اور بھارت کے بچھڑے خاندان ویزے کی سہولت کے تحت ملے ہیں، ایک دوجے کے دکھ سکھ کی ساجھے داری اور رشتے داری کی ہے۔

یہ ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ پاک انڈیا فورم، سارک ممالک کے طلبہ وفود، اہل دانش اور صحافی ایک دوسرے کے ممالک میں آسانی سے آتے رہے ہیں اور محبتوں کو بڑھاتے رہے ہیں اور ایک دوجے کے ساتھاری رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں ممالک کی سرکار اور وزارت خارجہ کے بس میں یہ بات نہیں کہ معاشی محرومی کے شکار خطے کے دو پڑوسی ممالک کے عوام کی خوشحالی کو ’’کنول‘‘ مانند خوبصورت اور ’’چنبیلی‘‘ مانند امن اور محبت سے معطر کردیں؟ ایسا ہونا اس وقت ہی ممکن ہے جب عملی اقدامات کیے جائیں اور متنازعہ امور اور جنگی بیانات سے پرہیزکیا جائے۔بقول ساحر لدھیانوی کہ!

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لیے اے شریف انسانو

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

متعلقہ مضامین

  • لاہور کیلئے اعزاز، نیویارک، لندن، واشنگٹن، برلن، استنبول، پیرس سے زیادہ محفوظ قرار
  • رمضان ریلیف پیکیج کی کامیابی، سٹیک ہولڈرز کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، وزیراعظم
  • رمضان ریلیف پیکیج کی کامیابی، سٹیک ہولڈرز کی کاوشیں قابل تعریف، وزیراعظم
  • نریندر مودی بند گلی میں پھنس گیا، اب کیا ہوگا؟
  • کیا ایلون مسک 100 بچوں کے باپ ہیں؟ حیران کن انکشاف سامنے آگیا
  • کراچی میں آج بھی گرمی کی لہر، پارہ 38 ڈگری تک جانے کا امکان
  • یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟
  • امن کی شمع کو جلنے دو
  •  پشاور: شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد جانے والی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ، 5 افراد قتل
  • بھارتی ہائی کمیشن کا ناپسندیدہ قرار د یا جانے والا عملہ واہگہ بارڈر کے راستے واپس روانہ