Express News:
2025-01-18@11:01:01 GMT

بابراعظم کے قریبی دوست کون سی ٹیم سے کھیلنے لگے؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی رویے سے درلبرداشتہ ہوکر ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنیوالے لیگ اسپنر عثمان قادر آسٹریلوی ٹیم سے کھیلنے لگے۔

قومی ٹیم لیجنڈری مرحوم اسپنر عبدالقادر کے بیٹے عثمان قادر کرکٹ میں اپنے بہتر کی تلاش میں آسٹریلیا کے نیو ساؤتھ ویلز میں رہائش اختیار کرلی ہے اور وہ سڈنی میں ہاکسبری کلب کی جانب سے کھیل رہے ہیں۔

عثمان قادر نے ساؤتھ آسٹریلیا کی نمائندگی کی جبکہ پرتھ اور ایڈیلیڈ کی جانب سے بگ بیش لیگ (بی بی ایل) بھی کھیل چکے ہیں۔
اس کے علاوہ عثمان قادر کو آسٹریلیا کی پرائم منسٹر الیون کی جانب سے بھی کھیلنے کا اعزاز ملا۔

مزید پڑھیں: بورڈ کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر عثمان قادر نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عثمان قادر نے گزشتہ برس اکتوبر میں مایوس ہوکر پاکستان کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔

اپنی ریٹائرمنٹ سے متعلق سوشل میڈیا کے ذریعے مداحوں کو آگاہ کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لیگ اسپنر عثمان قادر نے لکھا تھا کہ پاکستان کرکٹ میں میرا سفر بڑا شاندار رہا، ملک کی نمائندگی میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔ 

مزید پڑھیں: عثمان قادر کی ریٹائرمنٹ آج میرے لیے سیاہ دن ہے

انہوں نے مزید لکھا تھا کہ میں کوچز اور ٹیم کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے سپورٹ کیا، میں اب نئے باب میں داخل ہو رہا ہوں، اپنے والد کی وراثت کو جاری رکھوں گا۔

عثمان قادر سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر مرحوم کے بیٹے ہیں، انہوں نے ایک ون ڈے اور 25 ٹی20 میچز میں پاکستان کی نمائندگی کررکھی ہے۔

دوسری جانب رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ لیگ اسپنر کی فیملی بھی جلد پاکستان سے آسٹریلیا منتقل ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ عثمان قادر اپنے مرحوم والد عبدالقادر کی خواہش پر آسٹریلیا چھوڑ کر پاکستان آئے تھے کیونکہ سابق کرکٹر عبدالقادر اپنے بیٹے عثمان قادر کو پاکستان کی جانب سے کھیلتا دیکھنا چاہتے تھے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی جانب سے ا سٹریلیا

پڑھیں:

جائیں تو جائیں کہاں؟

ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی صاحب کا ایک ٹی وی ٹاک شو یاد آ رہا ہے‘ جس میں انہوں نے ایک بڑی دلچسپ اور مزیدار بات کی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ایف بی آر کے90 فیصد افسر گھر چلے جائیں‘ یہ ادارہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں ان افسروں کو گھر بیٹھے ان کی پوری تنخواہیں بھی دینے کو تیار ہوں‘ بس یہ اپنی سیٹوں پر نہ رہیں اور اپنے اختیارات استعمال نہ کریں تو ایف بی آر کا بگڑا ہوا آوا ٹھیک ہو سکتا ہے۔ہماری افسر شاہی کا طرز عمل یہ ہے کہ گیارہ بجے دفتر آتے ہیں، قہوہ پیش کیا جاتا ہے، اس دوران ڈرائیور کھانا لینے گھر چلا جاتاہے،صاحب اپنے عملے سے دریافت کرتے ہیں کہ کس سائل کو کتنا پریشان کیا؟ کتنا مال پانی جمع کیا ؟ پانچ بجتے ہی صاحب واک اور گپ شپ کے لئے کلب جا پہنچتے ہیں۔ایف بی آر کے افسروں کے بارے میں کوئی اور نہیں ان کا سابق سربراہ بتا رہا ہے۔شبر زیدی صاحب نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ یہ بات بتا دی کہ اس ادارے میں معاملات کو ٹھیک کرنے کے ذمہ دار ہی دراصل حالات کو خراب کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ یہ واقعہ تو چند سال پہلے بڑا مشہور ہوا تھا کہ ایف بی آر کے لوگوں نے حصے کی تقسیم پر ایک دوسرے پر گن تان لی تھیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ محض ایف بی آر تک محدود نہیں بلکہ ہر ادارے کی یہی مثال اور ہر محکمے میں یہی صورت حال ہے کہ یہ لوگ ایک سرکاری بیج لگا کے بھتہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایک قانونی بھتہ جس کے خلاف نہ پرچا درج کرایا جا سکتا ہے اور نہ کچھ اور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ پیسہ حکومتی کھاتوں میں نہیں جاتا ان کے ذاتی کھاتوں میں چلا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کا ناسور کتنا گہرا ہے‘ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

