Daily Ausaf:
2025-04-13@15:25:37 GMT

’’جدید علمیات اور جدید علم کلام‘‘سے آگے بھی کچھ ہے !

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

معروف سکالر محمد ابوبکر صدیق اپنے ایک طویل مضمون ’’جدید علمیات اور جدید علم کلام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جدید علم جس حقیقت کو تشکیل دیتا ہے یہ وہ حقیقت نہیں جس کا عرفان حاصل کرنا قدیم علم کا بنیادی مقصد ہوا کرتا تھا جبکہ سیکولر علم اپنی مخصوص حدود اور اہداف کے اندر رہتے ہوئے اس مطلق حقیقت کو اس طرح دیکھ ہی نہیں سکتا نہ ہی قدیم عملیات کی طرح اس موضوع پر کوئی حتمی دعویٰ پیش کرنے کا اہل ہے‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قدیم جدید علم کا بنیادی مقصد حقیقت مطلق ultimate Reality کا عرفان اور اس کے ساتھ انسانی تعلق کی وضاحت کرنا تھا ،جس کے نتیجے میں یہ علم اپنی نوعیت میں کلی نوعیت کا حتمی دعویٰ رکھتا تھا۔جبکہ جدید علم کی اساس سیکولر بنیاد پر رکھی گئی ہے اوراس کا منطقی دائرہ کار محدود ہے اور تجرباتی اور مشاہداتی اصولوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے بلکہ جدید علم اس حد تک محدود ہے کہ حقیقت مطلق کو اپنا موضوع ہی نہیں بناسکتا کہ اس کے پاس کوئی ماورائی فریم ورک ہی نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر کوئی حتمی دعویٰ کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عملیات کے پاس قدیم علمیات کی طرح کوئی روحانی پہلو نہیں اور نہ وہ ایسا پہلو تلاش کرنے پر یقین رکھتی ہے جو اسے حقیقت مطلق تک پہنچنے کا راستہ دے۔کیونکہ حقیقت مطلق ایسا تصور ہے جو علمی اعتبار سے تجربے اور فکر کے درجے پر انحصار کرتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہر شے کی اصل ہے اور اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہے ۔
مطلق حقیقت کو سمجھنے اور پانے کے لئے روحانی فکری سفر کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کے کچھ اپنے زاویئے ہوتے ہیں ۔مثلاً ’’فلسفہ ‘‘جس میں مطلق حقیقت وہ ہے جو خود اپنے وجود سے وابستہ ہوتی ہے اور تمام ظاہری حقائق کا اولین ماخذ ہے۔ایسی حقیقت شکوک وشبہات تغیر تبدل سے ماورا ہوتی ہے۔ جس کے لئے ہم ہندو فلسفے میں ’’برہمن‘‘ اور افلاطون کے حوالے سے ’’آئیڈیاز کی دنیا‘‘ اور اگر سائنسی نقطہ نظر میں جھانکیں تو حقیقت مطلق ان قوانین و اصول کی کی حیثیت رکھتی ہے جن پر کائنات کی بنیاد ہے۔اب چونکہ سائنس تجرباتی حدود کے دائرہ کار کا مطالبہ کرتی ہے اس لئے حقیقت مطلق ایک غیر یقینی شے قرار دے دی جاتی ہے۔جبکہ دینی، مذہبی اور روحانی تعلیمات کی رو سے حقیقت مطلق ذات الہی ہے جس تک عشق و محبت اور عبادت و ریاضت کے ذریعے پہنچنا ہوتا ہے ،ایک مقام پر روحانی بالیدگی بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے۔اور یہ اسلامی تعلیمات کے بغیرممکن ہی نہیں ۔ایک اور نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ انسان کے لئے حقیقت مطلق کا عرفان اس کا مقصد حیات ہو ۔ علاوہ ازیں حقیقت کے ادراک کے لئے کائنات کی گہرائیوں کو جاننے کا علم اور تجربہ چاہیئے ہوتا ہے۔ایک خوگر علم اگر حقیقت مطلق تک پہنچناچاہے تو حصول علم میں تن من دھن کی بازی لگا دے۔مختلف افکار و نظریات کا مطالعہ گہری ترین دلچسپی سے کرے ،غور و فکر کے در ہر پل کھلے رکھے اور تضادات پر کم توجہ مرکوز کرے ۔
فقط علمی ،روحانی اور اخلاق حسنہ اس کا محور و مرکز ہو۔کیونکہ فکری اور روحانی سفر ہی کائنات کے ادراک کے عمل میں سد راہ ہوسکتا ہے اور اس کا تمام تر تعلق جستجوئے پیہم سے ہے ۔فکری سفر سے مراد عقل ، شعور اور علم بے عمیق کے ذریعے کائنات کے مظاہر کوسمجھنا اور ان کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہے۔یہاں ایک اور امر کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ عقل کے استعمال کے وقت منطق اور دلیل کی پاسداری کرنی ہے ۔کائناتی قواعد ضوابط کو نظر انداز نہ کیا جائے اور نہہی کائناتی اصولوں کو نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔نکتہ ارتکاز مقصد حیات کو سمجھنا اور قلبی کیفیات کو روح کی پاکیزگی کے لئے مختص کر لینے سے ہی حقیقت مطلق کے قرب کے حصول تک پہنچا جا سکتا ہے۔فلسفہ ، مذہب اور سبھی کے ادراک کا سفر طے کرتے ہوئے انسان روح کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ۔اس کے ایک اور اہم شرط یہ ہے کہ سوال کی راہ مسدود نہ کی جائے کہ اسی سے تلاش کے رستے کھلتے ہیں ۔محترم سکالر کا یہ کہنا کہ ’’جدید دور کے سیکولر تصور علم میں بنیادی اہمیت ۔مطلق اور مقدس sacred کی بجائے ظاہر اور موجود profane کی ہے‘‘۔ اس سے مراد اگر سائنس، ٹیکنالوجی کی ترقی کو مطلق حقیقت سے یکسر علیحدہ کرکے شجر ممنوعہ کے قریب تر کرکے دیکھنا ہے تو بھی ایک حقیقت کے ادراک کی نفی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حقیقت کو کے ادراک ہی نہیں ہے اور کے لئے

