اسلام آباد (خبر نگار خصوصی )بنگلہ دیش کی آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات کی ہے۔ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں نے خطے میں سلامتی کی بدلتی ہوئی صورتحال پر وسیع تبادلہ خیال کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کو بڑھانے کے لیے مزید راستے تلاش کرنے اور دوطرفہ مضبوط دفاعی تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فریقین نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان پائیدار شراکت داری کو بیرونی اثرات کے خلاف لچکدار رہنا چاہیے۔ آرمی چیف نے جنوبی ایشیا سمیت خطے کے ممالک میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ کوششوں کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ دونوں ممالک باہمی تعاون پر مبنی دفاعی اقدامات کے ذریعے علاقائی سلامتی میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔  لیفٹیننٹ جنرل قمر الحسن نے پاک فوج کی غیر معمولی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کی اور دہشت گردی کے خلاف انتھک جنگ میں مسلح افواج کی جانب سے دی گئی بے پناہ قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوششیں حوصلے اور عزم کی روشنی کا کام کرتی ہیں۔ ادھر  آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے خیبر پی کے  کے سیاسی قائدین سے پشاور میں بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سیاسی قائدین سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے اور پاکستان افغانستان سے ہمیشہ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ افغانستان سے صرف فتنہ الخوارج کی افغانستان میں موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک وہ اس مسئلے کو دور نہیں کرتے۔ آرمی چیف نے کہا کہ خیبر پی کے میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن  کیا جا رہا اور نہ ہی فتنہ الخوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عملداری ہے۔ صرف انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائی کی جاتی ہے۔ آرمی چیف نے سوال کیا کہ کیا فساد فی الارض اللہ کے نزدیک ایک بہت بڑا گناہ نہیں ہے؟۔  ریاست ہے تو سیاست ہے۔ خدا نخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہم سب کو بلا تفریق اور بلاتعصب، دہشت گردی کے خلاف یکجا ہونا ہوگا۔ آرمی چیف نے مزید کہا کہ جب ہم متحد ہو کر چلیں گے تو صورت حال جلد بہتر ہو جائے گی۔ آرمی چیف نے کہا کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن ان غلطیوں کو نہ ماننا اور ان سے سبق نہ سیکھنا اس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ عوام اور فوج کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے۔ اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر سب پارٹیوں کا اتفاق حوصلہ مند ہے مگر اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) بنگلہ دیش کی آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن جو کہ وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورہ پر ہیں، انہوں نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا سے بھی جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز میں تفصیلی ملاقات کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ملاقات میں مشترکہ سٹرٹیجک مفادات پر گفتگو ہوئی اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینے کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنمائوں نے فوجی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور شراکت داری کو کسی بھی بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا اور لیفٹیننٹ جنرل قمرالحسن نے علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے مسلسل تعاون کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا۔  جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ دونوں ممالک محفوظ اور خوش حال مستقبل کے لیے ایک مشترکہ وژن رکھتے ہیں جو مضبوط دفاعی تعلقات پر مبنی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل قمرالحسن نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کو سراہا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی قربانیوں کی تعریف کی۔ انہوں نے مسلح افواج کے عزم اور استقلال کو قابل ستائش قرار دیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: لیفٹیننٹ جنرل دونوں ممالک کے درمیان کے مطابق کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں دہشتگردی، سیاسی و عسکری قیادت کی اہم بیٹھک

اسلام ٹائمز: درحقیقت گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دہشتگردی کی کارروائیوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص قبائلی ضلع کرم میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہے، ریاست کا یہ دعویٰ کہ ملک میں ایسا کوئی علاقہ نہیں، جہاں دہشتگردوں کی عملدراری ہے اور ریاستی رٹ نہیں، درست نہیں۔ کیونکہ گذشتہ روز کرم کے علاقہ بگن میں مقامی دہشتگردوں نے ریاستی رٹ کو سرعام چیلنج کرتے ہوئے سامان سے بھرے ٹرکوں پر حملہ کیا اور فورسز کی موجودگی میں بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کیساتھ ساتھ لوٹ مار کرتے ہوئے متعدد ٹرکوں کو نذر آتش کر دیا۔ رپورٹ: سید عدیل زیدی

صوبہ خیبر پختونخوا میں جاری دہشتگردی اور بدامنی دن بدن ریاستی کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہے، اس حوالے سے صوبائی، وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے مابین رابطوں کا فقدان بھی ایک وجہ قرار دیا جا رہا تھا، گذشتہ دنوں پشاور میں صوبہ کی اعلیٰ سیاسی قیادت اور عسکری حکام کی ایک اہم بیٹھک ہوئی، جس کا ون پوائنٹ ایجنڈا ’’انسداد دہشتگردی‘‘ تھا۔ اس اہم ملاقات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی، مسلم لیگ نون، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی سمیت صوبے کی دیگر جماعتوں کے رہنماء موجود تھے۔ اس موقع پر صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پر مفصل گفتگو ہوئی۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس بیٹھک میں سیاسی قائدین نے اپنے خدشات اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو مؤثر بنانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مکمل قلع قمع کرنے کے حوالے سے ملاقات میں شریک تمام جماعتوں کا موقف واضح اور ایک نظر آیا، سینیئر صحافی صفی اللہ کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اجلاس تھا، عام طور پر ایسے اجلاس میں وزیراعلیٰ، گورنر اور پولیس کے سربراہ شریک ہوتے ہیں، مگر اس ملاقات میں سیاسی قائدین کے علاوہ سابق وزراء اعلیٰ کو بھی بلایا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا یہ سارے وہ لوگ ہیں، جو کسی نہ کسی اہم منصب میں رہ چکے ہیں، اسی لیے یہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس موقع پر ایک تو اندرونی معاملات کے حوالے سے اہم گفتگو ہوئی، دوسرا خطے کی بدلتے صورتحال پر بھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سابق اور موجودہ وزراء اعلیٰ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا۔ صفی اللہ کا کہنا تھا کہ ایک طرف افغان حکام کیجانب سے سخت بیانات آ رہے ہیں تو دوسری جانب موجودہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ بھی کابل کے حوالے سے سخت موقف اپنا رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں آرمی چیف کی سیاسی قائدین سے ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے، جس کا ان تمام معاملات سے براہ راست تعلق ہے۔

