Daily Ausaf:
2025-01-18@10:00:21 GMT

طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

جب 2021ء میں افغانستان میں امریکی اوراس کے اتحادی افواج کے مکمل انخلاکے نتیجے میں افغان طالبان اقتدارمیں آئے توپاکستان میں بیشتر سفارتی اورعسکری امورکے ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی خطے میں گرفت مضبوط ہوجائے گی کہ طالبان کی اس فتح میں جہاں پاکستان نے بے شمارقربانیاں دی بلکہ لاکھوں افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کرتے ہوئے اپنے ہاں پناہ بھی دی بلکہ ساری دنیا کوعلم ہے کہ اگرپڑوس میں پاکستان جیساوفادارملک نہ ہوتاتوافغانستان میں نہ صرف سوویت یونین کوشکستِ فاش ہوتی اوروہ عالمی طاقت کی کرسی سے اوندھے منہ گرکرچھ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتااورنہ ہی امریکااوراس کے اتحادی اس طرح رسواہوکرراہِ فراراختیارکرتے لیکن کیا وجہ ہے کہ ان تمام قربانیوں کے باوجوددونوں برادرمسلم ممالک کے باہمی تعلقات شدید تنائوکاشکارہیں اوربدنصیبی سے یہ سارامعاملہ طالبان کے اقتدارسنبھالنے کے بعدسے شروع ہے۔
اگست2021ء میں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تواس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہاتھاکہ افغانستان کے عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں۔واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے5ستمبر2021ء کوکابل کااچانک دورہ کیاتھاجس کی تصاویربھی میڈیاکی زینت بنی تھیں جوکہ اس ادارے کے سربراہ کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کاخمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہاہے۔ان دنوں وہ بھی کورٹ مارشل کی زدمیں اپنے ہی سابقہ ادارہ کی تحویل میں ہیں۔ ان تصاویر اورویڈیوزمیں ہوٹل کی لابی میں چائے کا کپ تھامے صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے ’’پریشان نہ ہوں ،سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘کے الفاظ ادا کئے تھے لیکن ان کے اس عمل نے پاکستان کی پریشانیوں میں حددرجہ اضافہ کردیا۔
لیکن پچھلے3سالوں میں چیزیں تیزی سے بدلی ہیں۔اب بظاہرپاکستان اورطالبان آمنے سامنے ہیں۔پاکستان بارہاکابل سے مطالبہ کر چکاہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے خلاف کارروائی کرے جوافغان سرزمین کوپاکستان میں حملوں کے لئے استعمال کررہی ہے۔طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کررہی ہے۔گذشتہ برس دسمبر کے اواخرمیں پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس پرمبنی فضائی آپریشن کیاتھاجبکہ افغان طالبان حکومت نے اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اورخبردارکیاتھاکہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لئے سرخ لکیرہے اوروہ اس کا جواب دے گا،جس کے بعدپاکستان کی حدودمیں واقع سرحدی چوکیوں پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے۔جبکہ پاکستان کے الی دشمن انڈیانے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ’’فضائی کاروائی‘‘کی مذمت کی کیونکہ انڈیااس خطے میں اپنے آقا امریکاکی پالیسی پر مکمل طورعملدرآمدکررہاہے۔
جہاں ایک طرف افغانستان میں طالبان کی اقتدارمیں واپسی کے بعدپاکستانی حکومت حالات میں بہتری کاسوچ رہی تھی وہیں یہ بھی سمجھاجارہا تھاکہ اس پیش رفت سے انڈیاکو سفارتی اورخطے میں اثرورسوخ کے اعتبارسے دھچکاپہنچاہے۔تاہم حالیہ دنوں میں اب ایک بارپھرانڈیااورافغان طالبان میں بڑھتی قربت پاکستان کے لئے ایک سرخ لکیربنتی جارہی ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کارخصت ہوناانڈیاکے لئے بڑا دھچکاسمجھاجارہا تھا۔ایسالگتاتھاکہ انڈیانے غنی دور حکومت میں افغانستان میں جواربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے وہ ضائع ہوجائے گی لیکن گذشتہ چندمہینوں میں انڈیاکے طالبان کے ساتھ رابطے بڑھے ہیں اورایک بار پھرافغانستان اورانڈیاکے تعلقات میں گرمجوشی نظرآرہی ہے۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے 8 جنوری کودبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ممالک نے تجارتی سرگرمیوں کوفروغ دینے اور تعاون کومضبوط بنانے پراتفاق کیاہے۔طالبان کی وزارت خارجہ نے کہاہے کہ افغانستان انڈیاکوایک اہم علاقائی اوراقتصادی شراکت دارکے طورپر دیکھتا ہے۔یادرہے کہ2021ء میں طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعدیہ ان کی انتظامیہ کی انڈیاکے ساتھ اب تک کی اعلیٰ ترین سطح کی ملاقات تھی۔ افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہاکہ ایران کی چابہاربندرگاہ کے ذریعے انڈیاکے ساتھ تجارت بڑھانے پربات چیت ہوئی ہے۔