اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ  دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے بیش بہا قربانیوں  کی بدولت فتنہ الخوارج ہمیشہ کیلئے دم توڑ جائے گا۔ پاکستان دوبارہ  امن کا گہوارہ بنے گا۔ پی آئی اے کے حوالے سے بندشیں ختم ہو رہی ہیں۔ لندن کی پروازیں بھی جلد بحال ہوں گی۔ وفاق صوبوں کے ساتھ مل کر تعلیمی میدان میں درپیش چیلنجز کو حل کرنے کے لئے متحرک کردار ادا کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں  نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے  کہا کہ افواج پاکستان نے آرمی چیف کی قیادت میں  فتنہ الخوارج کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ دن رات کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ بلوچستان میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں 27 دہشت گرد جہنم رسید کئے گئے ہیں۔ دیگر جگہوں پر بھی آپریشن جاری ہیں۔ بیش بہا قربانیاں دی جا رہی ہیں جن کا ہم سب کو  ادراک اور احساس ہونا چاہیے۔ ان قربانیوں کی بدولت  فتنہ الخوارج ہمیشہ کے لئے دم توڑ جائے گا اور پاکستان  انشاء اللہ دوبارہ  امن کا گہوراہ بنے گا۔ جیسے 2018 ء میں نواز شریف کی قیادت میں پاکستان میں امن قائم ہوا تھا ویسے ہی دوبارہ امن قائم ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ تاریخ ان قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔  وزیراعظم نے اسلام آباد میں اسلامی دنیا اور معاشروں میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے شاندار کانفرنس کے انعقاد پر وزارت تعلیم اور وزارت اطلاعات سمیت متعلقہ حکام کو شاباش دی۔ کہا کہ مسلم ممالک کے وزرائے تعلیم اور ملالہ یوسفزئی کی کانفرنس میں موجودگی خوش آئند تھی۔ تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے لیکن وفاق کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ وفاق کو صوبوں کے ساتھ مل کر تعلیم کے میدان میں جو مشکلات اور چیلنجز ہیں ان کو حل کرنے کیلئے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے تعلیمی ایمرجنسی ڈکلیئر کی تھی۔ وزیراعظم نے وزیر تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ صوبوں کے ساتھ قریبی  رابطہ استوار کرکے تعلیم کے میدان میں موجود مشکلات اور چیلنجز سے نبرد آزما ہوں، یہ قومی خدمت ہو گی۔ وزیراعظم  نے  پی آئی اے کی یورپ کے لئے پروازوں کی بحالی کو بڑی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ حکومت کے وزیر ہوابازی نے پارلیمان میں کھڑے ہو کر پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے جو تقریر کی، اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے اور پاکستان کے عوام اور معیشت نے اس کا خمیازہ بھگتا۔  وزیراعظم نے کابینہ کو پنجگور میں نئی پاک ایران سرحدی کراسنگ کے آغاز کے بارے میں آگاہ کیا اور کہا کہ اس سے قانونی تجارت کو فروغ ملے گا اور سمگلنگ کی روک تھام ہو گی۔ وزیراعظم نے اس سلسلہ میں ایران کے تعاون کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کابینہ کو بتایا کرم میں حالات اب معمول پر آرہے ہیں۔ مورچے مسمار کئے جارہے ہیں۔ خوراک اور ادویات کی سپلائی بحال ہو گئی ہے۔ وزیرا عظم نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈر امن قائم کرنے اور متحارب گروپس میں کشیدگی کے خاتمہ کے لئے مل بیٹھیں تاکہ آئندہ ایسا واقعہ نہ ہو۔ وزارت بجلی کی ٹاسک فورس تیزی سے کام کررہی ہے۔ جنکوزکا کیا کام ہے کہ وہ پیمنٹس لیں، وزیراعظم نے اس معاملہ پر حیرانی ظاہر کی۔ یہ سرکار کا کام ہے کہ وہ پیمنٹس لیں، سرکاری جنکوز کو ڈالر میں ادائیگیاں ہونا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کابینہ  اس حوالے سے  اقدامات کا جائزہ لے گی۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اور سردار اختر مینگل کے بھائی میر ظفر اللہ مینگل کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے نواف سلام کو لبنان کا وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ ایکس پر اپنی پوسٹ میں وزیراعظم نے  کہا کہ پاکستان لبنان کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ دریں اثناء وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اگلے پانچ سال میں آئی ٹی برآمدات کو 25 بلین ڈالر تک پہنچانے کیلئے کئے گئے اقدامات پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے ملک میں فائبر آپٹک کے ذریعے براڈ بینڈ سروسز کے فروغ کے لئے موجودہ رائٹ آف وے کے ضوابط کو مزید آسان بنانے اور آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان آنے کے خواہشمند کاروباری افراد کو ویزے کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کی  ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وزارت آئی ٹی کے امور پر جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ملک میں فائبر آپٹک کے ذریعے براڈ بینڈ سروسز کے فروغ کے لئے موجودہ رائٹ آف وے کے ضوابط کو مزید آسان بنایا جائے۔ وزیراعظم نے پی ایس ای بی کی سفارش پر بیرون ملک سے آنے والے آئی ٹی شعبے میں پاکستانی کمپنیوں کی خدمات لینے والے کاروباری افراد کو 24  گھنٹے میں ویزا جاری کرنے اور ملکی آئی ٹی شعبے کی مارکیٹنگ کے لئے حکمت عملی تشکیل دینے کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لئے آئی ٹی انفراسٹرکچر کو مزید بہتر بنایا جائے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے خصوصی صنعتی زونز، صنعتی اسٹیٹس کیلئے یکساں ٹیرف اور ان کو ایک پوائنٹ پر بجلی فراہمی اور ان کی انتظامیہ کو خود کنکشن دینے، بل اکٹھا کرنے اور دیگر معاملات نمٹانے کی اجازت دینے کی منظوری دے دی۔ منگل کو وزیراعظم آفس کے پریس ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس منعقد ہوا۔
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سفارش پر 14 انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی  کی تجویز کی منظوری دے دی۔ ان نظر ثانی شدہ معاہدوں کی رو سے 14  آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے بعد مذکورہ آئی پی پیز کے منافع اور لاگت میں 802  ارب روپے کی کمی کی تجویز منظور کی گئی ہے۔ ان آئی پی پیز سے گزشتہ سالوں کے اضافی منافع کی مد میں 35 ارب روپے کی کٹوتی کی جائے گی۔ ان آئی پی پیز میں 10  وہ ہیں جوکہ 2002 ء کی پالیسی کے تحت بجلی بنا رہے تھے جبکہ 4  وہ ہیں جو کہ 1994کی پاور پالیسی کے تحت قائم کئے تھے۔ اس کے علاوہ 1994 کی پالیسی کا ایک آئی پی پی کے ساتھ معاہدہ منسوخ کیا گیا ہے۔ اب تک آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدوں سے حکومت کو ان معاہدوں کے قابل اطلاق رہنے تک کل 1.

