امریکی صدر یا دروغہ جہنم؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے پہلے کہا تھا کہ ’’20 جنوری کو میرے حلف اٹھانے سے پہلے اگر حماس نے اسرائیلی قیدی رہا نہ کیے تو غزہ کو جہنم بنا دوں گا‘‘۔ ہمارا خیال تھا کہ امریکا کا صدر جہاں دنیا کا سب سے طاقتور حکمران ہوتا ہے وہیں پر وہ سب سے زیادہ مہذب بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں مظلوم و محکومت عوام کی آزادی اور حفاظت کے لیے سب سے زیادہ توانا آواز امریکا میں سے آتی ہے۔ امریکا انسانی حقوق کا نہ صرف علمبردار ہے بلکہ عملاً بھی یہ انسانوں کو درندوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکا کا ڈالر غریب اقوام اور پسماندہ ممالک کی معیشت کو سہارا دیتا اور مضبوط کرتا ہے۔ مگر شاید ایسا نہیں ہے۔ زمینی حقائق ہمارے خیال کی نفی کررہے ہیں۔
امریکی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا جنگل بن چکی ہے جہاں طاقتور کمزور کا شکار کررہے ہیں۔ امریکا کے ظلم اور ناانصافی پر مبنی فیصلے دنیا کے امن کو تہہ بالا کررہے ہیں۔ امریکا آزاد اقوام کو غلام بنانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے خطرناک کھیل کھیل رہا ہے۔ مستحکم ممالک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سازشیں کرتا ہے۔ امریکی امداد خود انحصاری کے لیے نہیں بلکہ کشکول اُٹھائے رہنے کے لیے ہوتی ہے۔ امریکی افواج کی دنیا کے مختلف ممالک میں موجودگی اور آپریشنز درحقیقت دہشت گرد پیدا کرنے اور دہشت گردی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ امریکا کی خفیہ ایجنسی ’’سی آئی اے‘‘ کا نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے جو ٹارگٹ کلنگ سمیت امریکا مخالف حکومتوں کو گرانے اور امریکا نواز حکمران لانے میں مصروف رہتا ہے۔ امریکا کو کسی بھی ملک میں فوجی مداخلت کرنے کے لیے وہاں بدامنی اور دہشت گردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکی سفارتخانے دوستی کا حق ادا کرنے کے بجائے دشمنی کا کام کرتے ہیں۔ امریکا کی دشمنی سے زیادہ دوستی خطرناک ہے کہ جو اپنے دوست کو ہمیشہ کے لیے مفلوج اور محتاج کردیتی ہے۔ امریکا کے ’’ویٹو پاور‘‘ نے یو این او کو ناکام اور دنیا کے امن کو برباد کردیا ہے۔ عالمی برادری کو ’’برادری‘‘ کے طور پر امریکا نے کبھی قبول نہیں کیا۔ امریکا ’’بلاک‘‘ کی سیاست پر یقین رکھتا ہے۔ امریکی بلاک میں شامل ہونے کا مطلب آپ ایک وسیع جیل میں داخل ہوگئے جہاں داخلے کے وقت تو بہت سی مراعات اور وعدے موجود تھے مگر داخل ہوجانے کے بعد ہاتھ گردن سے باندھ دیے جاتے ہیں۔ بلاک سے نکلنے کی جو کوشش کرے گا اُسے انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔ امریکا کا فوجی اتحاد ’’ناٹو‘‘ ناٹو ممالک کی حفاظت سے کہیں زیادہ امریکا کے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کو دنیا پر بزور طاقت مسلط کرنے کے لیے ہے۔
