غزہ جنگ بندی اور اسرائیل کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اس تمام تر صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ عملی جامہ پہنتا ہے تو بھی اسرائیل کو ایک بڑی شکست ہوگی اور اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہتی ہے تو پھر بھی اسرائیل خسارے میں ہے، یعنی اسرائیل ہر دو طرح سے ڈوب رہا ہے اور یہی غزہ جنگ بندی کا مستقبل اور نتیجہ نظر آتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
حالیہ دنوں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے 13 جنوری کو اپنی ایک تقریر میں اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں جنگی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ غزہ میں حماس کو ملٹری طریقوں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ حماس نے غزہ میں اپنے شہید ہونے والے جوانوں کی تعداد کے برابر یا زیادہ تعداد میں نئے نوجوانوں کی بھرتی کر لی ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب غزہ میں فلسطینی مزاحمت نے صیہونی فوجیوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے اور روز بروز بڑھتی کارروائیوں میں درجنوں صیہونی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں سے متعلق خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ جن میں چینل 14 اور اسرائیل ہیوم شامل ہیں، اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ گذشتہ چند ماہ میں چار سو سے زائد اسرائیلی فوجی غزہ کے محاذ پر ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ کارروائیاں خاص طور پر ایسے اوقات میں تیز ہوئی ہیں، جب یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کی طاقت کو ختم کر دیا گیا ہے، لیکن ان کارروائیوں نے اسرائیل کے تمام تر دعووں کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ امریکی عہدیدار کا بیان اگرچہ کسی حد تک امریکہ اور اسرائیل کی کمزوری کی عکاسی کر رہا ہے، لیکن ایک خطرہ اب بھی موجود ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب سیاسی عنوان سے غزہ کو حماس کے ہاتھوں سے چھین لینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے اور یقیناً ایسا ہی ہوگا، کیونکہ امریکہ ہمیشہ جنگ کے میدان میں شکست کے بعد سیاسی میدان میں اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کے پوری کوشش کرتا آیا ہے۔اس مرتبہ بھی شاید ایسا ہی کچھ ہو۔
بہرحال دوسری طرف سیاسی میدان بھی تیار نظر آرہا ہے کہ قطری وزارت خارجہ کے سرکاری ترجمان ماجد الانصاری نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر تباہی کی جنگ کو روکنے کے لیے ہونے والے مذاکرات “معاہدے کے حوالے سے آخری مراحل میں پہنچ چکے ہیں، لیکن ہمیں اس وقت تک زیادہ پرامید نہیں ہونا چاہیئے جب تک کہ ہم اس معاہدے کو حاصل نہیں کر لیتے۔‘‘ الانصاری نے دوحہ سے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ "ہم تفصیلات میں نہیں جائیں گے، لیکن مسودہ دونوں فریقوں کو پہنچا دیا گیا ہے۔ اب حتمی تفصیلات پر بات چیت جاری ہے۔ البتہ ابھی جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان ہونا باقی ہے اور یہ بات درست ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین معاہدے کے اصولوں پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔
حماس کا کیا مطالبہ ہے؟ حماس کے چند ایک موٹے موٹے مطالبات میں غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلاء ہے، قیدیوں کا تبادلہ ہے، جس میں لگ بھگ 1600 سے زائد قیدیوں کی فہرست اسرائیل کو پہنچا دی گئی ہے۔ اسی طرح غزہ میں آئندہ حکومت بنانے کے عنوان سے اسرائیل کی شرط ہے کہ غزہ میں مغربی کنارے جیسی اتھارٹی قائم ہو، یعنی حماس کا عمل دخل ختم ہو جائے، اسی طرح اسرائیل کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ حماس کے اعلیٰ کمانڈروں کو غزہ سے ملک بدر کیا جائے اور وہ کسی اور ملک میں جا کر رہ سکتے ہیں، جہاں ان کو نقصان نہ پہنچانے کی اسرائیلی ضمانت دی جا رہی ہے۔
