آج کالم کا عنوان ایک اسلامی تاریخ کا مہینہ اور ہندسہ ہے۔ وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ آج مجھ پر ایک عجیب انکشاف ہوا۔ ہمارے ایک شاگردِ رشید ہیں، ان کا معمول ہے کہ وہ ہر ہفتے پہلے مزارِ واصف علی واصفؒ اور ازاں بعد دربار حضرت علی بن عثمان داتا گنج بخشؒ حاضری دیا کرتے ہیں۔ گاہے گاہے ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم بھی اس دعوت پر شاد ہوتے ہیں اور ان کے آباد رہنے کی دعا کرتے ہیں۔ ایسی دعوت ایک نعمت سے کم نہیں۔ حسبِ دستور آج کا دن طے تھا۔ صبح روانہ ہوتے ہوئے میں نے ایک بیکری سے شیرینی کے ڈبے لیے، اور انہیں بتایا کہ آج تیرہ رجب ہے، یہ شیرینی وہاں زائرین میں تقسیم کریں گے۔ وہ چپ چاپ مجھے دیکھتے رہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے ہاں حاضری کے بعد جب روانہ ہوئے تو پوچھنے لگے: سر! یہ 13 رجب کے حوالے سے کیا خاص بات ہے؟ میں ان کا چہرہ تکنے لگا۔ اچھا خاصا پڑھا لکھا، ایچی سن کالج کا فارغ التحصیل، یورپ کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں لینے والا نوجوان 13 رجب کے بارے میں بالکل لاعلم تھا۔ درست معلومات سے محرومی بھی ہمیں اپنے عقائد میں تعصب برتنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہمارے عقائد ہماری عقیدتوں کے مظہر ہوتے ہیں۔ اسلام میں مختلف مکاتبِ فکر … جنہیں میں بوجوہ فرقے نہیں کہتا … اپنے مشاہیر کے ساتھ عقیدتوں میں ترجیحات کے فرق سے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر تاریخ کا درست علم ہمیں دستیاب ہو جائے تو یہ تفرقے ختم ہو سکتے ہیں۔ بہت سے تفرقے ہماری کم علمی کی بنیاد پر ہیں، اسی کم علمی کا جب دفاع کیا جاتا ہے تو یہ تعصب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے: یہ کیا ستم ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تاریخ پڑھاتے ہیں تو بہت سے واقعات کا ذکر نہیں کرتے، مورخ جب ہماری تاریخ لکھے گا تو ہمارے بارے میں کیا الفاظ لکھے گا؟ … ظاہر ہے مورخ ہمیں بددیانت لکھے گا، اپنی تاریخ کو مسخ کرنے والوں میں شمار کرے گا۔ جو تاریخ مسخ کرتے ہیں، ان کا جغرافیہ بھی مسخ ہو جاتا ہے۔ تاریخ ماضی کی طرح بہت ظالم ہوتی ہے، کوئی چیز بھولتی نہیں ، بھولنے نہیں دیتی۔ تاریخ میں جب کوئی چیز حذف کی جاتی ہے تو وہ اس بات کا بھی ریکارڈ رکھتی ہے کہ کیا چیز کس نے حذف کی اور کیونکر حذف کی۔
آمدم برسرِ مطلب، 13 رجب کے حوالے سے جب نوجوان کو بتایا گیا کہ یہ وہ تاریخ ہے جس میں علم کا باب وا ہوا، کعبے کی دیوار شق ہوئی، فاطمہ بنتِ اسد کی کوکھ سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کی جائے پیدائش کعبہ مشرفہ تھی۔ رکنِ یمانی کے پاس دیوارِ کعبہ کا شق ہونا تاریخ کا حصہ ہے، اسے حذف کیا جا سکتا ہے نہ دیوارِ کعبہ کے شکستہ ہونے کا نشان ہی مٹایا جا سکتا ہے۔ امام علی ابن ابی طالبؓ کے فضائل بیان کرنے میں قلم شکستہ ہو جاتے ہیں اور اوراق ختم ہو جاتے ہیں۔ مناقب علیؓ لکھنے والوں کو کبھی الفاظ کی کمی کا سامنا نہیں ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ جب لکھنے پر آتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ کس لفظ کو لیا جائے اور کسے چھوڑا جائے۔ الفاظ ہیں کہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور فضائل علیؓ پر منقبت پر سبقت پانے کے لیے بے تاب ہیں۔ لکھنے والا ایک شہنشاہ کی طرح جسے اشارہ کرتا ہے، وہ لفظ سر جھکائے سراپا حرفِ سپاس بنا حاضر ہو جاتا ہے۔ کاش! اُمت مسلمہ اپنے گروہی تعصبات سے ہٹ کر علیؓ کے قد کا جائزہ لے تو اسے علیؓ کے سوا کچھ بھی نہ دکھائی دے۔
جس کا نام میرے رب کے ناموں میں شامل ہے اس کے بیان کے لیے از روئے قرآن سات سمندر مل کر روشنائی بن جائیں اور درخت سارے کے سارے قلم ہو جائیں تو بھی بیان کے لیے ناکافی ٹھہرتے ہیں۔ جس کا نام ہی علی ہو، جس کو علو حاصل ہو، اس کی شان کے بیان میں کب غلو ہو سکتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کی منقبتیں در شانِ علیؓ زبان زدِ عام ہیں۔ آپ کی ایک منقبت کا شعر ہے:
علیؓ کو میں عُلیٰ کہہ دوں و لیکن
علی سجدے میں خود تسبیح خواں ہے
اسی منقبت کا مقطع ہے:
علیؓ کی یاد ہے واصف علی کو
علیؓ خود اس زمین کا آسمان ہے