’’غزہ‘‘ کو جہنم بنادینے کے حوالے سے نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے جو دھمکی دی ہے وہ گیڈر بھبکی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ غزہ تو پہلے ہی کھنڈر اور قبرستان بن چکا ہے اور یہ سب کچھ صرف اسرائیلی حملوں کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اس میں امریکی اسلحہ اور ڈالر بھی شامل تھے۔ فلسطینی مسلمانوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا، اِن کی عزت دار خواتین کی بے عزتی کی گئی، ان کے معصوم بچوں کو بھوکا اور پیاسا رکھ کر مارا گیا، ان کے اسپتالوں کو بمباری کا نشانہ بنا کر زخمیوں اور بیماروں کو تڑپتا ہوا چھوڑ دیا گیا۔ ان میں سے کچھ بھی بھول جانے والا نہیں۔ مذکورہ تمام جرائم میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر، جنرل اور دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی برابر کے ملوث ہیں لہٰذا امریکا کے نومنتخب صدر اچھی طرح سے جان لیں کہ اہل غزہ اپنے قاتل اور مجرم کو خوب پہچانتے ہیں۔ انبیاؑ کی سرزمین کو جہنم بنادینے کے خواب دیکھنے والے یہود و نصاریٰ اپنے تمام تر مظالم کے باوجود ناکام اور شرمندہ رہیں گے۔ جب تک مسجد اقصیٰ سے اذان کی آواز گونجتی رہے گی اور ایک بھی فلسطینی زندہ رہے گا تب تک ’’جہاد‘‘ جاری رہے گا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے پاس فوجی طاقت ہے اور وہ اہل غزہ پر ہیروشیما اور ناگا ساکی کی طرح ایٹم بم گرا سکتا ہے مگر یہ بم اب کچھ نہیں کرسکتے، اہل غزہ ڈیڑھ سال سے آگ اور خون کے دریا میں ڈوب کر بھی زندہ ہیں مگر پھر بھی اگر کوئی مزید قیامت لانا چاہتا ہے تو اپنا شوق پورا کرکے دیکھ لے، تاہم اس بات کا ضرور خیال رہے کہ اس دوران اگر کوئی ایک بھی فلسطینی مسلمان زندہ رہ گیا اور اس نے امریکی صدر کے سر کی قیمت مقرر کردی تو پھر کیا ہوگا؟
بہرحال سب سے اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ غزہ کو جہنم بنادینے والے صدر ٹرمپ اپنی حلف برداری سے صرف ایک ہفتہ پہلے اپنے وطن میں جہنم کا نظارہ دیکھ چکے ہیں۔ امریکا کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں آگ بھڑک اُٹھی۔ 15 ہزار کے قریب گھر جل کر راکھ ہوگئے۔ ابھی تک ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاچکا ہے۔آگ 145 مربع کلو میٹر تک کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں 40 کلو میٹر کا گنجان شہری علاقہ ہے۔ 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائوں نے آگ کو تیزی سے پھیلا دیا۔ درجنوں لوگ جل کر مرگئے، قیدی بھی فرار ہوگئے، لوٹ مار بھی شروع ہوگئی، کرفیو بھی لگادیا گیا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر سڑکوں پر آگئے، یہ ہے قدرت۔ اہل غزہ کے خلاف صدر ٹرمپ کے ناپاک ارادوں کی تکمیل سے پہلے بھی اللہ پاک نے امریکا کو سزا دے ڈالی اور ان شاء اللہ ٹرمپ کے دور صدارت میں مزید سزا بھی مل جائے گی۔
ہم آخر میں صدر ٹرمپ پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہودی قیدی دھمکیوں سے نہیں کسی اصولی معاہدے کے بعد ہی آزاد ہوسکتے ہیں۔ بصورت دیگر جنگ اور جہاد جاری رہے گا۔ اہل فلسطین کے لیے جنت اور امریکا و اسرائیل کے لیے جہنم کا دروازہ کھلا رہے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امریکی صدر امریکا کے کو جہنم کرنے کے اہل غزہ رہے گا کے لیے
پڑھیں:
20 جنوری کے بعد
کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب زندگی کو انجوائے کر رہا تھا‘ فائر پلیس میں آگ دہک رہی تھی اور صاحب ریشمی گاؤن میں گھوڑے کی کھال کے صوفے پر آگ کے قریب بیٹھا تھا اور فضا میں سگار کی ہلکی ہلکی خوشبو پھیل رہی تھی‘ ماحول میں آسائش‘ فراوانی اور خوش حالی کی مہک تھی‘ ہم جب دوسروں کے گھروں اور دفتروں میں جاتے ہیں تو ہمیں ہر گھر‘ ہر دفتر میں ایک خاص مہک ملتی ہے‘ یہ مہک اس عمارت میں رہنے والے لوگوں کے حالات اور ذہنی صورت حال کی گواہ ہوتی ہے‘ خوش حال لوگوں کے گھروں اور دفتروں کی مہک بیمار اور پریشان حال لوگوں کی عمارتوں سے مختلف ہوتی ہے اور پرسکون‘ مطمئن اور اللہ لوگ انسانوں کے گھروں کی فضا دولت‘ طاقت اور شہرت کے گھوڑوں پر سوار لوگوں کی رہائش گاہوں کی فضا سے مکمل الگ ہوتی ہے۔
صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کیوں کہ آسائش اور فراوانی سے نواز رکھا ہے لہٰذا ان کے ڈرائنگ روم میں خوش حالی کی خوشبو تھی‘ صاحب نے سگار کا کش لگایا اور ہوا میں دھوئیں کا سرکل بنا کر بولے ’’تم یہ پوچھنا چاہتے ہو 20 جنوری کے بعد کیا ہو گا؟‘‘ وہ اس کے بعد ہنسے اور اس وقت تک ہنستے رہے جب تک انھیں کھانسی کا دورہ نہیں پڑ گیا‘ میں انھیں حیرت سے دیکھتا رہا‘ انھوں نے ریشمی رومال سے آنکھیں صاف کیں اور پھر مجھ پر نظریں جما کر بولے ’’ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو حلف لے گا لیکن یہ یاد رکھو پاکستان کی باری مارچ اپریل میں اس وقت آئے گی جب ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت پڑے گی‘ ٹرمپ کا پہلا چیلنج یوکرائن اور غزہ ہو گا‘ غالب امکان ہے امریکا کی اسٹیبلشمنٹ اسے شروع میں ہی گھیر لے اور یہ غزہ اور یوکرائن ہی سے باہر نہ آ سکے اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہماری باری جلد نہیں آئے گی لیکن اگر ٹرمپ نے یوکرائن اور غزہ جلد نبٹا لیا تو پھراپریل میں ہماری باری آ جائے گی۔
یہ افغانستان کے ساتھ ہمیں بھی لپیٹ لے گا‘ طالبان کو ہر ہفتے امریکا سے 40 ملین ڈالر ملتے ہیں‘ یہ بند کر دیے جائیں گے اور اس کے بعد یہ ہم پر دباؤ ڈالے گا کہ تم لوگ افغانستان سے طالبان کی چھٹی کراؤ‘ کولیشن گورنمنٹ بناؤ اور ہم اس دباؤ میں پھنس جائیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ’’کیا افغانستان میں کولیشن گورنمنٹ ہمیں سوٹ کرتی ہے؟‘‘ وہ ہنسے اور پھر بولے ’’اس کا دارومدار حالات پر ہے اگر امریکا ہمارے ساتھ پیار سے پیش آتا ہے‘ یہ ہمارے مطالبات مان لیتا ہے اور ملک کے موجودہ جمہوری نظام کو سپورٹ کرتا ہے تو پھر ہم دس دن میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیں گے لیکن اگر ہمیں فوری فائدہ نہیں ہوتا تو بھی ہم یہ کام کریں گے مگر اس میں سال چھ مہینے لگ جائیں گے کیوں کہ طالبان کے بعد افغانستان میں جو حکومت آئے گی وہ بھارت کو دوبارہ قونصل خانے کھولنے کی اجازت دے گی اور اس کے بعد ایک بار پھر کابل میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ آ کر بیٹھ جائیں گے اور یہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