میرے ایک دوست شیخ محمد آصف پانچ وقت کے نمازی اور پرہیز گار انسان ہیں۔ ٹھیک ٹھاک بزنس مین اور بڑے سرمایہ کار ہیں۔ جو بھی کماتے ہیں اس پر پورا ٹیکس پوری ایمان داری سے ادا کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے انہیں ایل ڈی اے سے ایک نقشہ منظور کرانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ انہوں نے جو نقشہ جمع کرایا تھا اس پر متعلقہ حکام سے ریٹ سیٹ نہیں ہو رہا تھا۔ جس افسر نے نقشہ پاس کرنا تھا‘ زیادہ پیسے مانگ رہا تھا‘ جبکہ میرا دوست کہہ رہا تھا کہ جتنے پیسے تم مانگ رہے ہو اتنے نہیں دے سکتا‘ میں صرف اتنے دے سکتا ہوں۔ جب ریٹ طے نہ ہو سکا تو وہ میرا دوست کام کرائے بغیر واپس چلا آیا۔ بعد ازاں اس نے نیچے سے لے کر اوپر تک اپنی ہر کوشش کر لی کہ نقشہ پاس ہو جائے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ میرا دوست جس اعلیٰ سے بھی بات کرتا‘ وہ آگے پوچھتا تو پتا چلتا کہ فائل گم ہو چکی ہے۔ کرتے کرتے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ گزر گیا۔ میرا دوست ایل ڈی اے کے دفتر کے چکر لگا لگا کر تھک گیا‘ اس کی جوتیاں گھس گئیں‘ لیکن نقشہ پاس نہ کرا سکا۔ پھر اسے پتا چلا کہ ایل ڈی اے کا وائس چیئرمین اس کے ایک عزیز کا دوست ہے۔اس نے تھک ہار کر اپنے اس عزیز سے بات کی۔ ان صاحب نے اپنے دوست وائس چیئرمین سے کہا۔ پھر ایک دن میرا دوست اس وائس چیئرمین کے پاس گیا تو انہوں نے میرے اس دوست کی موجودگی میں ایل ڈی کے اس اہلکار کو بلا لیا جو مسلسل یہ کہہ رہا تھا کہ فائل گم ہو چکی ہے اور اس سے کہا کہ یہ صاحب میرے دوست کے عزیز ہیں۔ انہوں نے فائل تمہارے ہینڈ اوور کی تھی۔ مجھے وہ فائل ہر حال میں آج چاہیے۔ وہ اہلکار گیا اور فائل لے کر حاضر ہو گیا۔ پتا چلا کہ جس جگہ اس نے اپنی میز اور کرسی رکھی ہوئی تھی‘ جن پر بیٹھ کر وہ کام کرتا تھا‘ وہاں ایک قالین بچھا ہوا ہے اور یہ فائل اس نے قالین کے نیچے دبا رکھی تھی‘ ملتی کہاں سے؟ خیر میرے اس دوست کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اس نے قسم کھا لی کہ اس ملک میں نہیں رہنا۔ وہ کمینہ کلرک ہڈی کھانے کا عادی تھا‘ چنانچہ اس نے فائل جان بوجھ کر چھپائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی ہڈی کی خاطر اور نہ جانے کتنے لوگوں کی فائلیں قالین کے نیچے دبا کر رکھی ہوئی تھیں۔ یہ تو حال ہے ہمارے ملک کا۔ ایسے میں کیسی ترقی اور کہاں کی ترقی؟

