(تحریر: سہیل یعقوب)
موت برحق ہے اور ہم سب یہ مانتے اور جانتے ہیں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، مگر یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ موت ٹینکروں کی صورت میں کراچی کی سڑکوں پر انتظامیہ کی آشیرباد سے یوں دوڑنے لگے گی۔
ایک خبر کے مطابق 2024 میں کراچی میں ٹریفک کے حادثات میں 482 افراد اپنی جان سے گئے۔ ایک دوسری خبر کے مطابق یہ تعداد 601 افراد کی ہے اور نئے سال کے گیارہ دنوں میں 27 لوگ ٹریفک کے حادثات میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی اوسط سے چلتا رہا تو اللہ نہ کرے 2025 کی تعداد یقیناً 2024 سے زیادہ ہوجائے گی۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں ٹریفک اس معاشرے کے عمومی رویے کی آئینہ دار ہوتی ہے اور ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس کو قانون کے دائرے کے اندر رکھے۔ اس وقت ہماری سڑکوں پر ٹینکر موت بانٹتے پھر رہے ہیں اور ریاست ان کے آگے بےبس نظر آرہی ہے یا بےبس نظر آنا چاہتی ہے۔
دنیا کے کسی بھی بڑے شہر میں ہیوی ٹریفک کے اوقات مقرر ہوتے ہیں کہ جس میں وہ شہر سے گزر سکتے ہیں اور یہ عموماً رات سے لے کر علی الصبح تک ہوتے ہیں تاکہ روزمرہ کی شہری زندگی میں خلل نہ ہو۔ اب اگر انتظامیہ بغیر کسی متبادل کے پورے پورے شہر کا پانی دنوں نہیں بلکہ ہفتوں کےلیے بند کردے گی تو پھر یہ ٹینکر بھی دن بھر شہر کی سڑکوں پر پانی پہنچانے اور موت بانٹتے ہی نظر آئیں گے۔
یہ انتہائی درجے کی بدقسمتی بلکہ بے حسی ہے کہ ان ٹینکروں کے ڈرائیور کی ایک بڑی تعداد کم عمر ڈرائیوروں پر مشتمل ہوتی ہے اور زیادہ تر کے پاس تو سرے سے لائسنس ہی نہیں ہوتا اور وہ بغیر کسی لائسنس یہ ہیوی وہیکل چلا رہے ہوتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی لائسنس ان کے پاس ہوتا ہے تو وہ لائسنس ٹو کل (licence to kill) ہوتا ہے جو انگریزی فلموں میں صرف جیمس بانڈ کے پاس ہوتا ہے اور وہ بھی اس کو خاصی تربیت کے بعد ملتا ہے جبکہ ان ٹینکروں کے ڈرائیور یہ کام بھی بغیر لائسنس کے کررہے ہیں۔
کیا اس مسئلے کا کوئی حل بھی ہے؟ دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا کہ جس کا کوئی حل نہ ہو۔ سب سے پہلے تو حکومت کو اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ کیا وہ اس کو مسئلہ سمجھتی ہے اور کیا وہ واقعی اس کا حل چاہتی ہے؟ یقین مانیے کہ اگر اس سوال کا جواب خلوص دل سے ہاں ہے تو سمجھ لیجیے کہ آدھا مسئلہ تو ابھی ہی حل ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ حل پر آئیں، کیونکہ حل کا مطلب ہوگا کہ موجودہ قوانین پر عمل درآمد کو سختی سے یقینی بنایا جائے اور کچھ نئے قوانین کا اجرا کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ رشوت کے نئے دروازے کھول دیے جائیں بلکہ اس کا مقصد لوگوں کی جان و مال کو تحفظ دینا ہے۔ اس کےلیے درج ذیل تجاویز ہیں:
ٹینکروں کے شہر میں داخلے کے اوقات مقرر ہوں اور اس پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔
اسکول اور دفتر کے جانے اور آنے کے اوقات میں ٹینکروں کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس وقت لوگ جلدی میں ہوتے ہیں اور حادثات کا تناسب ان اوقات میں زیادہ ہوتا ہے۔
تمام ٹینکر کے اداروں اور ٹھیکیداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ صرف لائسنس یافتہ ڈرائیوروں کو نوکری پر رکھیں گے اور نشے کے عادی افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے۔
تمام ٹینکروں کی وقتاً فوقتاً جانچ پڑتال ہونی چاہیے تاکہ ان کے بریک اور دیگر پرزوں کی کارکردگی کو جانچا جاسکے۔
سڑکوں کی حالت بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بھی حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ٹریفک پولیس کی تربیت بھی ضروری ہے تاکہ وہ قانون کی عملداری کو یقینی بنائے۔
ٹینکر کسی بھی ادارے کے ہوں اور ان کے مالکان کوئی بھی ہوں، انھیں کسی بھی قسم کا کوئی استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ صرف چند تجاویز ہیں، اگر ان پر عملدرآمد کروایا جائے تو ان حادثات میں واضح کمی کی جاسکتی ہے۔ آخر میں ہم موٹر سائیکل چلانے والوں اور ان کے گھر والوں کو بھی کچھ تجاویز دینا چاہیں گے اور اسی پر اس تحریر کا اختتام ہے۔