حماس اور اسرائیل کے شرائط اور ایک دوسرے سے مطالبات کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ شاید یہ معاہدہ کبھی انجام پانے والا ہے ہی نہیں۔ کیونکہ نہ تو حماس نے ایسی کوئی شرط مان لینی ہے کہ جس کی وجہ سے خود حماس نہ صرف فلسطینیوں میں زیر سوال بن جائے اور ساتھ ساتھ حماس کے اندر بھی ایک اختلافی مسئلہ جنم لے۔ حقیقت میں اسرائیل کی یہ شرائط اس وجہ سے رکھی گئی ہیں کہ حماس کو اندر سے کمزور اور کھوکھلا کیا جائے، کیونکہ جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل جنگ کے میدان میں شکست کھا چکے ہیں اور اب سیاسی میدان یعنی مذاکرات کی میز پر میدان کی شکست کھائی ہوئی جنگ کو سازشوں کے ذریعے جیت کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔
میرے اپنے ذاتی تجزیہ کے مطابق حماس ایسی کوئی شرط قبول نہیں کرے گی کہ جس میں حماس کے عہدیداروں کو غزہ بدر ہونا پڑے، اسی طرح دس لاکھ سے زائد فلسطین رفح کراسنگ پر موجود ہیں، جن کو اسرائیل واپس آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا، تاہم اس معاہدے میں ایک اہم شرط یہ بھی موجود ہے۔ اگر حماس ایسی کسی شرط کو قبول کرے تو پھر خود حماس کی فلسطینی عوام میں سیاسی مقبولیت کا جنازہ نکل جائے گا۔ اب دوسری طرف خود غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی اپنی کیا حالت ہوچکی ہے؟ کیوں آخر جنگ بندی کے معاہدے پر بات شروع کی گئی ہے۔؟ ایک وجہ تو حماس کی از سر نو مزاحمتی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں مرنے والے صیہونی فوجی ہیں، دوسری اہم وجہ سیاسی میدان کی چال کے ذریعے وہ حماس کو ٹریپ کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے لبنان میں جال بچھایا تھا، لیکن ناکام ہوگئے تھے۔
تیسری وجہ شاید ٹرمپ بھی ہوسکتا ہے، جو نیتن یاہو پر دبائو بڑھا رہا ہوگا کہ جلد از جلد جنگ کو ختم کرو۔ چوتھی وجہ اسرائیلی فوج کا غزہ میں مزید جنگی زمینی کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکار کا مسئلہ بھی ہے۔ پانچواں مسئلہ خود اسرائیل کے غاصب حکومت کے عہدیداروں کی باہمی لڑائی اور اختلافات ہیں، یعنی آرمی چیف کو باقاعدہ وزیر جنگ نے ڈانٹ دیا ہے اور اسی طرح آرمی چیف نے اپنے نائب کے ساتھ شدید لڑائی کی ہے، جس کی خبریں اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہے۔ غاصب اسرائیل کے نام نہاد وزیر انصاف نے سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ لڑائی کی ہے اور اسی طرح دیگر عہدیداروں کی باہمی لڑائیوں کے قصے عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حزب اختلاف کے اہم عہدیدار لائبر مین کہتے ہیں کہ اگر نیتن یاہو نے غزہ جنگ میں یہی پالیسی جاری رکھی تو پھر اسرائیلی 2026ء تک نابود ہو جائے گا۔
ایسی متعدد اور بھی کئی وجوہات ہیں، جن کی بناء پر غاصب صیہونی حکومت کو مجبور ہو کر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑ رہا ہے، لیکن اس معاہدے کی آڑ میں دشمن کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح حماس کو اس معاہدے کے ذریعے سیاسی اور جنگی میدان سے آئوٹ کر دیا جائے اور اس کام کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر "ایتمار بن گویر" نے غزہ پر تباہی کی جنگ کو ختم کرنے کے معاہدے کی مخالفت کا اعلان کیا ہے، جسے انہوں نے مصر، قطر اور امریکہ کی قیادت میں بالواسطہ مذاکرات میں ٹھوس پیش رفت کی روشنی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ” قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں بن گویر نے اپنے اتحادی پارٹنر وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاہدے کی مخالفت میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں، "کیونکہ یہ حماس کو تسلیم کرنے کی نمائندگی کرتا ہے۔ بن گویر بہت پریشان نظر آیا، جب اس نے سموٹریچ کو مخاطب کیا کہ "آئیے وزیراعظم (بینجمن نیتن یاہو) کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کہ اگر وہ اس معاہدے کو منظور کرتے ہیں تو ہم حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بن گویر اور سمورٹریچ کی جماعتیں ایک فہرست کے ساتھ اسرائیلی کنیسٹ میں پہنچی ہیں، لیکن وہ دو الگ الگ جماعتیں ہیں۔