علیؓ توحید کے پیام بر کا برادر ہے۔ علیؓ کے ہاتھوں سے حرمِ پاک بتوں سے پاک ہوا۔ جہاں علیؓ ہے، وہاں بت پرستی اور شرک کا شائبہ تک نہیں۔ جس سینے میں علیؓ کا ورد ہو گا، وہ بتوں کی نجاست سے پاک ہو گا … ہوس سینے میں چھپ چھپ کر نوع بہ نوع تصویریں بنا لیتی ہے یہاں بت ہر قسم کے ہیں، تعصب کا بت، غرور و استکبار کا بت، دولت و منصب کا بت … اگر حرمِ دل کا ویہڑہ ان بتوں سے پاک کرنا مقصود ہے تو علیؓ کو آواز دینا ہو گی۔ فکرِ علیؓ ملوکیت کی موت ہے۔ یہی وجہ ہے جہاں ملوکیت کی بُو باس ہوتی ہے، وہاں ذکرِ علیؓ کی خوشبو سے سینوں میں گھٹن محسوس کی جاتی ہے۔
ہر نبی کا وصی ہوتا ہے … پہلے انبیاء کے اوصیاء بھی گذرے ہیں۔ علی المرتضیٰؓ وصی نبیِ کریمؐ ہیں۔ وصی … وارثِ پیغمبر ہوتا ہے۔ اسے ہی وصیت کی جاتی ہے، حق کی، صبر کی۔ رسولِ کریمؐ نے فرمایا ہے: اے علی! میری اور تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰؑ کو ہارونؑ سے تھی، اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ فرمایا گیا: میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔ فرمایا گیا: علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ۔ حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیرِ خم کے مقام پر رسول اللہﷺ نے سب اصحاب کو جمع کیا، اور از روئے وحی حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے سب کے سامنے بلند کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علیؓ مولیٰ ہے، اس کا جسم میرا جسم ہے، اس کا خون میرا خون ہے، اس کی روح میری روح ہے، اس کا نفس میرا نفس ہے، جس نے علیؓ کو دوست رکھا، اس نے مجھے دوست رکھا، جس نے علیؓ سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ فضائلِ علیؓ کے باب میں یہ خطبہ کافی طویل ہے۔ افسوس کہ ملوکیت سے مرعوب اذہان قلوب جب سیرت پر کتابیں مرتب کرتے ہیں تو اس خطبے کو حذف کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور صلے میں بادشاہانِ وقت سے سیم و زر کے میڈل وصول کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو گھاٹے کی تجارت کرتے ہیں، دین بیچ کر دنیا وصول کرتے ہیں۔
دن اور مقامات نسبتوں کے حوالے سے پہچانے جاتے جاتے ہیں۔ 13 رجب کی نسبت عالی ہے، یہ علیؓ کی نسبت سے باعثِ تعظیم و تکریم ہے۔ کعبۃ اللہ میں پیدا ہونے والے کا یومِ ولادت شعائر اللہ کا درجہ رکھتا ہے۔ رجب المرجب، از روئے حدیث، اللہ کا مہینہ کہلاتا ہے۔ اللہ کے گھر میں اللہ کے مہینے میں پیدا ہونے والا کس قدر تعظیم و تکریم کے لائق ہے۔ ولید الکعبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تکریم کا تقاضا ہے کہ جہاں ان کی جائے ولادت یاد رکھی جاتی ہے، وہاں ان کی تاریخِ ولادت بھی یاد رہے۔ یاد رہے کہ یاد روح کا سفر ہے۔ جس کے روحانی سفر کا میرِ کارواں علیؓ ہو، اس کی تفصیل و تفضیل کے کیا کہنے! یہاں ہمدمِ دیرینہ جناب محمد یوسف واصفی کی ایک طویل منقبت کا شعر توجہ کا دامن کھینچ رہا ہے۔
مولد سے کہیں بڑھ کے ہے مولود کی تفضیل
کعبے کی بھی تکریم کا سامان علیؓ ہے
ربِ کعبہ کے حضور دعا ہے، التجا ہے کہ وہ مولودِ کعبہ کے صدقے اس صنم آشنا دل کو بھی پاک کر دے … اس تاریک گھر کو بھی جلوہِ علیؓ عطا ہو تاکہ یہ حرم، حرمِ پاک ہو جائے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: واصف علی واصف کرتے ہیں جاتی ہے ہیں اور جاتا ہے کے ساتھ حذف کی
پڑھیں:
پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کی طویل تاریخ ہے،عطاءاللہ تارڑ
اسلام آباد:وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کی طویل تاریخ ہے۔
وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے اسلام آباد میں پاک ترکیہ فرینڈ شپ ریڈیو میوزیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ اور پاکستان کے دل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ترکیہ کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کی طویل تاریخ ہے۔
عطا اللہ تارڑ نے مزید کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں۔ ہمیں آئندہ نسلوں کو پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تعاون کو دوسرے شعبوں میں بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاک ترکیہ فرینڈ شپ ریئڈیو میوزیم کا قیام اہمیت کا حامل ہے۔ میوزیم کے قیام کا مقصد آنے والی نسلوں کو پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک ترکیہ فرینڈ شپ ریڈیو میوزیم دونوں ملکوں کے عوام کو مزید قریب لائے گا۔ عوامی آگاہی اور معلومات کی فراہمی کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کا اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان کے نامور اداکاروں کی اکثریت نے اپنے کیرئیرکا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