موٹر سائیکل چلانے والوں کے والدین سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے بچوں نے خود سے موٹر سائیکل لی ہے یا آپ نے انھیں خرید کر دی ہے لیکن اب اس پر نظر رکھنا آپ کی اولین ذمے داری ہے۔ صرف موٹر سائیکل دلوانے سے فرض ادا نہیں ہوتا بلکہ ان کی تربیت کیجیے اور انھیں اپنی اور دیگر لوگوں کی زندگی کی اہمیت باور کروانا بھی آپ ہی کی ذمے داری ہے۔ آج کل عموماً نوجوانوں کی موٹر سائیکل میں روشنی کا سرے سے انتظام ہی نہیں ہوتا یا وہ خراب ہوتا ہے۔ بریک کے حالات بھی عموماً ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ موٹر سائیکل کسی بھی حادثے کےلیے بالکل تیار ہوتی ہے۔ والدین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے بچوں کی موٹر سائیکل تکنیکی لحاظ سے سواری کے قابل ہو تاکہ حادثات سے بچا جاسکے۔
آخر میں ان نوجوانوں کےلیے کچھ پیغام جو موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ مانا کہ اسپیڈ میں تھرل بہت ہے مگر موت بھی ہے۔ قانون توڑنا بہادری نہیں بلکہ قانون پر عمل کرنا بہادری ہے۔ بہادری ایک حد میں رہے تو خوبی ہے ورنہ بہادری کی انتہا حماقت ہے۔ خدارا بے جا رفتار سے خود کو بچائیے اور اپنی زندگی کی قدر و منزلت کو جانیے۔ آپ اپنے گھر والوں اور ملک کا مستقبل ہیں اور اسے یوں تھوڑی سی عجلت کےلیے برباد مت کیجیے۔
ہمت کرکے ایک دن اس بات کا تصور کیجئے کہ آپ کی لاش کسی ٹریفک حادثے کے نتیجے میں آپ کے گھر لائی گئی ہے اور پھر خود دیکھیے کہ آپ کے گھر والوں پر کیا بیتی ہے اور ان کا کیا حال ہوتا ہے؟ اگر آپ نے ایک دفعہ تصور میں ہی اس کو دیکھ لیا تو اگلی دفعہ آپ کا ہاتھ ایک مخصوص اور قانونی رفتار سے آگے نہیں جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موٹر سائیکل نہیں ہوتا ہوتے ہیں کسی بھی ہیں اور ہوتا ہے اور اس ہے اور اور ان
پڑھیں:
مدینہ کی ریاست میں کیا ایسا ہوتا ہے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے فائدہ لیں؟،جاوید لطیف
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18 جنوری 2025)پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ مدینہ کی ریاست میں کیا ایسا ہوتا ہے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے فائدہ لیں؟، بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے زمین دی، کیا یہ اس لئے اسلامک ٹچ کی بات کرتے ہیں،ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رہنماءن لیگ نے کہا کہ پی ٹی آئی والے لوگوں کوآج بھی گمراہ کر رہے ہیں کہ ہم آئین کی بالادستی کیلئے سزائیں کاٹ رہے ہیں۔مخالفین کو سزا ملنے پر ہم خوش نہیں ہوتے ،ہم تو دعا کرتے ہیں کہ اللہ معاف کرے اور مخالفین کی غلطیوں پربھی پردہ ڈالے۔ پاکستان تحریک انصاف مذاکرات کیلئے اس وقت تیار ہوئے جب القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ سامنے آنے والا تھا۔(جاری ہے)
پی ٹی آئی نے طاقتور حلقوں سے بیک ڈور رابطے بھی شروع کر لئے ہیں انہیں پتا تھا کہ کس لئے مذاکرات کیلئے تیار ہوئے ہیں۔
یہ لوگوں کو آج بھی گمراہ کر رہے ہیں کہ ہم آئین کی بالادستی کے سزائیں کاٹ رہے ہیں دوسری جانب آئین و قانون سے ماورا ان ہی سے مذاکرات کر رہے ہیں، انہی سے بھیک مانگ رہے ہو جنہیں کہتے ہیں کہ یہ صادق اور امین نہیں ہیں۔ یہ غدار ہیں میرجعفر ہیں اور ان کی وجہ سے ریاست کو نقصان پہنچا۔گفتگو کرتے ہوئے رہنماءن لیگ جاوید لطیف نے مزید کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ دنیا کے ان ممالک کوپاکستان میں مخالفت کی دعوت دیں جن کے حوالے سے کہتے تھے کہ کیا ہم ان کے غلام ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اپنی آزادی کیلئے ان سے بھیک مانگو۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی والوں نے کس حیثیت میں پشاور میٹنگ میں مطالبات سامنے رکھنے کی بات کی ؟ پی ٹی والوں نے کہا کہ ہم نے پشاورمیٹنگ میں اپنے مطالبات رکھے ۔ پشاورمیٹنگ سیکورٹی صورتحال کے حوالے سے تھی ۔ پشاور والی میٹنگ میں مختلف جماعتوں کے قائدین بھی موجود تھے،علی امین گنڈا پور کیوں جھوٹ بولتے ہیں کہ ہمارے مقامی لوگوں سے رابطے تھے؟۔ میں تو کہتا ہوں کہ آئیں جوڈیشل کمیشن بنائیں لیکن پھر 2014 سے یہ شروع کریں، جوڈیشل کمیشن کا آغاز اس وقت سے شروع کریں جہاں سے طاقتور لوگوں نے عدلیہ کو دباو میں لا کر سزائیں دلوائیں۔