ریئل اسٹیٹ سیکٹر ایک بار پھر اٹھنے لگا، پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
کہتے ہیں کہ شعبہ تعمیرات کی ترقی سے 72 انڈسٹریز چلنے لگتی ہیں اور جب کوئی منافع کماتا ہے تو وہ سب سے پہلے پراپرٹی لینے کا سوچتا ہے۔ کیونکہ اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ پراپرٹی نقصان نہیں دےگی، کچھ نہ کچھ منافع مل ہی جائےگا۔ لیکن گزشتہ 7 برسوں سے پراپرٹی کے کاروبار میں مندی سے سرمایہ ریئل اسٹیٹ سے ایسا نکلا کہ ملک کو ہی کنگال کرگیا۔ لیکن اب کراچی کا علاقہ ڈیفنس گزشتہ 6 ماہ سے ریئل اسٹیٹ کو دوبارہ کھڑا ہونے کی نوید سنا رہا ہے۔
ریئل اسٹیٹ سے منسلک معاذ لیاقت نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 2016 میں ایف بی آر نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکس لگانا شروع کیا۔ جب نواز شریف 2013 میں آئی ایم ایف کے پاس گئے تھے تو اس وقت پراپرٹی کی ٹرانزیکشن بہت تیزی سے ہورہی تھی لیکن سرکار کی جانب سے لگائی جانے والی قیمت بہت کم تھی تو ورلڈ بینک نے کہاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے بہت بڑا ریونیو جمع ہوسکتا ہے جو اس وقت بلیک ہورہا ہے، تب ایف بی آر نے قانون سازی شروع کی۔
یہ بھی پڑھیں آئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود زراعت اور ریئل اسٹیٹ پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، وزیر خزانہ
معاذ لیاقت نے کہاکہ 2016 میں ایک تجویز یہ آئی کہ زمین کی قیمت متعارف کرائی جائے اور اسحاق ڈار نے ویلیوٹر کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ ویلیوایشن سرٹیفیکیٹ لیکر آئیں گے لیکن بعد ازاں یہ ختم ہوگیا، لیکن دوسری جانب ایف بی آر کی جانب سے لینڈ ویلیو ریٹ کا معاملہ چلتا رہا اور اس میں شرط یہ تھی کہ اس کا ہر سال جائزہ لیا جائےگا۔
’6 ماہ سے پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان‘معاذ لیاقت کہتے ہیں کہ جیسے ڈیفنس کا ایک پلاٹ جس کی قیمت 5 کروڑ تھی اور بک ویلیو تھی 10 لاکھ روپے، ایسے ہی ڈی ایچ اے سٹی کے پلاٹ کی قیمت 5 سے 7 لاکھ روپے لگائی جاتی تھی جبکہ اس کی مارکیٹ ویلیو 80 سے 85 لاکھ روپے تھی، تو اس تناظر میں دیکھا جائے تو لاکھوں کروڑوں روپے چھپ جایا کرتے تھے۔
معاذ لیاقت کے مطابق اس طرح پلاٹس کی قیمتیں گرنا شروع ہوگئیں اور اب گزشتہ 6 ماہ سے پراپرٹی کی قیمتیں دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئی ہیں کیوں کہ پیسا گھوم پھر کر آخر میں آتا پراپرٹی کی طرف ہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت بحریہ ٹاؤن کا عروج تھا، کراچی شہر کا پیسا یہاں سے نکل کر بحریہ ٹاؤن چلا گیا اور پھر لوگ بحریہ سے واپس نکلے تو وہ پیسا واپس شہر میں آیا ہے۔
معاذ لیاقت کہتے ہیں کہ گزشتہ 6 ماہ سے اسٹاک مارکیٹ کی بہتر کارکردگی کے اثرات ریئل اسٹیٹ پر پڑے ہیں جیسا کہ اسٹاک مارکیٹ کے لوگوں کی پالیسی ہوتی ہے کہ جو منافع کماؤ اس سے کوئی زمین خرید لو۔
’آرمی چیف کی تاجروں سے ملاقاتوں کے اثرات سامنے آرہے ہیں‘معاذ لیاقت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں کراچی کے تاجروں کی تین ملاقاتیں چیف آف آرمی اسٹاف سے ہوئیں جس میں تاجروں کو اعتماد دلایا گیا کہ آپ پیسا باہر نا لے کر جائیں یہیں پاکستان میں لگائیں ہم تحفظ فراہم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے اثرات ریئل اسٹیٹ پر پڑے ہیں۔