4 کھرب روپے کی بچت ہوگی جبکہ سالانہ 137 ارب روپے کی بچت ہوگی جس کا فائدہ صارفین کو پہنچے گا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدے بڑی کامیابی ہے جن سے نہ صرف  قومی خزانے کی بچت ہو گی، گردشی قرضہ ختم ہو گا بلکہ بجلی کی قیمت بھی کم ہو گی۔ انہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ کامیاب نظر ثانی شدہ معاہدوں پر  وزیر پاور، مشیر پاور، سیکرٹری پاور، اور اس حوالے سے قائم کی گئی ٹارسک فورس کے ممبران کی کارکردگی کو سراہا۔ وفاقی کابینہ نے وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کے حوالے سے تشکیل دی گئی کمیٹی کی سفارش پر وزارت انسداد منشیات کی وزارت داخلہ ڈویژن میں انظمام کی منظوری دے دی۔ اس انضمام کے بعد  انسداد منشیات ڈویژن وزارت داخلہ کے ایک ونگ کے طور پر کام کرے گا جبکہ اینٹی نارکوٹکس فورس وزارت داخلہ کا ایک ملحقہ محکمہ (attached department) ہوگا۔ اس انظمام سے  انتظامی معاملات، تنخواہوں، دفتری دیکھ بھال کے امور اور دیگر آپریشنل خرچوں کی مد میں قومی خزانے کو183.250 ملین روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ وفاقی کابینہ نے وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کے حوالے سے تشکیل دی گئی کمیٹی کی سفارش پر ہوا بازی ڈویژن کی ڈیفنس ڈویژن میں انضمام کی منظوری دے دی۔ اس انضمام سے  انتظامی معاملات، تنخواہوں، دفتری دیکھ بھال کے امور اور دیگر آپریشنل خرچوں کی مد میں قومی خزانے کو145 ملین روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ 2013 ء تک سول ایوی ایشن کے امور وزارت دفاع کے ماتحت تھے اس لئے حکومت کی کفایت شعاری کی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے ہوا بازی ڈویژن کو وزارت دفاع میں دوبارہ ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اقدام سے ائیر سپیس مینجمنٹ میں بہتری آئے گی۔ وفاقی کابینہ نے کابینہ ڈویژن کی سفارش پر پبلک پروکیورمنٹ رولز، 2004  میں ایک نئے سیکشن 45-اے کے اندراج کی منظوری دے دی۔ اس سیکشن کے تحت ایک پروکیورنگ ایجنسی پروکیورمنٹ کا تمام عمل یا اس عمل کا کچھ حصہ کسی دوسری پروکیورنگ ایجنسی کے حوالے کر سکے گی۔ وفاقی کابینہ نے وزارت انسانی حقوق کی سفارش پر نیشنل کمیشن فار مائیناریٹیز ایکٹ 2024 کو پارلیمنٹ بھیجنے کی منظوری دے دی۔ وفاقی کابینہ نے وزارت قانون و انصاف کی سفارش پر ڈاکٹر محمد بشیر کی بطور ممبر ٹیکنیکل انوائرمنٹ ٹریبیونل، اسلام آباد کنٹریکٹ کی بنیاد پر مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کی منظوری دے دی۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی سے بجلی کے صارفین کو قابل ذکرریلیف نہیں مل سکے گا. ماہرین