اسرائیلی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اسموٹریچ کو بن گویر کی دعوت قبول کرنے کی طرف راغب نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حکومت کو ختم کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ رائے عامہ کے جائزوں سے انھیں انتخابات میں کامیابی کی امید نہیں۔ بن گویر بھی اکیلے حکومت کو ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کے پاس 4 اراکین ہیں۔ اس کی تلافی "نیو ہوپ” پارٹی کے سربراہ گیڈون ساعر کریں گے، جنہیں نیتن یاہو نے حال ہی میں وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اور ان کے پاس یہ تعداد پوری ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر غزہ جنگ بندی کا معاہدہ عملی جامہ پہنتا ہے تو بھی اسرائیل کو ایک بڑی شکست ہوگی اور اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہتی ہے تو پھر بھی اسرائیل خسارے میں ہے، یعنی اسرائیل ہر دو طرح سے ڈوب رہا ہے اور یہی غزہ جنگ بندی کا مستقبل اور نتیجہ نظر آتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غزہ جنگ بندی کا اور اسرائیل بھی اسرائیل سیاسی میدان اسرائیل کی اسرائیل کے اس معاہدے نیتن یاہو معاہدے کی کا معاہدہ کو ختم کر کہ حماس حماس کے کے ساتھ حماس کو رہا ہے ہے اور کہ اگر تو پھر اور اس کے بعد کیا جا کیا ہے کہ غزہ جنگ کو
پڑھیں:
فائر بندی معاہدے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد اسرائیل نے غزہ پر حملے تیز کر دیے
واشنگٹن/دوحہ/غزہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 جنوری ۔2025 )فلسطینی علاقے کے رہائشیوں اور حکام نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے فائر بندی معاہدے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد غزہ پر حملے تیز کر دیے ہیں اور رات گئے غزہ میں شدید اسرائیلی بمباری سے 32 افراد ہلاک ہوگئے ہیں. عرب نشریاتی ادارے نے غزہ کے رہائشیو ں کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملے جمعرات تک کی صبح جاری رہے اور جنوبی غزہ میں رفح، وسطی غزہ میں نصیرات اور شمالی غزہ میں مکانات کو تباہ کر دیا اسرائیل کی فوج نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا.(جاری ہے)
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ابھی مکمل نہیں ہوا اور حتمی تفصیلات پر کام ہو رہا ہے ایک بیان میں کہاگیا ہے کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو معاہدے کی حتمی تفصیلات کی تکمیل کے بعد ہی ایک سرکاری بیان جاری کریں گے جس پر فی الحال کام ہو رہا ہے. نیتن یاہو نے واضح طور پر یہ نہیں کہا ہے کہ آیا وہ قطر کے وزیر اعظم اور صدر جو بائیڈن کی طرف سے چند گھنٹے قبل اعلان کردہ معاہدے کو قبول کرتے ہیں بیان میں نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ معاہدے کی حتمی تفصیلات جن پر فی الحال کام ہو رہا ہے جن کے مکمل ہونے کے بعد ہی وہ باضابطہ ردِعمل جاری کریں گے نیتن یاہو کا یہ بیان امریکہ اور قطر کی جانب سے اس معاہدے کے اعلان کے چند گھنٹے بعد آیا ہے جس سے غزہ میں 15 ماہ کی تباہ کن جنگ رک جائے گی اور درجنوں یرغمالیوں کے گھر جانے کی راہ ہموار ہو گی. ایک سینئر امریکی اہلکار کے مطابق مصر، قطر اور امریکی مذاکرات کار جنگ بندی معاہدے کے تمام پہلوﺅں پر عمل درآمد کی غرض سے مزید گفتگو کے لیے آج قاہرہ جائیں گے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ مذاکرات کار اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز ہیں کہ اسرائیل اور حماس دونوں پر