اسی طرح کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے کہ میرے ایک دوست کو اسی ایل ڈی اے میں کوئی کام تھا جس کے لیے انہوں نے عرصے سے فائل جمع کرا رکھی تھی۔ ایل ڈی اے کے وائس چیئرمین صاحب اس کے دوست تھے۔ ان کی طرف سے سفارش کی جاتی تو یہ سننے میں آتا کہ فائل ہو رہی ہے‘ چل رہی ہے‘ آ رہی ہے‘ اس میں یہ کمی ہے‘ یہ نقص ہے۔ جب کافی عرصہ گزر گیا تو ایک روز کسی نے اسے یعنی میرے دوست کو مشورہ دیا کہ کیوں تم بار بار وائس چیئرمین کے پاس چلے جاتے ہو اور اسے پریشان کرتے ہو‘ کام پھر بھی نہیں ہوتا۔ ایک لاکھ روپے اْسے یعنی کلرک یا اہلکار کو دو‘ تمارا کام دنوں میں ہو جائے گا۔ واقعی جب اس نے ایسا کیا یعنی ایک لاکھ روپیہ دیا تو میرے دوست کی فائل دنوں میں تیار بھی ہو گئی‘ مل بھی گئی اور اس فائل کے تحت کام شروع بھی ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارے اور ہر محکمے میں اسی طرح کے پینڈورا باکس کھلے ہوئے ہیں۔ دس سال پہلے کی بات ہے‘ میں کسی کے ساتھ سندر تھانے گیا۔ ہم کسی کام کے سلسلے میں تھانے میں بیٹھے ہوئے تھے اور اے ایس آئی کے ساتھ ہماری پیسوں کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ اسی دوران اینٹی کرپشن والوں نے اچانک چھاپہ مارا۔ میں پریشان ہو گیا تو اے ایس آئی نے کہا کہ آپ نہ ڈریں‘ مجھے پیسے پکڑائیں‘ یہ مسئلہ بھی سیٹل ہو جائے گا‘ یہ روٹین میٹر ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنی شکایت لے کر کس کے پاس جائے؟ پہلے تو چلو اگر کوئی اہلکار بات نہیں مان رہا تو بندہ ایس ایچ او کے پاس چلا جاتا ہے‘ ایس ایچ او اگر نہیں مانتا تھا تو ڈی ایس پی کے پاس جا سکتے تھے‘ ڈی ایس پی نہیں مانتا تھا تو ایس پی کے پاس جاتا تھا اور اگر وہ بھی نہ مانے تو اوپر جایا جا سکتا تھا‘ لیکن اب آپ کسی کے پاس نہیں جا سکتے کیونکہ نیچے سے اوپر تک سب ایک جیسا معاملہ ہے۔ پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں 11 روز سے لاپتہ 7 سالہ بچے صارم کی لاش گھر کے قریبی پانی کے ٹینک سے برآمد
  • ایپل اپنے صارفین کے لیے دلچسپ تبدیلیاں متعارف کرانے جا رہا ہے
  • بھارت، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈکےسیمی فائنل ، فائنل تک پہنچنے کا امکان ،آل راؤنڈر سکندر رضا پیشگوئی
  • آئی سی سی ون ڈے رینکنگ جاری، سابق کپتان بابراعظم پہلے نمبر برقرار
  • بہتر مستقبل کے لیے عثمان قادر پھر آسٹریلیا منتقل
  • جائیں تو جائیں کہاں؟
  • کرکٹ کے بہترمستقبل کیلیے کرکٹر عثمان قادرآسٹریلیا چلے گئے
  • مومل شیخ نے شوبز میں سب سے قریبی دوست کا نام بتادیا
  • انگلینڈ کے لیجنڈ بلے باز نے پی ایس ایل کی خاطر ریٹائرمنٹ لے لی،جیمز ونس کا اپنے فیصلے کا دفاع، ون ڈے کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ بہت سوچ کر کیا
  • عثمان قادر کا پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ، اب کس ملک میں کرکٹ کھیلیں گے؟