پڑھیں:

جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر

یاد داشت ایک عجیب چیز ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ماضی کی تصویریں ذہن میں صاف اور مکمل محفوظ ہیں، مگر پھرکوئی ایک لمحہ، ایک جملہ، ایک خوشبو سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔کبھی کچھ یاد آتا ہے، پھر شک ہوتا ہے کہ یہ واقعی ہوا تھا یا محض میرا گمان تھا؟

مجھے یہ بات اس وقت زیادہ شدت سے سمجھ آئی جب میں نے ایک مطالعے کے دوران پڑھا کہ بعض اوقات انسان کو وہ چیزیں بھی یاد رہتی ہیں جوکبھی وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ ابتدا میں مجھے یہ بات ناقابلِ یقین لگی۔کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ کیا دماغ اتنی بڑی غلطی کرسکتا ہے؟ لیکن جوں جوں میں نے اس موضوع پر پڑھا، تو میرے سامنے حیران کن حقیقتیں کھلتی چلی گئیں۔

انسانی یاد داشت پتھر پر لکیر نہیں ہوتی۔ یہ تو پانی پر بنتی لکیروں جیسی ہے، جوکبھی واضح ہوتی ہیں،کبھی دھندلی اورکبھی بالکل ہی غائب۔ بعض اوقات ہمیں ایسے واقعات یاد آتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیش ہی نہیں آئے ہوتے۔ ہم ان پر یقین بھی کرتے ہیں، ان کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔

حتیٰ کہ ان سے جذباتی وابستگی بھی محسوس کرتے ہیں۔ یاد داشت انسانی ذہن کا ایک بنیادی اور پیچیدہ عمل ہے۔ ہماری یادیں ماضی کے تجربات کو محفوظ کرنے اور مستقبل کے فیصلوں میں مدد دینے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ تاہم،کبھی کبھی انسان ایسی باتیں بھی یاد رکھتا ہے جو درحقیقت کبھی نہیں ہوتیں۔ ایسی یاد داشتوں کو نفسیات کی اصطلاح میں False Memories یا ’’ جھوٹی یادیں‘‘ کہا جاتا ہے۔