معاذ لیاقت نے کہاکہ جب کنسٹرکشن سیکٹر چلتا ہے تو اس سے 72 دیگر انڈسٹریاں چلتی ہیں۔ شہر میں تعمیرات تو ہورہی ہیں لیکن ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے میٹیریل بہت مہنگا ہوچکا ہے، اگر ریئل اسٹیٹ پر لگایا گیا ٹیکس کم ہوجائے تو اس کا بھی مثبت اثر پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت دبئی پیسا نہیں جا رہا، جو جا رہا تھا وہ رک چکا ہے۔ جہاں تک رہی بات بحریہ ٹاؤن کی تو جب چیز وافر ہو جاتی ہے تو اس کا خریدار نہیں ہوتا اور بحریہ ٹاؤن کا واپس اپنی قیمت پر آنا ممکن نظر نہیں آتا۔
’پراپرٹی کی قیمتیں پہلے ہمیشہ ڈیفنس میں اوپر جاتی ہیں‘ان کا کہنا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کی مثال ایسی ہے کہ کراچی میں جب بھی پراپرٹی کا کام چلنا شروع ہوتا ہے تو وہ ڈیفنس سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت یہی صورت حال ہے، منی ٹرانسفر کا سرکل شروع ہو چکا ہے۔
معاذ لیاقت کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے آنے سے نقصان یہ ہوا کہ پیسا اُدھر چلا گیا اور وہاں سے پیسا ملک سے باہر چلا گیا جبکہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ پیسا اس شہر میں یا ملک میں ہی گھومتا رہتا تھا۔
’ریئل اسٹیٹ نیچے آنے سے سرمایہ کار دوسرے کاروبار کی طرف چلے گئے تھے‘ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک اعظم معراج نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ریئل اسٹیٹ کی مارکیٹ 17-2016 سے ہی مندی کا شکار تھی۔ پھر 21-2020 میں تھوڑی بہتری نظر آئی لیکن نومبر 2024 تک تو اس انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ چکا تھا۔
اعظم معراج نے ریئل اسٹیٹ میں مندی کی وجوہات یہ بتائیں کہ ریئل اسٹیٹ نیچے آنے سے سرمایہ کار سونے، ڈالر اور اب اسٹاک مارکیٹ کی طرف چلے گئے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تناظر میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ اب پراپرٹی پر ٹیکس لگے گا اور جتنے کی پراپرٹی فروخت ہوگی اتنی ہی قیمت لکھی جائےگی، دوسری جانب شرح سود بڑھنے سے کچھ سرمایہ داروں نے بینکوں میں پیسا رکھنا شروع کیا اور اسی وجہ سے غیرآباد علاقے جیسے ڈی ایچ اے سٹی اور فیز 8 جیسے علاقوں کی قیمتیں بالکل نیچے آگئی تھیں۔
اعظم معراج نے مزید بتایا کہ اب یکم نومبر 2024 سے جو تین دہائیوں سے ریئل اسٹیٹ سے منسلک سرمایہ کار تھے وہ واپس ریئل اسٹیٹ کی طرف پلٹ چکے ہیں کیوں کہ انہیں اب یقین ہو چلا ہے کہ آئی ایم ایف کی کوئی بھی ایسی شرائط نہیں جس سے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے اور دوسرا یہ کہ شرح سود میں بھی بتدریج کمی واقع ہورہی ہے۔
’20 سے 40 فیصد تک پلاٹس کی قیمتیں اوپر جاچکی ہیں‘اعظم معراج نے کہاکہ کراچی میں ڈی ایچ اے فیز ایٹ میں قیمتیں بہت کم تھیں اور یکم نومبر 2024 سے یہاں پر لوگوں نے خالی پلاٹس خریدنا شروع کردیے ہیں جس کی وجہ سے کہیں 20 تو کہیں 40 فیصد تک قیمتیں اوپر آگئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں متحدہ عرب امارات کی رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کا پاکستان میں 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان
