گذشتہ ہفتے گھر کے فرنیچر میں جزوی تبدیلیوں کے لئے لاہور کی اہم فرنیچر مارکیٹس کے کئی دورے کئے۔ایک سفید پوش انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ کم پیسوں میں معیاری چیز مل جائے تو مزا دوبالا ہو جائے گا۔ خیر اچھرہ کی فرنیچر مارکیٹ، بند روڈ پرٹمبر مارکیٹ اور سیون اپ کے پاس فرنیچر شورومز سے تھک کر گلبرگ اور ڈیفنس کے برانڈڈ فرنیچرسٹورز کا رخ کیا۔ ان میں سے کراچی کے ایک برانڈ سٹور کی لاہور برانچ پر سٹائل اور پرائس میں توازن دیکھ کر بیگم صاحبہ نے آرڈردیا کہ بس اب مزید تلاش فوری طور پر بند کی جائے۔ برانڈ سٹور پر خریداری کرتے ہوئے میں نے دو فرق محسوس کئے پہلا یہ کہ بہت ہی سلجھا ہوا سٹاف، مناسب پرائس کے ساتھ ویلیو ایڈڈ کوالٹی سروس اور دوسرا فرق ایف بی آر کے پوائنٹ آف سیل سے منسلک بل بنا تو فرنیچرآئٹمز کے ساتھ 18 پرسنٹ سیلز ٹیکس الگ درج تھا جو کہ اتنا تھا کہ نان پوائنٹ آف سیل سٹور سے خریداری کرتا تو ایک اور فرنیچر آئٹم خریدا جاسکتا تھا۔ روایتی فرنیچر مارکیٹس میں روزانہ کچی رسیدوں پر کروڑوں کا بزنس ہو رہا ہے۔ میں نے ایک ہفتہ گھوم کر ان مارکیٹس کے سروے سے اندازہ لگالیا کہ یہاں سیلز ٹیکس دینے کا رواج نہیں ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ریٹیل سیکٹر کا سالانہ ٹرن اوور 300 بلین ڈالر(8 ہزار ارب) کے لگ بھگ ہے۔ 35 لاکھ ریٹیلرز میں سے صرف 41 ہزار رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان سے 50 ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ سب زیادہ ٹیکس پاکستان کا آرگنائزڈ ریٹیل سیکٹر ادا کر رہا ہے۔ اگر درست اور قابل اعتماد پالیسیز بنائی جائیں تو ریٹیل سیکٹر پر صرف 4 پرسنٹ سیلز ٹیکس اور ایک پرسنٹ انکم ٹیکس لگا کر 15 ارب ڈالر (400 ارب روپے) سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔عوام پرمہنگائی کابوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ پاکستان میں تاجروں کے دو طبقے ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے اپنا بزنس ٹیکس کمپلائنٹ رکھا ہوا ہے دوسرے وہ جو کہ اکثریتی تاجر ہیں نان ٹیکس کمپلائنٹ ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے جو تاجر ٹیکس کمپلائنٹ ہے اور پوائنٹ آف سیل پر رجسٹرڈ ہے۔ وہ اگر 100 روپے کی چیز بیچے گا تو اس میں سے 18 روپے حکومت کو ادا کرے گا۔ گو کہ یہ رقم وہ گاہک سے لے گالیکن وہ اسے لے کر جمع کرانے کا پابند ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ تاجر جو پوائنٹ آف سیل کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ اسی 100 روپے کی پراڈکٹ پر اس کا 18 روپے کا مارجن بڑھ جاتا ہے۔ اس میں سے وہ اگر چاہے تو گاہک کو رعایت دے سکتا ہے۔ اس طرح وہ تاجر جو ٹیکس دے رہا ہے اور جو نہیں دے رہا انکے درمیان مقابلے کی فضا بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ حکومتی خزانے کو نقصان الگ سے ہے۔ حکومت اور ایف بی آر نے دعویٰ کیا تھا کہ تاجر دوست سکیم کے ذریعے 50 ارب کا ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔ جو کہ بنیادی طور پر ایک چھوٹا اور کسی حقیقی سروے کے بغیر بنایا گیا ہدف تھا۔رواں برس دسمبر تک نئے ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لا کر 25 ارب کے ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور صرف چند لاکھ ٹیکس ہی جمع ہوسکا۔ اب اس کا بوجھ صارفین اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود تاجروں پرمنتقل کیاجا چکا ہے۔ حکومت نے سیلز ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردیا ہے۔ انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسز اس کے سوا ہیں۔ پاکستان میں ایک ٹیکس کمپلائنٹ بزنس 49 فیصد تک ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ جو کہ عوام کے ساتھ ان تاجروں کے ساتھ بھی زیادتی ہے جو کہ ٹیکس نیٹ میں آ کر ملکی خزانے کو فائدہ دینے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی بلوں میں خاموشی سے نئے ریٹ ڈال کر عوام سے مزید ٹیکس نچوڑا جا رہا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ایف بی آر پورا ٹیکس اکٹھا نہیںکر سکتا۔ حالانکہ میں اگر پچھلے پانچ برس کا ڈیٹا دیکھوں تو ایف بی آر نے ہرسال پہلے سے زیادہ ٹیکس جمع کیا ہے۔ مالی سال 2020-21 میں 4,963 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کے مقابلے میں 4,745 ارب کا ٹیکس جمع کیا گیا۔ مالی سال 2020-21 میں5,829 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا جبکہ 6148ارب روپے ٹیکس حاصل کیا گیا۔کیونکہ اس سال کرونا کے باوجود ملکی گروتھ 6 فیصد پر تھی۔ مالی سال 2022-23 میں 7004 ارب روپے کی ٹیکس کولیکشن کا ہدف مقرر کیا گیا جبکہ 7163 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔ مالی سال 2023-24 میں 9,415 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا جبکہ وصولی9,299 ارب روپے رہی۔ رواں مالی سال 12970ارب کے تعاقب میں پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران 5624 ارب روپے جمع کیے جا چکے ہیں جو کہ 22-2021 کے سالانہ ٹیکس ہدف کے برابر ہیں۔ اب ایف بی آر اگلی ششماہی میں 6009 ارب روپے کے مطلوبہ ٹیکس وصولی ہدف کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ شاید کارکردگی بڑھانے اور ایف بی آر کے فیلڈ افسران کی حوصلہ افزائی کے لئے تقریباً 6 ارب روپے کی خطیررقم سے ایک ہزار دس نئی لگژری کاریں خرید کر دی جا رہی ہیں۔ ایک بات تو واضح ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان کے عوام سے ٹیکس نہیں دیتے۔ اس برس پاکستانی 21-2020 کے مقابلے میں تین گنا ٹیکس ادا کریں گے۔ یہاں مسئلہ ایف بی آر کی کارکردگی کا نہیں بلکہ ان کے ٹیکس اکٹھا کرنے کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔ ایف بی آر کے رواں مالی سال میں ٹیکس اہداف پورے نہیں ہو رہے۔ جنوری تک کا ٹیکس شارٹ فال 386 ارب ہو چکا ہے۔لہٰذا ٹیکس نیٹ میں موجود تاجروں اور تنخواہ دار طبقہ پر سختی کے ذریعے مزید ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ حکومت نے ایف بی آرکی کپیسٹی بلڈنگ کے لئے 32.
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ٹیکس نیٹ میں ٹیکس دینے سیلز ٹیکس ایف بی ا ر ارب روپے ٹیکس ہدف مالی سال کیا گیا کا ٹیکس کے ساتھ روپے کی رہا ہے کے لئے
پڑھیں:
پختونخوااسمبلی‘ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے پر 33 اراکین کی رکنیت معطل
پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک) ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے پر کے پی اسمبلی کے 33 اراکین کی رکنیت معطل کردی گئی۔رکنیت معطل ہونے والوں میں 26 حکومتی اراکین بھی شامل ہیں، صوبائی وزراء مینا خان آفریدی اور عدنان قادری کی رکنیت بھی معطل کردی گئی۔علاوہ ازیں مشیر صحت احتشام علی اور معاون خصوصی امجد علی کی رکنیت بھی معطل ہے، اسمبلی سیکرٹریٹ نے معطل ارکان کے ایوان میں داخلے پر پابندی عاید کردی۔