Daily Ausaf:
2025-04-16@11:41:12 GMT

سائنس اور مذہب: کیسے اور کیوں کا سوال

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
جہاں تک خیر و شر کا تعلق ہے، اس کا معیار قائم کرنے کے لیے ہمیں بہت گہرائی میں جانا ہو گا۔ اس لیے کہ مغرب نے تو خیر و شر کا معیار یہ قرار دے دیا ہے کہ جس کو سوسائٹی قبول کرے وہ خیر ہے، اور جو چیز سوسائٹی کے لیے قابلِ قبول نہ ہو وہ شر ہے۔ مگر اسلام اس معیار کو قبول نہیں کرتا اور وہ مغرب سے کہیں زیادہ دوسرے تناظر میں خیر و شر کے معیار کا تعین کرتا ہے۔
اسلام صرف یہ نہیں دیکھتا کہ ایک معاملہ اس کے دو فریقوں کے مابین قابلِ اعتراض نہیں ہے تو وہ درست ہے، بلکہ اسلام اس سے آگے بڑھ کر سوسائٹی کے نفع و نقصان کو بھی دیکھتا ہے۔ اور اگر دو افراد یا طبقات کے مابین کسی باہمی معاملہ پر اتفاق سوسائٹی کے لیے مجموعی طور پر نقصان دہ ہے تو اسلام اس کو جائز معاملہ تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کسی معاملے کے خیر و شر ہونے کو صرف دو افراد یا دو فریقوں کی باہمی رضامندی کے حوالے سے نہیں دیکھتا بلکہ سوسائٹی پر اس کے مجموعی اثرات کے مثبت یا منفی ہونے کا لحاظ بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ صرف حال کے نفع و نقصان کی بنیاد پر کسی چیز کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس کے مستقبل کے امکانات کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کا مستقبل صرف اس دنیا میں اس کی باقی ماندہ زندگی کا نام نہیں ہے، بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی انسان کا اصل مستقبل ہے۔ اور اسلام کسی بھی چیز کے خیر یا شر ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے انسان کی دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی کا بھی پوری طرح لحاظ کرتا ہے۔
اس لیے خیر و شر کے تعین میں اسلام کا تناظر انتہائی جامع اور وسیع ہے، اور اسی کی روشنی میں طے کیا جانے والا خیر و شر ہی حقیقی طور پر خیر و شر ہے۔ امام غزالیؒ نے ’’مصلحت‘‘ کا معیار بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مصلحت صرف وقتی نفع کا نام نہیں ہے بلکہ انسانی سوسائٹی کے فطری مقاصد کی پاسداری کا نام ہے، اور یہ فطری مقاصد امام غزالیؒ کے نزدیک پانچ ہیں: (۱) دین و عقیدہ کا تحفظ (۲) جان کا تحفظ (۳) عزت کا تحفظ (۴) مال کا تحفظ (۵) اور نسب و خاندان کا تحفظ۔ اس لیے جو چیز ان فطری مقاصد میں سے کسی ایک کو بھی نقصان دیتی ہے اسے مصلحت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میں دو مثالوں سے اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا:
مغرب نے سود کو اس بنا پر جائز قرار دے رکھا ہے کہ یہ دو افراد کا معاملہ ہے جس پر سوسائٹی کو اعتراض نہیں۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ دو افراد کے باہمی رضامندی کے معاملہ اور سوسائٹی کی طرف سے اعتراض نہ ہونے کے باوجود چونکہ سود اپنے حتمی نتیجے کے حوالے سے انسانی سوسائٹی کے لیے نقصان دہ ہے کہ اس سے دولت کا ارتکاز جنم لیتا ہے، جیسا کہ جدید معاشی ماہرین کھلم کھلا کہہ رہے ہیں، اس لیے یہ ایک جائز معاملہ نہیں ہے اور اسے درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح زنا مغرب کے نزدیک دو افراد کی باہمی رضامندی کی صورت میں کوئی جرم نہیں، کہ اسے جرم قرار دینا دو افراد کی باہمی آزادانہ رضامندی میں دخل اندازی تصور ہو گا۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ دو متعلقہ افراد کی باہمی رضامندی کے باوجود چونکہ زنا سے رشتوں کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ رشتوں کا وجود ہی قائم نہیں رہتا، کیونکہ جہاں سنگل پیرنٹ کے قانون کے ذریعے باپ کے رشتے کو غیر ضروری قرار دے دیا گیا ہو، وہاں باقی رشتوں کا کون سا تصور باقی رہ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مشاہدہ میں ہے کہ مغرب میں فیملی سسٹم کی تباہی کا سب سے بڑا سبب زنا ہے، اس لیے اسلام اس عملِ بد کی کسی حالت میں اجازت نہیں دیتا۔
ہمارے ہاں مذہب اور سائنس کے حوالے سے اگر کسی درجہ میں کنفیوژن پایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد ہے یا کسی سطح پر کوئی ٹکراؤ ان میں پایا جاتا ہے، بلکہ ہمارا اصل مسئلہ ہماری بے علمی اور بے خبری ہے۔ جو لوگ سائنس کا علم رکھتے ہیں وہ مذہب کے علم سے بے خبر ہیں، اور جو دین کا علم رکھتے ہیں وہ سائنسی علم اور معلومات سے بے بہرہ ہیں، جس کی وجہ سے یہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے بلا وجہ اختلاف رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں طبقے اگر ایک دوسرے سے صحیح طور پر استفادہ کریں تو یہ آپس میں معاون ہو سکتے ہیں، اور یہ ملک اور دین دونوں حوالوں سے آج ہماری سب سے بڑی ضرورت بھی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: باہمی رضامندی سوسائٹی کے اسلام اس دو افراد کی باہمی نہیں ہے کا تحفظ کے لیے اس لیے

