پاک بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری کے آتارنمایاں ہیں جس کی بنیاد تو طلبا تحریک کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلی بنی ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں نچلی سطح سے لیکر حکومتی سطح پر روابط بہترہوئے حالانکہ ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ پاکستان کے سفیر بنگلہ دیش میں وزرا ء سے ملاقات کی عرضی ڈال دیتے مگر ملاقات کے لیے وقت دینے میں بھی شیخ حسینہ واجدحکومت حیل و حجت سے کام لیتی لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے ڈھاکہ میں پاکستانی سفیر جب چاہتے ہیں حکومت کی اہم ترین شخصیات سے مل سکتے ہیں عوامی روابط میں بہتری آنے کے ساتھ بحری تجارت کابھی ازسر نوآغاز ہو چکا ہے بنگلہ دیش نے پاکستانیوں سے نہ صرف خصوصی تضحیک آمیز سلوک کا سلسلہ ترک کر دیا ہے بلکہ پاکستان کے تجارتی وفد کابنگلہ دیش میں پُرتپاک استقبال کیا گیادورے پر آئے وفد سے گفتگو کے دوران بنگلہ دیش کے وزیرِ تجارت شیخ بشیر الدین نے پاکستان کے ساتھ ملکر تجارتی مواقع تلاش کرنے کی خواہش کااظہارکرتے ہوئے باہمی تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا اور پاکستان کی تجارتی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ مراعات دینے کا وعدہ بھی کیا جو خوش آئندہے بنگلہ دیش خطے کا اہم ملک ہے جس کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے یہاں فی کس آمدن پاکستان سے زیادہ ہے مردوزن میں خواندگی کی شرح بھی پاکستان سے بلندہے ایسے حالات میں جب یورپی یونین اور امریکہ سے مستقبل میں تجارتی مواقع محدودہونے کا مکان ہے اور افغانستان سے سرحدی مسائل بڑھنے کی وجہ سے آئے تجارت متاثر ہونے لگی ہے بنگلہ دیش کی ایک وسیع اور متبادل منڈی ملنا ایک نعمت ہے۔
بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی سے بھارتی مفاد کو دھچکا لگا ہے جس کابد لہ وہ اب افغانستان کے ذریعے لینے کی کوشش میں ہے شیخ حسینہ کا اقتدار ختم ہونا اورعبوری حکومت کی تشکیل پاک بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری کا موجب بنا ہے مگر بہترتعلقات بنانے میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کاکردارنظرانداز نہیں کیا جاسکتا اُن کی کوششوں سے مہینوں کا کام دنوں میں ممکن ہوابلاشبہ اُن کا کردارکلیدی کردار ہے جنھوں نے حالات کا ادراک کرتے ہوئے نہ صرف سفارتی ذرائع کو متحرک کیا بلکہ خود بھی تعلقات بہتر بنانے کے لیے قابلِ قدراور قابلِ تحسین کوششیں کیںاسی بناپر بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزرڈاکٹر محمد یونس سے مختصر وقفے کے دوران دو ملاقاتیں ممکن ہوئیں قاہرہ میں ہونے والی ملاقات سے ایک ایسا روڈمیپ بنانے میں کامیابی ہوئی جس سے دونوں برادر ممالک میں تیزی سے دوریاں ختم ہوئیں اور باہمی تعاون کا طریقہ کار بنا کر عملدرآمد ممکن ہواشہباز شریف چاہے ملک کے مقبول رہنما نہیں لیکن اِس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وہ نہ صرف ایک اچھے منتظم ہیں بلکہ معاملہ فہم بھی ہیں اگر شہبازشریف کے پاس وزارتِ عظمٰی کا منصب نہ ہوتا اورسب کچھ روایتی بابوئوں پر چھوڑا گیا ہوتا تو شاید ابھی تک صرف باتیں ہی ہو رہی ہوتیں لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہورہا ہوتا امیدِ واثق ہے کہ وزیرِ اعظم نے تعلقات کی بنیادتو رکھ دی ہے رواں ماہ اسحاق ڈارکے دورے سے دونوں ممالک مزید قریب آئیں گے ۔