ملاقات میں اس بات پر سب کا اتفاق تھا کہ رسمی اور غیر رسمی طور پر افغان حکام کے ساتھ رابطے رہنے چاہئیں۔ اجلاس میں شریک سیاسی رہنماؤں کی رائے تھی کہ ریاست کی رٹ قائم کرنا اور عوام کو سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے گذشتہ کئی ماہ سے صوبے بالخصوص ضلع کرم میں امن و امان کی صورت حال بہت خراب ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے دوران صوبہ میں روزانہ اوسطاً دہشتگردی کے دو واقعات رونما ہوئے۔ اس لیے اس حوالے سے بیٹھک کی ضرورت تھی، تاکہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ اس ملاقات کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ جنرل عاصم منیر نے سیاسی قائدین سے ملاقات میں کہا کہ ہماری پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے، افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے اور پاکستان افغانستان سے ہمیشہ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے، افغانستان سے صرف فتنہ الخوارج کی افغانستان میں موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے اور اس وقت تک رہے گا، جب تک وہ اس مسئلے کو دور نہیں کرتے۔

آرمی چیف نے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی فتنہ الخوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عملداری ہے، صرف انٹیلیجینس کی بنیاد پر ٹارگیٹڈ کارروائی کی جاتی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے سوال کیا کہ کیا فساد فی الارض، اللّٰہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ نہیں ہے؟ ریاست ہے تو سیاست ہے، خدا نخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں، سب کو بلا تفریق اور تعصب دہشت گردی کے خلاف یکجا ہوکر کھڑا ہونا ہوگا، جب متحد ہو کر چلیں گے تو صورت حال جلد بہتر ہو جائے گی۔ انسان خطا کا پتلا ہے، سب غلطیاں کرتے ہیں، لیکن ان غلطیوں کو نہ ماننا اور ان سے سبق نہ سیکھنا اُس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ پاک فوج کی پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے، عوام اور فوج کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے، اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر سب پارٹیوں کا اتفاق حوصلہ مند ہے مگر اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔

پاکستان کی سابق اور موجودہ حکومت اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ افغانستان کی عبوری حکومت اور اس کی ناقص بارڈر مینجمنٹ پالیسیوں کو قرار دیتی رہی ہے۔ درحقیقت گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص قبائلی ضلع کرم میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہے، ریاست کا یہ دعویٰ کہ ملک میں ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں دہشتگردوں کی عملدراری ہے اور ریاستی رٹ نہیں، درست نہیں۔ کیونکہ گذشتہ روز کرم کے علاقہ بگن میں مقامی دہشتگردوں نے ریاستی رٹ کو سرعام چیلنج کرتے ہوئے سامان سے بھرے ٹرکوں پر حملہ کیا اور فورسز کی موجودگی میں بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کیساتھ ساتھ لوٹ مار کرتے ہوئے متعدد ٹرکوں کو نذر آتش کردیا۔ دہشتگرد کرم سمیت صوبہ کے کئی علاقوں میں ریاستی رٹ کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں، تاہم اب تک ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کی جانب سے دہشتگردی کو کنٹرول نہ کیا جانا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بنگلہ دیشی افواج کے پرنسپل سٹاف افسر کی سیکرٹری دفاع سے ملاقات، نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کا دورہ 
  • بنگلہ دیش فوج کے پرنسپل اسٹاف افسر ایس ایم قمر کی آرمی چیف کے بعد ایڈمرل نوید اشرف سے ملاقات
  • سربراہ پاک بحریہ سے بنگلہ دیشی لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کی ملاقات
  • بنگلہ دیش اورانڈیا،سیاسی تنا ؤاور کشیدگی
  • خیبر پختونخوا میں دہشتگردی، سیاسی و عسکری قیادت کی اہم بیٹھک
  • پشاور میں آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے، امید ہے چند دنوں میں حالات بہتر ہوجائیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر
  • بنگلہ دیشی جنرل کی ائرچیف سے ملاقات، جے ایف 17 تھنڈر طیاروں میں دلچسپی
  • بیرسٹرگوہر نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تردید کردی
  • بنگلہ دیشی افواج کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ایئر چیف سے ملاقات، جے ایف 17 تھنڈر طیاریوں میں اظہار دلچسپی
  • پاکستان اور بنگلہ دیش کا دفاعی شراکت داری کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کا عزم