توقعات واضح ہوں اور معاہدے پر عمل درآمد ممکنہ حد تک آسان کیا جائے حماس کے بعد غزہ کے دوسرے بڑے مزاحمت کار گروپ فلسطینی اسلامی جہاد نے جنگ بندی معاہدے کو باعزت قرار دیا. معاہدے پر عمل درآمد میں ممکنہ رکاوٹ سے بچنے کے لیے حماس کو گروپ کی حمایت کی ضرورت تھی فلسطینی اسلامی جہاد نے ایک بیان میں کہاکہ آج ہمارے لوگوں اور ان کی مزاحمت نے جارحیت کو روکنے کے لیے ایک باعزت معاہدہ کیا ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاہدے کے اعلان پر خوشی منانے والے فلسطینیوں کا ایک بڑا ہجوم نعرے لگاتا اور گاڑیوں کے ہارن بجاتا غزہ کی سڑکوں پر نکل آیا دیر البلاح میں نعرے لگانے والے ہجوم میں شامل ہونے سے قبل غزہ کے ایک رہائشی محمود وادی نے کہا کہ کوئی بھی اسے محسوس نہیں کر سکتا جو ہم اس وقت محسوس کر رہے ہیں یہ ایک ناقابلِ بیان احساس ہے. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکا اور فلسطین نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی تصدیق کی ہے معاہدے کی خبر کئی ہفتوں سے قطر کے دارالحکومت دو حہ میں جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد سامنے آئی ہے اس پیش رفت کے بعد امید پیدا ہو گئی ہے کہ غزہ میں پندرہ ماہ سے جاری تباہ کن جنگ آخر کار خاتمے کو پہنچے گی اور پچھلے سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے میں یرغمال بنائے گئے افراد رہا ہو جائیں گے اگلے ہفتے سبکدوش ہونے والے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی پر الوداعی تقریر میں امید کا اظہار کیا تھا کہ ان کی تجویز کردہ کے تحت جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے پر اتفاق بالکل قریب ہے. نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اسرائیل سے اغوا کیے گئے یرغمالوں کی رہائی پر زور د یتے ہو ئے کہا تھا کہ اگر ان کی 20 جنوری کو حلف برداری تک انہیں رہا نہیں کیا جاتا تو قیامت برپا ہو جا ئے گی واشنگٹن میں کانگریس کی ایک سماعت کے دوران سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے چیئر مین جم رش نے سب سے پہلے یہ خبر شیئر کی سینیٹر رش نے معاہدے کی خبر دیتے ہوئے کہاکہ اس سے قبل کہ ہم سب اس کی خوشی منائیں ہم سب چاہیں گے کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہوتا ہے ان کے ریمارکس کے جواب میں ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے کہاکہ یہ یقیناً ایک اچھی خبر ہے. اس طرح امریکہ کے ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن قانون سازوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا امریکہ، مصر اور میزبان قطر نے جنگ کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرت کی کئی ماہ تک ثالثی کی واضح رہے کہ کسی بھی معاہدے کو اسرائیلی کابینہ کی منظوری درکار ہو گی. قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے پر عمل درآمد 19 جنوری اتوار سے شروع ہوگا انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کی کامیابی کا دارو مدار اس پر ہو گا کہ اسرائیل اور حماس کہاں تک اس پر نیک نیتی سے عمل درآمد کرتے ہیں وہ قطر کی جانب سے ان مشکل مذاکرات کی کئی ہفتوں تک میزبانی کرنے کے بعد معاہدے کی تفصیلات بیان کر رہے تھے. نشریاتی ادارے نے تین امریکی اہلکاروں اور فلسطینی تنظیم حماس کے ایک اہلکار کے نام ظاہر کیے بغیر کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں ایک اہلکار کے مطابق معاہدے کے تحت ابتدا ئی طور پر غزہ میں جاری لڑائی میں چھ ہفتے کا وقفہ ہو گا اس دوران جنگ کے مکمل خاتمے پر مذاکرات کیے جائیں گے ان چھ ہفتوں کے دوران تقریباً ایک سو یرغمالوں میں سے 33 رہا کیے جائیں گے اور وہ کئی ماہ کی اسیری کے بعد اپنے پیاروں سے دوبارہ مل پائیں گے رہائی پا نے والے یرغمالوں میں دو امریکی شہری بھی شامل ہوں گے حماس کی اسیری کے دوران ان یرغمالوں کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا.