بھارتی معروف کرکٹر روہت شرما کا انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
بمبئی (نیوزڈیسک)بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما نے پاکستان میں شیڈول آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کرلیا، انہوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ اس ایونٹ تک ٹیم کی قیادت کریں گے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق 37 سالہ بھارتی کپتان روہت شرما نے مشاورت مکمل کر کے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا ہے، روہت شرما نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 تک بھارتی ٹیم کی قیادت کرنے کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹورنامنٹ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا ارادہ رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ روہت شرما نے 2024 کا ٹی20 ورلڈ کپ جیتنے کے بعد مختصر فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ باہمی مشاورت سے روہت شرما نے اس شرط پر چیمپئنز ٹرافی کے لیے ٹیم کی قیادت کرنے پر رضامندی ظاہر کی کہ وہ اس ایونٹ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوجائیں گے۔
16 جنوری 2025 کو دنیا بھر میں انٹرنیٹ بند ؟ بڑی پیشگوئی سامنے آگئی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انٹرنیشنل کرکٹ سے سے ریٹائرمنٹ روہت شرما نے کے بعد
پڑھیں:
گولارچی: بھارتی نیوی کے ہاتھوں گرفتار پاکستانی ماہی گیر کی رہائی کی کوششیں
گولارچی (نمائندہ جسارت) چند روز قبل بھارتی نیوی نے متنازع سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے پر 22 سالہ نوجوان حافظ عرف بابلی ولدمحمد عمر ملاح نامی پاکستانی ماہی گیر کو گرفتار کیا تھا۔ واضح رہے کہ بابلی ضلع سجاول کے گاؤں محمد سومار ملاح کا رہائشی ہے، اس اثناء میں ماہی گیروں کے حقوق کے سرگرم وکیل اور سندھو لاء فرم انٹرنیشنل کے سی ای او علی چنگیزی سندھو ایڈووکیٹ ہائیکورٹ مفت قانونی خدمات دینے اور مذکورہ شخص کی بھارتی قید سے رہائی کے لیے میدان میں آ گئے۔ یہ بات ضلع بدین میں مچھیروں کے حقوق کے سرگرم کارکن اور انٹرنیشنل میڈیا اینڈ سوشل ایکٹوسٹ فورم ضلع بدین کے صدر محسن رزاق نے گولارچی میں صحافیوں سے کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کے درمیان طے پائے گئے کونسلر اکسس معاہدے 2008 میں انسانی حقوق کی بنیاد پر تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے، اس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت سال میں دو مرتبہ جنوری اور جون میں شناخت کی غرض سے گرفتار کیے گئے قیدیوں کی فہرست اور تفصیلات مہیا کریں گے، حالانکہ فہرست کا تبادلہ ٹیکنالوجی کی بدولت 6 مہینوں کے بجائے چند دنوں میں بھی ہو سکتا ہے، اس طرح اس معاہدے کی بہت سی شقیں ہیں جن کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