پڑھیں:

رواں مالی سال کے آخر تک ترقیاتی بجٹ کا 1 ہزار ارب خرچ ہو جائے گا: احسن اقبال

  وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال—فائل فوٹو

وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال 2900 ارب روپے تک پی ایس ڈی پی رکھنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ تمام ترقیاتی کام مکمل کرنے کے لیے فنڈز تو چاہیے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے آخر تک ترقیاتی بجٹ کا ایک ہزار ارب خرچ ہو جائے گا ۔

شعبۂ سائنس میں ترقی کیلئے ڈیجیٹلائزیشن ضروری ہے: احسن اقبال

وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ سائنس کے شعبے میں ترقی کے لیے ڈیجیٹلائزیشن ضروری ہے۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پی ایس ڈی پی میں 260 کے قریب سست رفتار منصوبے ختم کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • چیئرمین واپڈا سے سوال پر ثناء مستی خیل کا میٹر اتار لیا گیا، پی اے سی چیئرمین کا اجلاس نہ چلانے کا اعلان
  • اسلام آباد: حکومتی ادارے قانون کی خلاف ورزی کیسے کر رہے ہیں؟
  • کوچۂ سخن
  • کینسر ہوگا یا نہیں، یہ بات لائف اسٹائل کیسے طے کرتا ہے؟
  • ڈائریکٹر جنرل پی ایس کیو سی اے کی تعیناتی کیلئے تین نام وزیراعظم کو ارسال
  • ہمیشہ سے نیلے نہیں تھے بلکہ۔۔۔سمندر اربوں سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ؟سائنسدانوں کا نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف
  • رواں مالی سال کے آخر تک ترقیاتی بجٹ کا 1 ہزار ارب خرچ ہو جائے گا: احسن اقبال
  • پی ایس ایل؛ 43 سالہ شعیب ملک کے کھیلنے پر سابق کرکٹر نے سوال اُٹھادیا
  • ڈائریکٹر جنرل ’پی ایس کیو سی اے‘ کی تعیناتی کیلئے تین نام وزیراعظم کو ارسال
  • آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