اپر کرم کیلئے کم از کم 500 ٹرکوں پر مشتمل قافلہ روانہ, پانچ لاکھ آبادی علاقے میں محصور،فاقوں پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
راستوں کی بندش کے باعث پاراچنار شہر سمیت سو سے زیادہ دیہاتوں کو ہر قسم کی سپلائی معطل ہے، راستوں کی بندش کے باعث پانچ لاکھ آبادی علاقے میں محصور ہے، سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور شہری فاقوں پر مجبور ہیں۔گزشتہ رات اشیائے خوردونوش پر مشتمل 25 ٹرک پاراچنار پہنچے، جس کے بعد اشیائے خوردونوش کے حصول کیلئے شہریوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور متعدد چیزیں مہنگے داموں میں موقع پر فروخت ہوگئیں۔گزشتہ روز ٹماٹر 700 روپے، گوبھی 500، ٹنڈے 500 اور پیاز 500 روپے فی کلو میں فروخت ہوئی۔ اسی طرح ہری مرچ 800، اروی 500 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہونے لگی۔عوام کے مطابق 16 کلو گھی کا کنستر 11 ہزار روپے، 50 کلو چینی 10 ہزار روپے اور چائے فی کلو 2200 روپے کے حساب سے فروخت ہوئی۔اتنی مہنگی سبزیاں دیکھنے کے بعد عوام انہیں خریدنے سے قاصر نظر آئے اور صرف قیمتیں پوچھنے پر اکتفا کیا۔عوام کا کہنا ہے کہ 5 لاکھ آبادی کیلئے 25 ٹرک ناکافی ہیں۔ شہریوں نے مطالبہ کیا کہ ایندھن اور ایل پی جی کی کمی کو پورا کیا جائے اور اپر کرم کیلئے کم از کم 500 ٹرکوں پر مشتمل قافلہ روانہ کیا جائے۔دوسری جانب پٹرول اور ڈیزل کی عدم دستیابی کے باعث شہری پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ ضلع میں پبلک ٹرانسپورٹ، اے ٹی ایمز، موبائل نیٹ ورک، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس بدستور بند ہیں، اسکولز سمیت دیگر تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عوامی سہولیات کیلئے اقدامات اٹھائے رہے ہیں، راستوں کو محفوظ بنانے کیلئے کوششیں جاری ہیں، پائیدار اور دیرپا امن و امان کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
گزشتہ سال 12 ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری کا انکشاف
گزشتہ سال 2024 کے دوران 12 ارب 48 کروڑ 50 لاکھ روپے کی بجلی چوری کا انکشاف ہوا ہے۔
وزارت توانائی نے 2024 میں بجلی چوری سے متعلق تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کر دیں جس میں اربوں روپے کی بجلی چوری کا انشکاف ہوا۔
پیش کی گئیں دستاویز کے مطابق بجلی چور صارفین سے 5 ارب 83 کروڑ وصول کر لیے گئے جبکہ بجلی چوری کے خلاف 2 لاکھ 16 ہزار ایف آئی آرز کا اندراج کیا گیا۔
دستاویز میں بتایا گیا کہ انسداد بجلی چور مہم کے دوران 62 ہزار 452 بجلی چوروں کو گرفتار کیا گیا جبکہ بجلی چوری سے نمٹنے کے لیے پہلے مرحلے میں پیسکو میں ڈی ایس او یونٹ قائم کر دیا گیا۔