پاکستان رقبے اور آبادی کے حوالے سے بنگلہ دیش سے بڑاملک ہے مگر بنگلہ دیش تعلیم ،تجارت،صحت اور فی کس آمدن جیسے ہر میدان میں پاکستان سے آگے ہے جس کی وجہ ٹھوس اور نتیجہ خیز حکمتِ عملی ہے حالانکہ اِس حقیقت کوبھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ 1980تک پاکستان کی معاشی حالت نہ صرف بنگلہ دیش بہتر تھی بلکہ بھارت سے بھی معاشی نمو میں آگے تھا پھر نااہل ،اقرباپروراور بدعنوان قیادت کی وجہ سے ملک معاشی تباہی کی دلدل میں دھنستاگیاآج صورتحال یہ ہے کہ قرضوں کی اقساط دینے کے لیے مزیدقرض لینامجبوری ہے مگر جس طرح بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری لانے کا کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے پی آئی اے کی بحالی اورمعاشی اشاریے بہتربنانا بھی اُنھی کاکارنامہ ہے دراصل شہبازشریف ملک کی دیگر سیاسی قیادت کی طرح اڑیل نہیں وہ نہ صرف اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں بلکہ کسی میں کوئی خوبی ہو تونہ صرف سراہتے ہیں بلکہ تقلید کی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش سے بلاشبہ پاکستان کے اچھے تعلقات میں کوئی ابہام نہیں رہا مگر ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِنھیں دوبارہ خراب نہ ہونے دیا جائے نیز بنگلہ دیش کی ترقی و خوشحالی سے نہ صرف سبق لے کر ایساطریقہ کار بنایا جائے جس سے ملک معاشی دلدل سے نکل سکے۔
بنگلہ دیش کی موجودہ ترقی میں موجودہ چیف ایڈوائزرڈاکٹر محمد یونس کاکردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا انھوں نے محدود سرمائے سے نہ صرف انھوں نے ایک بڑے بینک کے خواب کو تعبیر دی بلکہ فرادی قوت کوہُنر مندبنانا بھی اُن کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے بنگلہ دیش کی خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں بالخصوص ریڈی میڈ گارمنٹس کی تجارت میں ہُنر مند خواتین کابڑاہاتھ ہے اگر پاکستان کے حالات کا بنگلہ دیش سے موازنہ کیا جائے تو صورتحال مایوس کُن نظر آتی ہے ہماراملک تعلیم اور فنی تربیت میں پس ماندہ ہے اِس لیے اکثریت کا معیشت میں کردار نہ ہونے کے برابر ہیں پاکستان کے لیے بنگلہ دیش کی ترقی میں سبق یہ ہے کہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کی جائے حقوقِ نسواں کی باتیں کرنے والے خواتین کو بھی معیشت کی ترقی میں مواقع بڑھائیں پاکستانیوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں صرف کام لینے اور مواقع دینے کا طریقہ کاربنانے کی ضرورت ہے اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پاک بنگلہ دیش تعلقات ہماری ضرورت ہیں مگر معاشی بحالی کے بغیر آزادی ،خودمختاری اور عزت واہمیت کادفاع ممکن نہیں اِس حوالے سے اگر ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھایا جائے تو بہتر ہے علاوہ ازیں مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی بیورو کریسی کا مزاج دوستانہ نہیں غلامانہ اور حاکمانہ ہے یہ طاقتور کے آگے جھکنے اور دیگر کو دباکر رکھنے کی کوشش تو کرتی ہے البتہ برابری کی بنیاد پر یقین نہیں رکھتی طالبان کے آنے پر کابل میں چائے پینے کی تصویر پاکستان کا جلدبازی میں اُٹھایاگیاایسا جذباتی قدم تھا جس کا خمیازہ آج پاکستان بُھگت رہاہے خدارا بنگلہ دیش سے بہتر ہوتے تعلقات میں احتیاط کی جائے تاکہ دوستوں میں اضافہ اور دشمنوں میں کمی ہوپاکستان میں سی ایس ایس آفیسران پر بہت انحصار کیا جاتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہی سی ایس ایس آفیسرز جن شعبوں کے سربراہ ہیں وہ سب زبوں حالی کا شکار ہیں لیکن جن اِداروں یا کمپنیوں کے سربراہ سویلین ہیں وہ ترقی کی منازل طے کررہے ہیں پس ثابت ہواکہ ذہانت ،وصلاحیت و اہلیت سی ایس ایس میں پوشیدہ نہیں یہ صرف یادداشت اور انگلش جاننے کا پیمانہ ہے اگر شہبازشریف بھی سی ایس ایس کو قابلیت کا پیمانہ سمجھنے کی بجائے اہلیت وصلاحیت کو ترجیح دیں تو مسائل کا بہتر حل ممکن ہے ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش سے بنگلہ دیش کی تعلقات میں پاکستان کے سی ایس ایس میں بہتری میں کوئی کی وجہ کے لیے ہے مگر
پڑھیں:
پاکستان بنگلہ دیش ، میجر ڈیلم کا انٹرویو
بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی ویسے تو کئی نئی بات نہیں۔ لیکن فی الحال اس ہرزہ سرائی اور غصہ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی قربتیں شامل کر لیں۔ بنگلہ دیش کا اعلیٰ سطح کا فوجی وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کا اعلیٰ سطح کا تجارتی وفد بنگلہ دیش میں موجود ہے۔
صاف ظاہر ہے پاکستان بنگلہ دیش سے تجارت بڑھانا چاہتا ہے اس لیے تجارتی وفد بھیجا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کو فوجی مدد چاہیے اس لیے بنگلہ دیش نے فوجیوں کا وفد پاکستان بھیجا ہے۔ یہ سب بھارت کے لیے ناقابل قبول ہے۔ جیسے جیسے بنگلہ دیش اور پاکستان قریب آئیں گے بھارت کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ دونوں بھارت کے ہمسائے ہیں، دونوں کی بھارت کے ساتھ طویل سرحدیں ہیں اور اگر دونوں بھارت کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں تو بھارت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ میں بھارتی آرمی چیف کے بیانات کو خطے کی اس نئی تبدیلی کے تناظر میں ہی دیکھتا ہوں۔
بنگلہ دیش کی سیاست میں بہت تبدیلیاں آرہی ہیں۔ حسینہ واجد کی جماعت اگلے انتخابات میں تو حصہ لیتی بھی نظر نہیں آرہی۔ خالدہ ضیا کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے تمام کرپشن مقدمات سے بری کر دیا ہے۔ ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کیا وہ اگلے انتخابات میں حصہ لیں گی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر سے پابندی ختم ہو چکی ہے۔
وہ بھی کئی انتخابات کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ جن طلبا ء رہنماؤں نے حسینہ واجد کو اقتدار سے نکالنے کے لیے طلبا ء کی تحریک چلائی تھی وہ بھی اپنی نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں۔ ایک امید ہے کہ اسے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں حمایت حاصل ہوگی اور وہ اگلے انتخابات میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ یہ نئی جماعت ایک نیا سیاسی اسکرپٹ بھی لکھنا چاہتی ہے۔ نئے آئین کی بھی بات ہو رہی ہے۔ موجودہ صدر کو نکالنے کی بات بھی ہو رہی ہے، اس لیے بنگلہ دیش کی سیاست نئی شکل لے رہی ہے۔
بنگلہ دیش کا نوجوان پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ ہم نے وہاں پاکستانی فنکار بھیج کر دیکھا ہے نوجوانوں نے بہت پذیرائی کی ہے۔ پاکستان کے لیے محبت حسینہ واجد کے خلاف تحریک میں بھی نظر آئی تھی۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے تب بھی سنائی دیے تھے۔ وہاں بھارت کے خلاف نفرت اور پاکستان کے لیے محبت بڑھ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے حسینہ واجد کا پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ان کے جانے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ بنگلہ دیش کے عوام نے کبھی اس پراپیگنڈے کو قبول نہیں کیا۔
مجھے لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی نسل بنگلہ دیش کی پچھلی نسل سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ وہاں اب پاکستان کے لیے بالکل نئی فضا ہے، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کی نئی داستان شروع ہو رہی ہے۔ اگر پاکستان کی حکومت نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو بنگلہ دیش اور پاکستان بہترین دوست ہوں گے، تعلقات بہترین ہوں گے، تعاون ہر سطح پر ہوگا۔ دونوں ممالک کو اس وقت ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش کی کوئی خاص مدد نہیں کی بلکہ بنگلہ دیش کا مالی اور سیاسی استحصال ہی کیا ہے۔ جس کے نتائج آج بھارت کے سامنے ہیں۔ بھارت جب تک حسینہ واجد کو پناہ دیے رکھے گا، بنگلہ دیش میں بھارت کے لیے نفرت بڑھتی رہے گی۔
