خاندان والے میرے والد کے جنازے پر مہمانوں جیسا طرزعمل دکھا رہے تھے، محسن عباس رشتہ داروں پر برس پڑے
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اداکار، ٹی وی میزبان و لکھاری محسن عباس حیدرنے سماجی رابطوں کی سائیٹ فیس بک پر اپنے رشتہ داروں کے لیے معنی خیز پیغام شیئر کیا ہے۔
اپنی حالیہ پوسٹ میں محسن عباس حیدر نے خاندان کے افراد کے لیے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرے خاندان کے افراد جو میرے والد کے جنازے پر ’مہمانوں‘ جیسا طرزِ عمل دکھا رہے تھے ان کے آنے کا شکریہ، لیکن امید ہے کہ میں آپ کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھوں گا‘۔
واضح رہے کہ محسن عباس حیدر کے والد گزشتہ ماہ 19 دسمبر کو انتقال کر گئے تھے۔ محسن عباس حیدر نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر خود اپنے والد کے انتقال کی اطلاع دی تھی۔
اداکاری کے علاوہ محسن عباس کو ان کی گلوکاری کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کے قابل ذکر ڈراموں میں میری گڑیا، مقابل، لشکارہ، دل تنہا تنہا، سیانی، محبت چھوڑ دی میں نے، صرف تم، اور دیگر شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محسن عباس حیدر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
تنہا زندگی کے مثبت و منفی پہلو
تبو اکیلی رہنا پسند کرتی ہے۔
انڈین اداکارہ تبو میری فیورٹ آرٹسٹ ہے۔
اس نے فلم ’چینی کم ہے‘ میں 60،63 برس کے امیتابھ بچن کو جس طرح سے پیار کیا ہے اس نے میرے جیسے بزرگوں کا دل جیت لیا ہے۔
بالی ووڈ اداکارہ کا حالیہ انٹرویو، جس میں اس نے کہا ہے کہ وہ اکیلے زندگی گزارنا پسند کرتی ہے اور اس کو مرد صرف اپنے ساتھ سونے کے لیے چاہیے شادی کے لیے نہیں، ایک خبر بن گیا ہے۔
موجودہ دور میں اس بیان کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔
وہ یہ بیان تب دیتی ہے جب دنیا اتنی ماڈرن نہیں ہوئی تھی تب یہ کوئی بریکنگ نیوز بنتی تھی۔ اب تو ڈیجیٹل میڈیا نے فیمینزم کی تحریک کو اس نہج پہ پہنچا دیا ہے کہ جہاں ہر دوسری عورت کم از کم منھ سے یہی کہہ رہی ہے کہ مجھے مرد کی ضرورت نہیں ہے۔
خیر اصل بات یہ ہے کہ مرد ہو یا عورت اس کو شادی یا مخالف جنس کے ساتھ رہنے کی ضرورت قدرتی ہے۔ شادی کو بعض حلقے اس لیے ختم کرنا چاہ رہے ہیں کہ شادی کی وجہ سے جو گھر اور بچے ایک پرسکون زندگی گزارتے ہیں اس کی وجہ سے انڈسٹری کو کوئی ترقی نہیں ملتی ہے۔ جبکہ سنگل مرد و خواتین زیادہ اچھے کنزیومر ثابت ہوتے ہیں۔
کچھ سالوں پہلے زندگی اس طرح کی تھی کہ 60 سے 70 فیصد مرد اور عورت پرسکون زندگی گزارتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اور اپنے بچوں کے ساتھ مل کے خوشیاں شیئر کرتے تھے۔
پھر کیپیٹلزم آیا، سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ثمرات آئے۔ اور دوسری چیز تھی کنزیومرازم جس میں ہر انسان کو چیزیں استعمال کرنے والا زومبی بنا دیا گیا۔ اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی گئیں اور اس کو محض چیزیں ضائع کرنے والی مشین بنا دیا گیا۔
وہ چیزوں سے خوشی محسوس کرتا ہے۔
اور کچھ چیزیں چھن جانے سے تکلیف محسوس کرتا ہے۔
چیزیں اکٹھی کرتا ہے اور پھر انکی حفاظت کرتے کرتے مر جاتا ہے۔
اسی کو کامیاب زندگی بتایا جا رہا ہے۔
اور اسی کو خوشی کا منبع سمجھایا جا رہا ہے۔
تو اس کے تحت بھی اگر تبو کہتی ہے کہ اس کو کسی گھر، فیملی یا بچوں کی ضرورت نہیں تب بھی ٹھیک ہے۔
لیکن دوسری طرف اگر دیکھیں تو تبو محض ایک انسان ہے اور ہر انسان مختلف ہو سکتا ہے۔
ہم اکثریت کی بات کریں تو اج بھی انسانوں کی زندگیوں میں محبت خیال اور رشتوں کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
عام عورت ہو یا مرد اس کو دوستی پیار محبت کے علاوہ ایک گھر اور اپنی اولاد میں سکون محسوس ہوتا ہے۔
لیکن ماڈرن دنیا میں اگر ایک طبقہ ایسا پیدا ہو بھی جائے جو صرف چیزوں سے پیار کرے اور چیزوں کے ساتھ رہے تو اس میں حیرانی کی بات نہیں ہونا چاہیے۔