ان کا کہنا ہے کہ بات کریں ڈی ایچ اے سٹی کی تو وہاں قیمتیں بہت نیچے چلی گئی تھیں کیوں کہ وہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی وہاں بھی قیمتیں 30 سے 40 فیصد تک اوپر آچکی ہیں تو مجموعی طور پر ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ سات برس پرانے والی پوزیشن پر ریئل اسٹیٹ چلا گیا لیکن یہی سلسلہ رہا تو ریئل اسٹیٹ بہت جلد 7 سال پرانی پوزیشن پر پہنچ جائےگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئی ایم ایف بحریہ ٹاؤن پراپرٹی قیمتیں پراپرٹی ویلیو ایشن ٹیکس ریئل اسٹیٹ سیکٹر شعبہ تعمیرات قیمتوں میں اضافہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف بحریہ ٹاؤن پراپرٹی قیمتیں ٹیکس شعبہ تعمیرات قیمتوں میں اضافہ وی نیوز ریئل اسٹیٹ پر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پراپرٹی کی معاذ لیاقت ان کا کہنا کی قیمتیں نے کہاکہ کی قیمت کی طرف اور اس ہیں کہ ماہ سے
پڑھیں:
حکومت سندھ پاکستان کے معاشی حب کراچی کے انفراسٹرکچر پر توجہ دے، احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی مالیاتی حب ہے، صوبائی حکومت کراچی کے انفراسٹرکچر پر توجہ دے اور کے فور منصوبے پر کام کرے۔
پاکستان بزنس کونسل کے اراکین سے ملاقات کے بعد میڈیا بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے اڑان پاکستان پروگرام پر عمل درآمد پر بات کی، پاکستان کی ترقی میں کارپوریٹ سیکٹر کا کردار اہمیت ہے، بحرانوں کی وجہ سے سرمایہ کاری لانے کے لیے پبلک سیکٹر کی صلاحیت کم ہوئی ہے، نجی شعبے کو انجن آگ گروتھ بنانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ سیکٹر کے پاس بہترین انتظامی صلاحیت ہے، اڑان پروگرام کے اہداف کے حصول میں کارپوریٹ سیکٹر کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، حکومت نے نوجوانوں میں آئی ٹی کی صلاحیتوں میں اضافے کے پروگرام شروع کیے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی معیارات پر عمل درآمد کے لیے بھی کارپوریٹ سیکٹر کی مدد لیں گے، خواتین اور خصوصی افراد کے لیے بھی کارپوریٹ سیکٹر کے اقدامات قابل تعریف ہیں انہیں مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کے حصول میں بھی کارپوریٹ سیکٹر کا کردار اہم ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ سرکاری اداروں کےںغہر کارآمد اثاثے اور اراضی کو پبلک پرائیویٹ سرمایہ کاری سے فعال کیا جائے گا، وزارت منصوبہ بندی میں ورکنگ گروپ تشکیل دینے جارہے ہیں، ورکنگ گروپ نجی شعبے کے مسائل کو ترجیح طور پر حل کرنے میں معاونت کرے گا، کراچی اڑان پاکستان کگ رن وے کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بزنس کونسل نے تعاون کا یقین دلایا، پاکستان بزنس کونسل کی تحقیق معاشی پالیسیوں کی بہتری میں معاونت کرتی ہے، تک پاکستان کو ایک ٹریلین اکانومی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی مالیاتی حب ہے، ضروری ہے کہ کاروبار کو ہر قسم کی سہولتیں مہیا کی جائیں، وفاقی حکومت نے سائٹ ایریا کی سڑکوں کی تعمیر کے لیے 5 ارب روپے منظور کیے ہیں، صوبائی حکومت کراچی کے انفراسٹرکچر پر توجہ دے، حکومت کے فور پر 125 ارب روپے خرچ کررہی ہیں، اس کے ڈائون اسٹریم پر سنڈھ حکومت کو کام کرنا ہے،سنڈھ حکومت سے کہا ہے کہ اس پر کام کرے۔
احسن اقبال نے کہا کہ کراچی میں ویسٹ واٹر کو ری سائیکل کرنے کی ضرورت ہے، سمندر میں بغیر ٹریٹمنٹ پھینکنے کے بجائے زراعت اور صنعت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، کراچی کا پانی ٹریٹ کیا جائے تو انڈسٹری کے لیے کافی ہوگا، کراچی میں انفرااسٹرکچر کی بہتری میں وفاقی حکومت اپنا کردار ادا کریگی، وفاق نے واحد مکمل گرین لائن منصوبہ 25 ارب روپے کی سرمایہ کاری سے مکمل کیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حیدرآباد سکھر موٹر وے پر 2025 میں کام شروع ہوگا، تین سال میں یہ منصوبہ بھی مکمل کرلیا جائے گا، حیدرآباد کراچی موٹر وے کی نیو الائنمنٹ پر بھی وزارت مواصلات نے فزیبلیٹئ پر کام شروع کردیا ہے۔