انڈیاایران میں چابہار بندرگاہ بنارہاہے تاکہ پاکستان کی کراچی اورگوادر پورٹ کوبائی پاس کرکے افغانستان،ایران اوروسطی ایشیاکے ساتھ تجارت کی جا سکے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے وکرم مصری سے ملاقات کے بعدجاری کردہ بیان میں مزیدکہا ہے کہ ’’ہماری خارجہ پالیسی متوازن ہے اورمعیشت کو مضبوط بنانے پرمرکوزہے۔ ہمارا مقصدانڈیاکے ساتھ سیاسی اوراقتصادی شراکت داری کومضبوط بناناہے۔ دوسری جانب اس ملاقات کے بعدانڈیاکی وزارت خارجہ نے کہاہے کہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کودوبارہ شروع کرنے پر غورکیاجارہاہے اورتجارت بڑھانے پربھی بات ہوئی ہے۔یادرہے کہ پاکستان سمیت دنیاکے کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیااورانڈیابھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔
دبئی میں طالبان اورانڈیاکے درمیان ہونے والی ملاقات پرپاکستان کی وزارت خارجہ نے کوئی باضابطہ ردعمل ظاہرنہیں کیاہے تاہم خارجہ امورکے ماہرین اورتجزیہ نگاروں نے اس پیش رفت کو پاکستان کے لئے ایک اہم پیغام کے طورپردیکھا ہے۔انڈیاکے انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘ میں پاکستان کے لئے نامہ نگارنروپماسبرامنیم نے لکھاہے کہ’’دریائے کابل پربننے والا شہتوت ڈیم طالبان کی ترجیح ہے۔انڈیااور افغانستان کے درمیان 2020ء میں اس ضمن میں 250 ملین ڈالرکے ایک منصوبے پرمعاہدہ ہواتھالیکن طالبان کے آنے کے بعد معاملات ٹھپ ہوگئے تھے۔طالبان اب انڈیاسے اس منصوبے کومکمل کرنے کاکہہ رہے ہیں‘‘۔
امریکاکی یونیورسٹی آف البانی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسرکرسٹوفرکلیری نے لکھاہے کہ کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی سازپاکستان کوکہتے رہے ہیں کہ طالبان کی حمایت کرنا حکمت عملی کے لحاظ سے شائد ہی فائدہ مندہوگا۔اب چیزیں واضح ہوکر سامنے آرہی ہیں‘‘۔پاکستان کی توقعات کے برعکس،کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہواہے۔پاکستان سینٹرفارکانفلیکٹ اورسکیورٹی کے مطابق2024ء میں نومبرکے مہینے میں سب سے زیادہ حملے ہوئے جن میں240افراد ہلاک ہوئے جن میں تقریبا70سکیورٹی اہلکارشامل تھے۔
امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹرکے جنوبی ایشیاانسٹیٹیوٹ کے مطابق’’ کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ طالبان کے ساتھ انڈیاکی بڑھتی ہوئی قربت افغانستان میں پاکستان کوشکست دینے کی کوشش ہے لیکن اس کاایک عملی پہلوبھی ہے کہ انڈیانہیں چاہتاکہ افغانستان کی سرزمین انڈیامیں دہشتگردانہ حملوں کے لئے استعمال ہو۔اس کے علاوہ انڈیاایران کے چابہارکے ذریعے افغانستان کے ساتھ رابطے بڑھانا بھی چاہتاہے۔انڈیابھی یہاں سے وسطی ایشیاء پہنچ جائے گا۔انڈیاکی اس کوشش کی بنیادپر وہاں کے لوگوں کااعتمادبھی بڑھے گا۔پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان افغانستان میں اپنے مخالفین پرقابوپالیں لیکن طالبان ایساکرنے کے موڈمیں نہیں ہیں اوراس کافائدہ انڈیاکومل رہاہے لیکن انڈیااورطالبان کے تعلقات کو پاکستان کے تناظرمیں نہیں دیکھناچاہیے‘‘۔
انڈیاکے انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘کے بین الاقوامی ایڈیٹرسٹینلے جانی کے مطابق’’انڈیا اور طالبان 2021ء میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ برقراررکھناچاہتے تھے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔انڈیانے افغانستان میں سرمایہ کاری کی ہے اوراسے دہشت گردی پربھی تحفظات ہیں۔ پاکستان فیکٹربھی اہم ہے۔ طالبان پاکستان کی مداخلت سے آزادرہناچاہتے ہیں اوریہ انڈیاکے لئے ایک موقع ہے۔اس کایہ مطلب نہیں کہ انڈیاطالبان کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کی جلدی میں ہے۔یہ بین الاقوامی معاہدے کے بعدہی ہوگالیکن انڈیا اور طالبان رابطے برقراررکھیں گے اورآہستہ آہستہ نئے مواقع تلاش کریں گے۔
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کاکہناہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بری طرح ناکام ہوچکی ہے اوربظاہراس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ایک ہی وقت میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اورتعلقات بڑھانے کی بات ہورہی ہے اورساتھ ہی حملے بھی ہورہے ہیں۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کی وزارت خارجہ نے افغانستان میں میں طالبان کی کہ افغانستان افغانستان کے افغانستان کی میں پاکستان پاکستان کے پاکستان کی کہ طالبان طالبان کے کی حکومت کے ساتھ کے لئے