صاحب کے ڈرائنگ روم میں بڑی دیر تک خاموشی رہی‘ اس دوران صرف آتش دان کی لکڑیاں بول رہی تھیں یا پھر وال کلاک کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی‘ میں نے کھنگار کر گلا صاف کیا اور پھر آہستہ آواز میں پوچھا ’’کیا ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے لیے دباؤ ڈالیں گے؟‘‘ صاحب نے چونک کر میری طرف دیکھا اور ایک لمبا شیطانی قہقہہ لگایا‘ وہ دیر تک ہنستے رہے‘ یہ عموماً ایسی صورت حال میں ایسا ہی خوف ناک قہقہہ لگاتے ہیں‘ یہ ان کی ایکسائٹمنٹ کی دلیل ہوتی ہے‘ وہ رکے اور یک دم سنجیدہ ہو کر بولے ’’ضرور کرے گا لیکن اس کوشش کے پیچھے تین موٹو ہو سکتے ہیں‘ ہمارا ری ایکشن ان تینوں میں الگ الگ ہو گا مثلاً اگر امریکا ہمیں لیبیا‘ شام یا عراق بنانا چاہتا ہے تو پھر یہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرا کر سڑکوں اور گلیوں میں چھوڑ دے گا اور وہ چند ماہ میں پاکستان کو شام یا لیبیا بنا دے گا‘ ایسی صورت میں آپ یہ یاد رکھیں پاکستان میں لیبیا اور شام سے زیادہ قتل وغارت گری ہو گی کیوں کہ ہمارے ملک میں بے تحاشا اسلحہ ہے اور اگر خدانخواستہ یہ ایک بار باہر آ گیا تو پھر حالات کو سمیٹنا ممکن نہیں رہے گا لہٰذا امریکا اگر صرف بانی پی ٹی آئی کی رہائی چاہے گا تو پھر ریاست کو خوف زدہ ہو جانا چاہیے اور یہ ہو جائے گی اور اس کے بعد اس کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا عمران خان یا پھر ملک‘ آپ سمجھ دار ہیں۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں ریاست کیا فیصلہ کرے گی‘ دوسرا موٹو امر یکا عمران خان کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے‘ یہ اگر بانی پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانا چاہے گا تو یہ پھر اس کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح کرائے گا بالکل اسی طرح جس طرح امریکا نے ابوظہبی میں 2007میں بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کو آمنے سامنے بٹھا دیا تھا‘ امریکا خان کے کیس میں بھی کسی نہ کسی دوست ملک کو درمیان میں ڈالے گا اور وہ ملک جنرل عاصم منیر اور عمران خان کو اکٹھا بٹھا دے گا اور اس کے بعد نیا جمہوری سفر شروع ہو جائے گا لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کیوں کرے گا؟ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں‘ پہلی وجہ امریکا پاکستان میں امن چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے پاکستان جمہوری اور معاشی طور پر ترقی کرے‘ جو ظاہر ہے خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں‘ امریکا پاکستان کو معاشی اور جمہوری لحاظ سے کام یاب اور توانا کیوں بنائے گا؟ اور دوسری وجہ امریکا خان سے وہ کام کرانا چاہتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ یا جنرل عاصم منیر نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے چناں چہ ٹرمپ جب صلح کی کوشش کرائے گا تو ہمارے لوگ فوراً محتاط ہو جائیں گے۔
یہ سمجھ جائیں گے عمران خان کو اقتدار میں لانے کا مقصد کیا ہے لہٰذا یہ صلح کے باوجود عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دیں گے اور اس کے لیے انھیں کچھ بھی کرنا پڑا یہ کر گزریں گے‘ مجھے خطرہ ہے عمران خان کے کیس میں کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ ڈونلڈ ٹرمپ صلح کرائے‘ نئے الیکشن کا سلسلہ شروع ہو ‘ اقتدار پی ٹی آئی کو مل جائے لیکن عمران خان مائنس ہو جائیں‘‘ صاحب رکا‘ لمبی سانس لی اور پھر بولا ’’مجھے یقین ہے تم میری تھیوری کو سازشی قرار دو گے لیکن تم ذرا اس گیند کو میدان میں رکھ کر دیکھو‘ تمہیں بے شمار حقیقتیں نظر آنے لگیں گی اور میں اب تیسرے آپشن کی طرف آتا ہوں‘‘۔