کیونکہ انسانوں کی طبیعت مختلف ہیں تو کچھ انسانوں کو اس طرح کی زندگی زیادہ سوٹ کرتی ہے تبو بھی ان میں سے ایک انسان ہے۔ جو تنہا زندگی کو زیادہ انجوائے کرتے ہیں۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ اگر تبو کی بات کو گلیمرائز کر دیا جائے اور بہت سی ایسی عورتیں اس سے سبق لے کے تنہا زندگی گزارنا شروع کر دیں لیکن 52 سال کی ہوتے ہوئے تبو جتنی کامیاب یا خوش ہے وہ ویسی نہ ہوں تو انکے لیے واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔
اس لیے ہمیں میڈیا کی ایسی خبروں سے اپنی زندگی کے فیصلے نہیں کرنے چاہییں۔ بلکہ اپنی زندگی کے فیصلے اپنی شخصیت اور عادات کو سمجھ کر کرنے چاہیے۔
خاص طور پر مستقبل کے وہ فیصلے جن میں جذباتیت بھی شامل ہو اس میں لازمی طور پر یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم یہ زندگی پہلی مرتبہ تجربہ کر رہے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ ہم ان تمام چیزوں کا احاطہ نہ کر سکیں جو زندگی کے اختتام تک انسان کو پیش آتی ہے اس کے لیے ہمیں کسی رہنما یا کنسلٹنٹ کی ضرورت پڑ سکتی ہے (ویسے پہلے زمانوں میں اس کام کے لیے بزرگوں کی مدد لی جاتی تھی)
ماڈرن لائف اسٹائل میں گرچہ اس بات کی بہت ساری گنجائش موجود ہے کہ کوئی بھی فرد اکیلا اپنا بڑھاپا آسانی سے گزار سکے۔ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہر لائف اسٹائل کو جینے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اور سب سے زیادہ ضروری بات ہی یہ ہے کہ وہ لائف اسٹائل آپ کی شخصیت کو سوٹ کرتا ہو۔
امریکا میں Pew Research Center کی ایک ریسرچ کے مطابق 50 سال سے زیادہ عمر کی خواتین نے اپنی زندگی کے کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلوؤں کے بارے میں بات کی ہے۔
مثبت پہلو یہ ہیں:
50 سال سے زیادہ عمر کی اکیلی خواتین عام طور پر اپنی زندگی سے مطمئن ہوتی ہیں اور ان مردوں سے زیادہ بہتر زندگی گزارتی ہیں جو 50 سال کی عمر کے بعد اکیلی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس عمر کی خواتین اپنی زندگی کے نئے مقصد کی تلاش کرتی ہیں، گھومتی پھرتی ہیں، نئے شوق پالتی ہیں اور خوش رہتی ہیں۔
ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس عمر کی اکثر خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوتی ہیں جس سے ان کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے۔
دوسری جانب 50 سال سے زیادہ عمر میں اکیلی رہنے والی خواتین تنہائی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اگر ان کے ملنے جلنے والے یا خاندان کے لوگ آس پاس نہ ہوں تو انکی تنہائی بڑھ جاتی ہے۔ ان کو صحت کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے اور وہ ذہنی کمزوری اور ڈپریشن کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔
یہ تو امریکا کے ایک ادارے کی ریسرچ ہے۔ لیکن فی الحال پاکستانی معاشرے میں 50 سال کی عمر سے زائد میں تنہا رہنا عام عورت کا انتخاب نہیں بن سکتا۔ سوائے کچھ خاص خواتین کے جو اپنی شخصیت میں اتنی کامیاب، مضبوط اور واضح ہوں کہ انکو کسی مستقل ساتھی کی ضرورت نہ ہو۔ یا پھر وہ سماجی رویوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی اپنی ذہنی صحت کو قائم رکھ سکیں۔
ایک آخری بات جو ان خواتین و حضرات کو یاد رکھنا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ان کو ایک مستقل جیون ساتھی کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی انکو بچوں کی کوئی خواہش محسوس ہوتی ہے۔ وہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسان جیسا اپنی زندگی 20ویں سے 40ویں سال تک محسوس کرتا ہے ضروری نہیں کہ اس کے خیالات عمر کے 40 سے 50 اور 60 سالوں میں بھی ایسے ہی رہیں۔
بہتر مشورہ تو یہی ہے کہ آپ زندگی کے جس بھی حصے میں ہوں، آپ کو ایک سماجی انسان کے طور پر رشتوں اور تعلقات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ چاہے شادی کریں یا نہ کریں لیکن آپ کے اردگرد ایسا سپورٹ سسٹم ضرور رہنا چاہیے جو آپ کی جذباتی اور نفسیاتی صحت کے لیے ایک سہارا بن سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمود فیاض اداکارہ تبو اہل و عیال تنہا زندگی جیون ساتھی سنگل لائف