پڑھیں:

حکومت حماس کو فسلطینیوں کا نمائندہ تسلیم کرے، سابق امیر جماعت اسلامی

لاہور:

جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سراج الحق نے اسلامی ممالک سے اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے اور حکومت پاکستان سے حماس کو فلسطینیوں کا نمائندہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے لاہور سے جاری بیان میں کہا کہ حکومت پاکستان حماس کو فلسطینیوں کا نمائندہ تسلیم کرے اور حماس کی قیادت کو دورہ پاکستان کی دعوت دی جائے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلامی ممالک اسرائیل کا بائیکاٹ کریں اور غزہ کی تعمیر نو میں مدد دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 58 اسلامی ممالک نے اہل فلسطین کے حوالے سے بے حسی کا ثبوت دیا ہے، حماس کی مزاحمت نے اسرائیل اور امریکا کے گٹھ جوڑ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

سراج الحق نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدہ حماس کی فتح ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد کانفرنس کا نشانہ امارات اسلامیہ افغانستان تھی،تنظیم اسلامی
  • حکومت حماس کو فلسطینیوں کانمائندہ تسلیم کرے‘ سراج الحق
  • حکومت حماس کو فسلطینیوں کا نمائندہ تسلیم کرے، سابق امیر جماعت اسلامی
  • چینی حکومت سائبر جرائم کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے پرعزم ہے، وزارت خارجہ
  • چین اور آسیان ممالک مشترکہ طور پر الیکٹرانک فراڈ  جیسے جرائم کا مقابلہ کریں گے، چینی وزیر خارجہ
  • چین نئی امریکی حکومت کے ساتھ اختلافات کو مناسب طریقے سے  حل کرنے کے لئے تیار ہے، وزارت خارجہ
  • مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں بہتری کے نریندر مودی کے دعوے حقیقت کے برعکس ہیں، غلام محمد صفی
  • روس ہمارے ریجن میں لیڈر بن سکےگا؟
  • پاکستانی وفد کی چیئرپرسن خارجہ امور کمیٹی یورپین پارلیمنٹ ڈیوڈ میک کلسٹر سے ملاقات
  • پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین دفاعی تعاون اور شراکت داری پر غور