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 جنوری ۔2025 )پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں بجلی پیدا کرنے والے مزید 14 کارخانوں (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی سے سالانہ 137 ارب روپے کی بچت کے دعوی پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے صارفین کی مشکلات کم نہیں ہونگی.

(جاری ہے)

حکومت کی جانب جاری کردہ اعلامیے کے مطابق جن 14 کارخاںوں سے معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی گئی ان میں سے چار 1994 کی پاور پالیسی اور دس 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے آئی پی پیز ہیں پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی ان کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے اس وقت سے زیر بحث ہیں جب گزشتہ نگران کابینہ میں وزیرتجارت و داخلہ گوہر اعجاز کی جانب سے ان معاہدوں پر کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کی جانے والی رقوم پر تنقید کی گئی جو کئی سو ارب روپے بنتی ہے.

ملک میںگذشتہ دو، تین برس میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ کی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کرنے کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں اور تقسیم کار کمپنیوں نے اووربلنگ کا اعتراف بھی کیا تاہم حکومت کی جانب سے اس پر کوئی کاروائی کی گئی نہ ہی وصول کی گئی اضافی رقوم صارفین کو واپس کی گئیں.

اعلامیے کے مطابق وفاقی کابینہ نے مزید 14 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی معاہدوں پر نظرثانی سے قومی خزانے کو کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 137 ارب کی سالانہ بچت ہو گی اور صارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی واقع ہو گی وفاقی کابینہ کے نئے فیصلے کے بعد ملک میں ایسے آئی پی پیز کی تعداد 27 ہو چکی جن کے ساتھ حکومت نے بجلی کی خریداری کے لیے از سر نو معاہدے کی منظوری دی ہے.

پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں توانائی کے شعبے کی ماہر عافیہ ملک نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان معاہدوں میں حکومت نے ضمانت دی تھی کہ وہ’ ’ٹیک آر پے“ کے تحت بجلی کی قیمت ادا کرے گی یعنی کہ حکومت بجلی خریدے نہ خریدے وہ اس کی ادائیگی کرنے کی پابند ہو گی کیونکہ ان پاور پلانٹس کے لیے بیرونی و اندرونی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضہ لیا جاتا ہے اس لیے کمپنیوں کو اس قرضے کی ادائیگی کے لیے حکومت کی ضمانت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ کمپنیاں حکومت کی جانب سے بجلی خریدنے یا نہ خریدنے دونوں صورتوں میں بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی کر سکیں.

حکومت کی جانب سے جب اکتوبر 2024 میں پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی تو اس سے بجلی صارفین کے بلوں میں کوئی قابل ذکر کمی واقع نہیں ہوئی تھی کیونکہ ان معاہدوں پر نظرثانی کے بعد بجلی کے بل میں صرف 70 پیسے فی یونٹ کمی کا تخمینہ سامنے آیا تھا دسمبر میں آٹھ مزید آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد توانائی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا تھا کہ بیگاس(گنے کے پھوگ)پر چلنے والے آئی پی پیز کا بجلی کی پیداوار میں معمولی حصہ ہے اس لیے ان معاہدوں سے بجلی کے بل میں نہ ہونے کے برابر کمی واقع ہو گی بیگاس پر چلنے والے جن آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی ان کی سرکاری ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کے مطابق مجموعی پیداواری صلاحیت صرف 259 میگاواٹ ہے جس کا حصہ پاکستان کی مجموعی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں بہت کم ہے.

عافیہ ملک نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی کے بلوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی کیونکہ بیگاس سے چلنے والے ان کارخانوں پر بجلی کی مجموعی پیداوار میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں اور اب آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد اگر مجموعی کمی لی جائے تو وہ صرف ایک روپیہ فی یونٹ کے قریب ہے.

حکومتی ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 101 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں جن میں فرنس آئل پر چلنے والے کارخانوں کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد 19، پانی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے جبکہ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے.