’’آپ فرض کرو ڈونلڈ ٹرمپ کو عمران خان اور پاکستان دونوں میں کوئی دل چسپی نہیںاور یہ ہم سے افغانستان یا ایران سے متعلق کوئی کام لینا چاہتا ہے‘ اس کی خواہش ہے ہم افغانستان میں حکومت ختم کر دیں یا پھر ایران پر حملے میں امریکا یا اسرائیل کی مدد کریں اگر ٹرمپ یہ چاہے گا تو پھر یہ عمران خان کو بطور بارگیننگ چِپ استعمال کرے گا‘ یہ انسانی حقوق اور عدل وانصاف کی بات کرے گا‘ یہ ٹویٹ کرے گا پاکستان میں عدل اور انصاف کی بری حالت ہے‘ عمران خان کے ساتھ عدالتوں میں برا سلوک ہو رہا ہے اور جیل میں بھی اسے وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو ایک سابق وزیراعظم کو ملنی چاہییں وغیرہ وغیرہ‘ یہ پی ٹی آئی کے جمہوری حقوق کی بات بھی کرے گا‘ آئی ایم ایف کو بھی پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کا اشارہ کرے گا اور پاکستان پر دہشت گردی کا الزام بھی لگائے گا‘ اس دباؤ کا مقصد عمران خان کی رہائی یا اقتدار میں واپسی نہیں ہو گا۔
اس کا واحد مقصد پاکستان سے مزید رعایتیں لینا ہو گا اور اگر یہ ہوا تو پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا رویہ مکمل مختلف ہو گا‘ ریاست یہ دباؤ برداشت کرے گی اور ساتھ ساتھ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈائیلاگ کرے گی اور آخر میں امریکا کے ساتھ سمجھوتہ کرلے گی جس کے بعد امریکا عمران خان کو بھول جائے گا اور ہم امریکا کے مطالبات مان لیں گے اور یوں معاملہ نبٹ جائے گا‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور سگار کے کش شروع کر دیے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کو زیادہ چانسز کس آپشن کے محسوس ہوتے ہیں؟‘‘ صاحب نے ایک اور شیطانی قہقہہ لگایا اور بولا ’’تیسرے آپشن کے‘ امریکا کے پاکستان کے ساتھ تمام تر تعلقات دفاعی رہے ہیں۔
امریکا نے 1952 میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بنائے اور یہ آج تک جاری اور ساری ہیں‘ سیاست دان ترجیحات کی اس فہرست میں پانچویں یا چھٹے نمبر سے اوپر نہیں آتے چناں چہ یہ عمران خان کے لیے کبھی اپنے دیرینہ دوست یعنی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرے گا‘ دوسرا امریکا نے پچھلے 25برسوں میں بھارت پر بہت سرمایہ کاری کی‘ امریکا کا خیال تھا بھارت چین کی اقتصادی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنے گا مگر انڈیا چین کو روک نہیں سکا‘ اس خطے میں چار ایٹمی طاقتیں ہیں‘ روس‘ چین‘ بھارت اور پاکستان‘ ان چار میں سے تین امریکا کے خلاف ہیں‘ روس‘ چین اور بھارت لہٰذا خطے میں امریکا کا واحد دوست پاکستان ہے۔
یہ چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس نے سوویت یونین کو بھی توڑ دیا اور اس نے آج تک بھارت کو بھی ہلنے نہیں دیا‘ یہ درست ہے پاکستان کے چین کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں لیکن ہماری دوستی کی ترجیحات میں امریکا چین سے پہلے آتا ہے لہٰذا امریکا کبھی اس خطے کا اپنا واحد دوست ضایع نہیں کرے گا اور وہ بھی عمران خان کے لیے‘‘ صاحب خاموش ہو گیا‘ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’لیکن سر امریکا 25 کروڑ عوام کا کیا کرے گا؟ عوام عمران خان کو پسند کرتے ہیں!‘‘ صاحب کا رنگ سرخ ہو گیا اور اس نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