جھوٹی یاد داشت ایسی یاد ہوتی ہے جو انسان کو حقیقت لگتی ہے، لیکن وہ دراصل یا تو غلط ہوتی ہے یا مکمل طور پر خیالی۔ ان یادوں میں کبھی چھوٹے جزئیات بدلے ہوئے ہوتے ہیں اورکبھی پورا واقعہ ہی من گھڑت ہوتا ہے۔ انسان ان جھوٹی یادوں پر اس قدر یقین کر لیتا ہے کہ ان کا انکارکرنا ممکن نہیں رہتا۔

جھوٹی یاد داشتوں کے تصور پر سب سے زیادہ تحقیق ایلزبتھ لوفسٹس نے کی۔ وہ ایک امریکی ماہر نفسیات اور محققہ ہیں، جنھوں نے انسانی یاد داشت، بالخصوص گواہیوں اور جھوٹی یادوں کے حوالے سے انقلابی کام کیا۔ ''False Memory Theory'' دراصل یہ بتاتی ہے کہ انسانی یاد داشت پختہ اور ناقابلِ تغیر نہیں ہوتی بلکہ مختلف اثرات جیسے سوالات کا انداز، جذبات یا دوسروں کے بیانات، یادوں کو تبدیل یا حتیٰ کہ پیدا بھی کرسکتے ہیں۔

لوفسٹس نے 1970 اور 1980 کی دہائی میں ایسے تجربات کیے جن میں انھوں نے ثابت کیا کہ اگرکسی فرد کو بار بار ایک واقعے کا ذکرکیا جائے اگر وہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہ ہو تو وہ فرد کچھ عرصے بعد اس واقعے کو ’’ اپنی‘‘ یاد داشت کے طور پر قبول کرلیتا ہے، اگرکسی انسان کو بار بار بتایا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی مخصوص واقعہ پیش آیا تھا، تو وہ کچھ عرصے بعد اس جھوٹی بات کو اپنی یاد کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے کہ ایک بچہ مال میں گم ہوگیا تھا، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا۔

فالس میمریز مختلف طریقوں سے بنتی ہیں۔ سماجی دباؤ اور توقعات، بار بار دہرائی گئی باتیں اور بااثر شخصیات کی باتوں کا اثر، یہ سب ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ سوالات کا انداز،غلط معلومات کا دیا جانا، خوابوں کا اثر اور تصورکی طاقت بھی جھوٹی یاد داشتوں کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگرکسی کو بچپن میں کہا جائے کہ وہ بہت شرارتی تھا اور اس نے کوئی چیز توڑ دی تھی، تو وہ بچہ آخرکار اس بات کو سچ ماننے لگتا ہے، چاہے اسے اصل واقعہ یاد نہ ہو۔

ایسے جھوٹے تجربات خاندانی قصوں، اجتماعی یاد داشت، تعلیمی نصاب یا مذہبی واقعات کی شکل میں بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی، قانونی اور نفسیاتی سطح پر بھی گہرا ہوتا ہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں، رشتوں میں بے بنیاد الزامات اور فرد کی اپنی ذات کے بارے میں گمراہ کن یقین وغیرہ۔

یہ سب فالس میمریزکے اثرات میں شامل ہیں۔ سائنسدانوں نے ان یادوں کو روکنے یا پرکھنے کے لیے تحقیق کی ہے۔ ثبوتوں پر زور، تنقیدی سوچ کی تربیت اور ماہرینِ نفسیات سے مشورہ ان کے سدباب کے اہم طریقے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ہر یاد پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں، بلکہ اس پر سوال اٹھانا سیکھیں۔ کیا یہ واقعی ہوا تھا؟ یا یہ صرف ایک خیال تھا؟