عافیہ ملک نے بتایا کہ ان آئی پی پیز میں حکومتی آئی پی پیز بھی شامل ہیں جن میں پانی اور نیوکلئیر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں عافیہ ملک نے بتایا کہ اکتوبر میں ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد ہو چکا اور جن پانچ کمپنیوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا وہ اب ”ٹیک یا پے“ٹیرف سے ”ٹیک اور پے“ٹیرف پر آچکی ہیں یعنی اب حکومت جو بجلی خریدے گی اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی انہوں نے بتایا کہ ان پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر عملدرآمد ہو چکا جبکہ ان کی جانب سے سٹاک مارکیٹ میں اپنے شیئر ہولڈرز کو بھی اس بارے میں مطلع کر دیا گیا.

شعبہ توانائی کے تجزیہ کار سمیع اللہ طارق نے اس حوالے سے بتایا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اب ان معاہدوں کو نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی کو بھیجا جائے گا جو ان کے لیے نئے بجلی کے ٹیرف بنائے گا اور اس کی منظوری سے ان کمپنیوں کے لیے نئے پاور ٹیرف کا اطلاق ہو جائے گا کپیسِٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے.

ماہرین کے علاوہ حکام بھی تسلیم کرتے ہیں آئی پی پیزسے معاہدوں پر نظرثانی سے صارفین کو بہت معمولی فائدہ ہوگا کیونکہ اصل مسلہ ضرورت سے زیادہ ٹیکس‘سرچارجزاور دیگر پوشیدہ چارجزہیں رواں ماہ کے آغازپر ”نیپرا“کی جانب سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں فی یونٹ کم ازکم 20روپے کے ایسے اخراجات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو بلاجوازاور غیرضروری ہیں جبکہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت فی یونٹ اوسط 7روپے49پیسے میں بجلی خریدکرمہنگے داموں فروخت کرتی ہے اس کے علاوہ سرکاری محکموں‘پارلیمان‘اعلی سرکاری عہدیدران اور افسران‘اعلی عدلیہ کے جج صاحبان سمیت متعددسرکاری ونیم سرکاری اداروں‘حکام اور اہلکاروں کو مفت یا انتہائی کم ریٹ پر بجلی فروخت کی جاتی ہے .

ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سمیت اہم ترین سرکاری مراکز‘دفاتر‘رہائش گاہیں‘محکمے جو بہت زیادہ بجلی صرف کرتے ہیں وہ کم ریٹ کے باوجود بل ادانہیں کرتے کئی کئی دہائیوں سے ان کے ذمے پاور کمپنیوں کے اربوں روپے واجب الادا ہیں زیادہ سرکاری محکمے اپنے بجٹ میں تو واجب الادا بلوں کی رقم کو شامل کرتے ہیں اور عوامی خدمات کے عوض وصول کی جانے سرکاری فیسوں میں بجلی کے بل بھی وصول کیئے جاتے ہیں مگر ان کی ادائیگیاں نہیں کی جاتیں انہوں نے کہا کہ اعلی عدلیہ ہو یا اعلی سرکاری حکام ایسی بے ضابطگیاں سب کے علم میں ہیں مگر انہیں نظراندازکیا جاتا ہے لہذا توانائی کے شعبے کے اس ”خسارے“ کو پوراکرنے کے لیے سارا بوجھ عام صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے چونکہ پاکستان جیسے ممالک میں اعلی سرکاری شخصیات یا اداروں کی بجلی عدم ادائیگی پر منقطع کرنے کا کوئی تصور نہیں اس لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرح وزارت بجلی وتوانائی اور تقسیم کار کمپنیاں عام شہریوں سے اووربلنگ یا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ”خسارے“کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں.


متعلقہ مضامین

  • بجلی کی قیمت پر سالانہ نظر ثانی، متعدد گرانٹس، کئی اداروں کی تشکیل نو منظور
  • چین نئی امریکی حکومت کے ساتھ اختلافات کو مناسب طریقے سے  حل کرنے کے لئے تیار ہے، وزارت خارجہ
  • پورے پاکستان کا قرضہ صرف کراچی کے بجلی بلوں سے وصول کیا جارہا ہے
  • وفاقی حکومت صنعتوں کو سستی بجلی دینے کے لیے کوشاں
  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر ایرانی وزارت خارجہ کا بیان
  • چین کے خلاف امریکی تجارتی کریک ڈاؤن چین کی ترقی کو نہیں روک سکتا،چینی وزارت تجارت
  • قبل از وقت ریٹائرمنٹ؟؟؟ سرکاری ملازمین کیلئے اہم خبر آ گئی
  • کروز میزائلوں کی بارش، یو کرین بجلی کی بندش پر مجبور
  • چین کسی ملک کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوگا، چینی وزارت خارجہ
  • آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی سے بجلی کے صارفین کو قابل ذکرریلیف نہیں مل سکے گا. ماہرین