مذاکرات میں تلخی اس لیے کہ تھوڑا سا مرچ مسالہ بھی ہونا چاہیے، علی محمد خان
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ مذاکرات میں تلخی اس لیے ہے کہ تھوڑا سا مرچ مسالہ بھی ہونا چاہیے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے کہا کہ اس وقت این آر او حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مانگ رہی ہے ۔ ان کو این آر او چاہیے اور این آر او ایک ہی شخص دے سکتا ہے وہ ہے بانی چیئرمین پی ٹی آئی ۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ مذاکرات قریب آتے ہی تلخیاں کیوں بڑھ رہی ہیں، جس پر علی محمد خان کا کہنا تھا کہ تھوڑا سا مرچ مسالہ بھی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مسئلہ قوم کی بیٹی کا مسئلہ ہے۔ پی ٹی آئی اس معاملے میں حکومت کا پاکستان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ 20 جنوری سے پہلے حکومت یہ نیکی کر آئے ۔ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کے سامنے موثر طریقے سے آواز اٹھائی جائے ۔
علی محمد خان نے کہا کہ ہمارے دور میں بھی اس وقت کے اسیر اراکین قومی و سینٹ پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے۔ تناسب کے حساب سے دیکھیں تو اسد قیصر صاحب نے میاں شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال سمیت دیگر کے بھی پروڈکشن آرڈرز جاری کیے۔ انہوں نے پریشر میں پروڈکشن آرڈرز جاری کیے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ چار سال پتا نہیں کیا ہوگا کہ نہیں ، آپ جاتے جاتے عافیہ صدیقی کا مسئلہ حل کر جائیں۔ امت مسلمہ کی بیٹی 20 سال سے اغیار کے نرغے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا رزلٹ نکلنا چاہیے اور دونوں جانب سے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علی محمد خان پی ٹی آئی
پڑھیں:
سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) افغان طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے گزشتہ جمعے کو افغانستان میں چار افراد کو دی گئی سزائے موت کو اسلامی شریعت کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ قبل ازیں انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے ان چار افراد کو سرعام دی گئی سزائے موت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ سزائیں سن 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایک ہی دن میں دی جانے والی موت کی سب سے زیادہ سزاؤں میں سے تھیں۔ موت کی سزائیں کب اور کہاں دی گئیں؟افغانستان کی سپریم کورٹ نے چار افراد کو قتل کے جرم میں مجرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مقتولین کے اہل خانہ نے ملزمان کو معافی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا۔
(جاری ہے)
یہ سزائیں گزشتہ جمعے کو تین مختلف صوبوں نمروز، فراہ اور بادغیس کے اسٹیڈیمز میں ہزاروں تماشائیوں کے سامنے دی گئیں۔ طالبان کے جنگجوؤں نے بندوقوں سے فائرنگ کر کے ان سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
اخوندزادہ کا موقفاتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر اخوندزادہ کا ایک 45 منٹ کا آڈیو پیغام جاری کیا، جو انہوں نے جنوبی صوبے قندھار میں حج انسٹرکٹرز کے ایک سیمینار کے موقع پر دیا تھا۔
اخوندزادہ نے کہا، ''ہمیں نظم و ضبط کے لیے اقدامات کرنے، نمازیں پڑھنے اور عبادات کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام صرف چند رسومات تک محدود نہیں، یہ الہٰی احکام کا ایک مکمل نظام ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ خدا نے لوگوں کو نماز کے ساتھ ساتھ سزاؤں پر عملدرآمد کا بھی حکم دیا ہے۔ اخوندزادہ نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اقتدار یا دولت کے لیے جنگ نہیں لڑی، بلکہ ان کا مقصد ''اسلامی قانون کا نفاذ‘‘ ہے۔
انہوں نے ان سزاؤں پر عالمی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مغربی قوانین کی افغانستان میں ضرورت نہیں۔ سزاؤں پر عالمی ردعملاقوام متحدہ کی امدادی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) نے ان سزاؤں کو انسانی حقوق کی ''واضح خلاف ورزی‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر موت کی تمام سزاؤں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عوامی سطح پر سزائیں خوف پھیلانے اور طالبان کے سخت گیر نظریے کو مسلط کرنے کا ذریعہ ہیں۔
یو این اے ایم اے نے ان سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے شفاف عدالتی کارروائی، منصفانہ مقدمات اور ملزمان کے لیے قانونی نمائندگی کے حق کی ضرورت پر زور دیا۔گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان سزاؤں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ''یہ انسانی وقار اور حق حیات سے بنیادی طور پر متصادم ہیں۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ نے ان سزاؤں کو ''شدید پریشان کن‘‘ اور ''بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔
اس تنظیم کی افغانستان ریسرچر فرشتہ عباسی نے کہا کہ یہ واقعات عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک آزاد احتسابی نظام قائم کرے تاکہ ''ان غیر قانونی اقدامات کے ذمہ داروں‘‘ کو جواب دہ بنایا جا سکے۔ طالبان کی سابقہ پالیسیاںاخوندزادہ نے سن 2022 میں ججوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی شریعت کے تحت حدود اور قصاص کی سزاؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں۔
نومبر 2022 میں لوگر صوبے میں 12 افراد کو سرعام کوڑے مارے گئے تھے، جو طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اس طرح کی سزا کا پہلا مصدقہ واقعہ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے پہلے دور (1996-2001) میں بھی عوامی سطح پر دی جانے والی سزائیں عام تھیں اور موجودہ پالیسیاں اسی طرز کی طرف واپسی کا اشارہ دیتی ہیں۔ عالمی تعلقات پر اثراتاخوندزادہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب طالبان مغربی ممالک سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ امریکہ نے طالبان کے تین سینئر رہنماؤں بشمول وزیر داخلہ، جو ایک طاقتور نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں، کے سروں کے لیے رکھی گئی انعامی رقوم ختم کر دی تھیں۔ رواں سال طالبان نے چار امریکی شہریوں کو رہا کیا، جنہیں وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی ''نارملائزیشن‘‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی سطح پر سزاؤں نے طالبان کی ممکنہ بین الاقوامی قبولیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے۔ افغان عوام کے خدشاتافغانستان میں طالبان کے سخت گیر قوانین کے باعث خواتین کے حقوق، تعلیم اور آزادیوں پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ طالبان رہنما اخوندزادہ کی پالیسیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی ہے اور خواتین کی عوامی مقامات تک رسائی بھی محدود ہو چکی ہے۔
ادارت: مقبول ملک