میری زندگی میں بھی ایسے لمحے آئے جب کسی دوست نے ماضی کا واقعہ سنایا جو مجھے یاد ہی نہیں تھا۔ پھر میں سوچ میں پڑگئی،کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ یا یہ اس کی یاد داشت کا وہ حصہ ہے جس میں، میں کبھی شامل ہی نہیں تھی؟ زندگی میں کئی بار ہمیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کوئی واقعہ خواب تھا یا حقیقت اورکبھی خواب اتنے واضح ہوتے ہیں کہ ہم انھیں سچ مان لیتے ہیں۔

اس موضوع پر فلمیں ہیں جیسے میمینٹو فلم میں ایک شخص اپنی یاد داشت کھونے کے بعد ایک قتل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی یاد داشت کی الجھنیں ناظرین کو مسلسل چکر میں ڈالتی ہیں۔

اس موضوع پر فلمیں بنی ہیں جیسے انسپشن فلم جس کا کردار خوابوں میں داخل ہو کر خیالات چرانے اور یادوں کے ذریعے تصور قائم کرتا ہے جس سے جھوٹی حقیقتیں پیدا ہوتی ہیں۔

دی بٹر فلائی ایفیکٹ ایک نوجوان اپنی پرانی یادوں کو بدل کر حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ہر بارکچھ نیا اور الجھا ہوا سامنے آتا ہے۔

شٹر آئی لینڈ ایک امریکی مارشل جب ایک پاگل خانے کی تفتیش کے لیے جاتا ہے تو حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے اپنے ماضی کی یاد داشتوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ فلم ’’ ٹوٹل ریکال‘‘ میں ایک شخص ایک خفیہ مشن پر ہے لیکن وہ خود نہیں جانتا کہ اصل کیا ہے اور خیالی کیا۔

اب آتے ہیں حل کی طرف کہ کس طرح جھوٹی یاد داشت کے حصار سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ ثبوت پر انحصارکریں یاد داشت پر اندھا یقین کرنے کے بجائے، تحریری یا تصویری ثبوت پر توجہ دی جائے۔

ذہنی تربیت کی جائے خاص طور پر تنقیدی سوچ کو فروغ دینا اور خود کو بار بار سوال کرنا کہ ’’ کیا یہ واقعہ واقعی ہوا تھا؟‘‘ اس حوالے سے مددگار ہو سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، اگرکسی کو لگے کہ اس کی یاد داشتوں میں تضاد ہے، تو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بہتر ہے۔ یہ ایک نہایت دلچسپ اور پیچیدہ نفسیاتی مظہر ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کی یاد داشت ہرگزکامل نہیں۔ ایلزبتھ لوفسٹس نے یہ ثابت کر کے نفسیات کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا کہ ہماری یادیں حقیقت سے زیادہ ہمارے ذہنی عمل، تجربات اور بیرونی اثرات کی پیداوار ہوتی ہیں۔

اس نظریے نے نہ صرف نفسیات، بلکہ قانون، تعلیم، میڈیا اور روزمرہ زندگی میں انسانی رویے کو سمجھنے کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی یادوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے بھی دیکھیں،کیونکہ ضروری نہیں جو ہمیں یاد ہو وہ حقیقت بھی ہو۔

متعلقہ مضامین

  • حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
  • وزیر خزانہ نے جعلی حکومت کے جھوٹے دعوؤں کی حقیقت عوام کے سامنے رکھ دی، بیرسٹر سیف
  • آزاد منڈی اور ٹیرف
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
  • گہرے سمندر میں رہائش کا خواب حقیقت کے قریب، برطانوی سائنسدانوں نے بڑا منصوبہ تیار کرلیا
  • ایک رنگ جو ہمیں دکھتا تو ہے، لیکن حقیقت میں موجود نہیں
  • 51 سالہ ملائیکہ اروڑا کا سری لنکن کرکٹر کیساتھ افیئر ؟ حقیقت سامنے آگئی
  • غیرذمے داری
  • بلوچستان کا ایشو