بنگلہ دیش کے ایک سابق ہیرو میجر ڈیلم بھی کئی سال کی گمنامی کے بعد سامنے آئے ہیں۔ میجر ڈیلم وہاں کی آزادی کے ہیرو بھی ہیں اور حسینہ واجد نے انھیں پھانسی کی سزا بھی سنائی ہوئی تھی، وہ غائب تھے، کسی کو نہیں معلوم تھا وہ کہاں ہیں۔ امریکا میں مقیم ایک بنگلہ دیشی صحافی نے یوٹیوب پر ان کا ایک انٹرویو کیا ہے۔چند دن پہلے ہوئے اس انٹرویو کو اب تک ایک کروڑ 24لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ اس نے بنگلہ دیش کے سیاسی انٹرویوز میں ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے۔
میجر ڈیلم کو بنگلہ دیش کا سب سے بڑا فوجی اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کے ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ میجر ڈیلم نے کہا ہے کہ نیا ملک بننے کے بعد بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری بھارت کے قبضہ میں چلی گئی تھی۔ ہم نے بنگلہ دیش بھارت کی گود میں جانے کے لیے نہیں بنایا تھا۔ انھوں نے حسینہ واجد کے خلاف تحریک کو بنگلہ دیش کی بھارتی تسلط سے آزادی کی تحریک قرار دیا ہے۔
میجر ڈیلم کے مطابق بھارت نے جان بوجھ کر بنگلہ دیش کو عسکری طور پر کمزور رکھا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش کی مضبوط فوج ہو۔ بنگلہ دیش کی فوج کو بھارت اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ آج بنگلہ دیش کو سب سے پہلے عسکری طور پر اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ بھارت کے تسلط سے نکل سکے۔ بھارت بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنانا چاہتا تھا اور چاہتا ہے۔ اسی لیے میجر ڈیلم کے مطابق حسینہ کے خلاف تحریک دراصل بھارتی تسلط کے خلاف تحریک تھی۔بنگلہ دیشی عوام سے حسینہ کو شکست نہیں ہوئی بھارت کو شکست ہوئی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شیخ مجیب کے خلاف جب بغاوت ہوئی تھی تو اس بغاوت کی قیادت بھی میجر ڈیلم نے کی تھی۔ اسی بغاوت میں شیخ مجیب قتل ہوئے تھے اور ان کے قتل کا اعلان میجر ڈیلم نے ڈھاکہ ریڈیو سے کیا تھا۔ تب بھی میجر ڈیلم شیخ مجیب کی بھارت نواز پالیسی کے خلاف تھے اور ان کا موقف تھا کہ شیخ مجیب بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی بنا رہا تھا، بنگلہ دیش میں بھارتی تسلط قائم کر رہا تھا، اس لیے وہ بغاوت بنگلہ دیش کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھی۔میجر ڈیلم کے مطابق پاک فوج پر بنگالی خواتین کو ریپ کرنے کے الزامات بھارتی پراپیگنڈا ہیں۔
ایسی کوئی بات بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سامنے نہیں آئی، یہ سب پاک فوج کو بدنام کرنے کے لیے پراپیگنڈا کیا گیا تھا۔ میجر ڈیلم نے طلبا ء اتحاد کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا ہے، انھوں نے جہاں بنگلہ دیش واپسی کی خواہش کا اظہار کیا ہے وہاں مستقبل میں طلبا ء اتحاد کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان بنگلہ دیش کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ میجر ڈیلم نے اپنے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ 14دسمبر کو بنگالی دانشوروں کے قتل کا دن منایا جاتا ہے۔
14دسمبر کو پاک فوج کو تو فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ بنگالی دانشوروں کے قتل کی منصوبہ بندی کرتی، وہاں سرنڈر کی تیاری تھی، پاک فوج مشکل میں تھی۔ یہ لوگ بھی بھارت نے مارے اور الزام پاکستانی فوج پر ڈال دیا۔ بھارت جانتا تھا کہ یہ دانشور بنگلہ دیش میں بھارتی کا تسلط نہیں قائم ہونے دیں گے۔ میجر ڈیلم کے اس انٹرویو کو بنگلہ دیش کے تمام اخبارات اور ٹی وی نے بعد میں دکھایا ہے اور شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو کی پذیرائی بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کے حوالے سے بدلتی سوچ کی عکاس ہے۔